دنیا کے کسی بھی مہذب معاشرے میں جہاں ، کوئی بھی مذہب رائج ہو ، وہاں جھوٹ بولنے کو انتہائی معیوب اور نہایت نا پسندیدہ کام سمجھا جاتا ہے۔ اگر یہ جھوٹ صرف انفرادی سطح پر ہو اور اس کے اثرات بھی محدود ہوں ، تو یہ کام شائد اتنے برے نتائج نہ دے مگر اس قبیح عادت کا دائرہ اگر قومی سطح تک محیط ہوجائے تو یہ چیز پورے معاشرے کی تباہی اور بربادی کا باعث بن سکتی ہے۔ برصغیر کے اندر بھی جہاں تحریک ِ آزادی کیلئے بہت ساری جماعتوں نے جدوجہد کی ، اور اپنی آواز کو مؤثر بنانے کیلئے مختلف حربوں کا استعمال کیا، وہاں بہت سارے واقعات کو محض گرمی دوراں کے واسطے گھڑ کر ان کو عوام کے اندر مشہور کردیا۔ اس پہ مستزاد اس جھوٹ کو پھیلانے کیلئے ذرائع ابلاغ کا بھی اس خوبصورت طریقے سے استعمال کیا گیا ، کہ عوام الناس کے اندر کسی دوسری بات کو سننےاور سوچنے کی صلاحیت کو ہی گویا سلب کرلیا گیا۔
بر صغیر میں تحریک ِ آزادی کی تاریخ 1857 سے شروع ہوتی ہے، تاہم اس وقت اجتماعی نظم و ضبط اور واضح نصب العین ان دونوں کی شدید کمی تھی۔ رفتہ رفتہ اس کام میں جب نکھار آیا اور قوم کے اوسان بحال ہونا شروع ہوئے ، تو دنیا کی دیگر اقوام کی طرح برصغیر میں بھی آزادی کی باقاعدہ تحریک نے سر اٹھانا شروع کردیا۔ اس سلسلے میں سب سے اہم پیش رفت کانگریس کا قیام ہے جس کو ایک انگریز نے ہی بنایا تھا، مگر بہت جلد ہندوستان کے باسیوں نے اس جماعت کی قیادت کو اپنے ہاتھ میں لیکر اسے آزادی و حریت کا علم تھما دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ برصغیر کے با شعور علماء بھی ان سے پیچھے نہ رہے اور سید احمد شہید کے وارث ہونے کے ناتے وہ بھی باقاعدہ طور پہ اس میدان میں آگئے۔ اگرچہ کانگریس میں اکثریت ہندو قوم کی تھی تاہم ، مقصد کے مشترک ہونے کے سبب مسلم اور ہندو قوم میں ایک فطری اتحاد پیدا ہوگیا، جو اس بدیسی طاقت یعنی سلطنت ِ برطانیہ کے واسطے ایک بہت بڑے خطرے کا نشان تھا۔
ہندوستان میں اس امن و آشتی کے ساتھ نشو ونما پاتی ان تحریکات ِ آزادی کو کچلنے کے واسطے ، انگریز سرکار نے وہی اپنا پرانہ حربہ ” تقسیم کرو اور حکومت کرو” کو اپنایا اور یہاں مفاد پرست اور انگریز کے کاسہ لیس غداروں کو ان کے مقابل آن کھڑا کیا، جنہوں نے عیاری ، مکاری اور جھوٹ سے اس تمام اتحاد کا ستیا ناس کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ چنانچہ اس طبقے نے ان ہر دو جماعتوں کے خلاف عوام الناس کے ساتھ اس قدر اور اس تواتر کے ساتھ جھوٹ بولا، کہ یہاں کی عوام اپنی اصل دشمن طاقت یعنی انگریز سے غافل ہوکر آپس میں گتھم گتھا ہوگئی۔ چنانچہ اس کے نتیجے میں ہندو مسلم اتحاد کا شیرازہ بکھر گیا اور یہ دونوں اقوام ، اپنے ہی لوگوں کے خلاف انگریز سرکار کی جائے پناہ ڈھونڈنے اور اس بدیسی طاقت کو اپنا نجات دہندہ سمجھنا شروع ہوگئے۔
یہ مفاد پرست عناصر کسی خاص قوم کے اندر نہیں ، بلکہ ہر قوم اور ہر طبقے کے اندر موجود تھے۔ تاہم مسلمانوں کے اندر اس طبقے کو وحدت کی لڑی میں پرونے کی غرض سے آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام 1906 میں عمل میں لایا گیا، جس کے پہلے صدر مشہور انگریز نواز اور قوم کے غدار سر آغا خان تھے۔ اس جماعت نے اپنے بنیادی منشور کے اندر اس بات کا خاص اہتمام رکھا کہ ، ان کے کسی بھی قول و عمل سے انگریز سرکار کی سبکی نہیں ہونی چاہیئے۔ بلکہ ان تمام عناصر کو جو اس غاصب قوت کے واسطے یہاں تقویت کا باعث بن سکتے ہیں، ان کی پوری پوری حفاظت کی جائے۔ چنانچہ اگر ہم اس دور کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں یہ بات نظر آئے گی، کہ جہاں کہیں بھی ہندوستان کے مفاد اور انگریز کے مخالف کسی بھی اقدام کیلئے فیصلہ کن مرحلہ آیا ، اس مفاد پرست طبقے نے بھر پور کوشش کرتے ہوئے اس کے خلاف عوامی جذبات کو اس لحاظ سے اکسایا کہ وہ مرحلہ ناکامی پہ منتج ہوا۔ جب برصغیر کے اندر جداگانہ انتخابات کی بجائے مشترکہ انتخابات کی بات گونجی، انہوں نے اس کے خلاف عوام کو جداگانہ انتخابات کی خوش کن بھول بھلیوں میں گم کردیا۔ اس کی وجہ صرف یہی تھی کہ مشترکہ انتخابات کا انعقاد برصغیر کی عوام کے مفاد میں جبکہ ، جداگانہ انتخابات انگریز کی مفاد میں تھے، لہذا ان کے یہ زرخرید غلام بھلا یہ کیسے گوارا کرسکتے تھے کہ ان کے آقاؤں کو کوئی تکلیف پہنچے۔
برصغیر میں مسلم قوم کا ایک بڑا طبقہ اس وقت علماء کرام کی آراء اور ان کے فیصلوں کو اہمیت دیتا تھا۔ چنانچہ اسی بات کے پیش نظر برصغیر کے باشعور علماء نے 1919 میں جمعیت علمائے ہند قائم کرکے ، علماء کی بکھری قوت کو ایک جگہ اکٹھا کیا تاکہ ان کی آواز موثر ہوسکے۔ اور اس فیصلے نے آگے چل کر یہ ثابت کیا ، کہ علماء کا ایک جگہ متحد ہونا کس قدر سود مند ثابت ہوا۔ تاہم مفاد پرست اور زرخرید یہ طبقہ پہلے تو اس جماعت سے کنارہ کشی کرتا رہا، مگر جب 1937 کے انتخابات کا موقع آیا اور آل انڈیا مسلم لیگ کو اپنی جیت کی کوئی راہ سجھائی نہ دی، تو جماعت کے سربراہ مسٹر محمد علی جناح نے جمعیت علمائے ہند کے ساتھ اشتراک کو شدت سے محسوس کیا۔ چنانچہ اس مقصد کو بنیاد بنا کر مسٹر جناح نے جمعیت علمائے ہند کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھایا ، تو دوسری طرف جمعیت نے بھی اسے نیک شگون سمجھتے ہوئے اتحاد کا فیصلہ کرلیا۔ لیکن جمعیت علمائے ہند کے اعلی عہدیداران جن میں مولانا حسین احمد مدنی صاحب سرفہرست تھے، انہوں نے مسٹر جناح کے سامنے سب سے پہلے یہ شرط رکھی کہ مسلم لیگ کو ان تمام مفاد پرست اور زرخرید غداروں سے پاک کیا جائے، اس کے بعد ہی جمعیت اور دوسرے ہندوستان کی آزادی کے متوالے اس جماعت میں شمولیت اختیار کرسکتے ہیں۔ اس شرط کو سن کر مسٹر جنا ح نے ہر قسم کے تعاون کا وعدہ کیا اور یوں اس وعدے کے بھروسے پہ جمعیت نے انتخابات میں مسلم لیگ کا ساتھ دینے کا اعلان کردیا۔ تاہم جیسے ہی انتخابات ختم ہوئے تو مسٹر جنا ح نے ان تمام غداروں اور مفاد پرست عناصر کو جنہوں نے کسی اور جماعت کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا ، اور جنہوں نے انتخابی مہم کے دوران مسلم لیگ کے امیدواروں کی مخالفت کی ، ان سب کو واپس جماعت میں لے لیا اور جو آنا نہیں چاہتے تھے ان کو لانے کیلئے بھی سر توڑ کوشش شروع کردی۔
اس ساری صورت ِ حال کو دیکھ کر مولانا حسین احمد مدنی نے ، مسٹر جنا ح کو اپنا پرانا وعدہ یاد دلایا تو مسٹر جناح نے ڈھٹائی اور بے مروتی کے ساتھ جواب دیا کہ وہ سیاسی وعدے تھے، اور ساتھ ہی یہ بھی گل افشانی فرمائی کہ جمعیت کو مسلمانوں کی سیاست سے کیا سروکار، مسلمان قوم کے واسطے مسلم لیگ موجود ہے۔ چنانچہ اس اتنے بڑے جھوٹ نے جہاں ایک طرف مسٹر جناح کی دلچسپی کو ظاہر کردیا، وہیں مسلمانوں کے اتحاد کو بھی پارہ پارہ کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔
ہندوستان پہ قابض انگریز سرکار نے ، اس بات کو شدت سے محسوس کیا ہوا تھا، کہ ہنوز مسلم قوم جمعیت کے جھنڈے تلے جمع ہے اور یہ اتحاد کسی بھی صورت میں اس کے مفاد میں نہیں۔ لہذا اس اتحاد کو توڑنے کیلئے جمعیت علمائے اسلام کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ، جس کی صدارت مولانا شبیر احمد عثمانی کے ہاتھ میں دی گئی، اور یوں ایک ہی مکتبہ فکر دو شاخوں میں منقسم ہوگیا۔ تاہم اس زمانے میں یعنی 1945 کے اندر جب یہ جماعت قیام کے ابتدائی مراحل میں تھی، کہ مولانا شبیر احمد عثمانی اور جمعیت علمائے ہند کے ایک وفد کے درمیان اس سلسلے مین گفت و شنید کا ایک دور دیوبند میں مولانا شبیر احمد عثمانی کے گھر پر ہوا۔ تاہم اس غیر رسمی اور نجی گفتگو کو ، کچھ ہی دن کے بعد “مکالمتہ الصدرین” کے نام سے کسی مولوی صاحب نے شائع کردیا، اور اس میں دکھلایا کہ کس طرح جمعیت علمائے ہند کا وفد مولانا شبیر احمد عثمانی کے ہاتھوں رسوا ہوا اور جمعیت علمائے اسلام کے موقف کے مقابلے میں اپنا مقدمہ بری طرح ہار گیا۔ لہذا جب یہ رسالہ شائع ہوا تو عوام الناس کے اندر ایک نئی بے چینی کا اضافہ ہوا، اور وہ سوچنے پہ مجبور ہوگئے کہ یہ سارا ماجرا آخر کیا ہے۔ چنانچہ اس ابہام کو دور کرنے کے واسطے مولانا حسین احمد مدنی نے اس کا جواب “کشف حقیقت ” کے نام سے شائع کروایا ، جس میں سے اہم نکتہ یہ اٹھایا کہ رسالہ ” مکالمتہ الصدرین” کے مصنف اس محفل میں سرے سے موجود ہی نہ تھے، تو ایسے میں اس رسالہ کی صحت کس قدر مشکوک ہوجاتی ہے یہ ہرصاحب ِ عقل انسان جانتا ہے۔ غرضیکہ اس رسالے کے اندر جو بھی جھوٹ لکھا گیا، مولانا مدنی نے اس کا تفصیلا ً جواب لکھ کر ناقدین کے منہ بند کردیے۔ لیکن افسوس کہ آج بھی ایک طبقہ ان حریت پسند علماء کے خلاف اپنے دل میں موجود بغض کو ظاہر کرتے ہوئے رسالہ ” مکالمتہ الصدرین” کا حوالہ تو ضرور دیتا ہے ، تاہم “کشف ِ حقیقت ” سے آنکھیں چرالیتا ہے۔