• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
کیا عوام بے شعور ہوتے ہیں؟ — تحریر: وقاص احمدکیا عوام بے شعور ہوتے ہیں؟ — تحریر: وقاص احمدکیا عوام بے شعور ہوتے ہیں؟ — تحریر: وقاص احمدکیا عوام بے شعور ہوتے ہیں؟ — تحریر: وقاص احمد
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

کیا عوام بے شعور ہوتے ہیں؟ — تحریر: وقاص احمد

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • کیا عوام بے شعور ہوتے ہیں؟ — تحریر: وقاص احمد
جھوٹ پر مبنی تاریخی مفروضہ — تحریر: واجد علی
مئی 21, 2020
انسانی آزادیوں کو درپیش خطرات!
جون 1, 2020
Show all

کیا عوام بے شعور ہوتے ہیں؟ — تحریر: وقاص احمد

یہ کہنا اور سمجھنا درست نہیں کہ ہماری عوام سیاسی اور معاشی حقوق کا شعور نہیں رکھتی.عوام ان معاملات سے کیسے لا تعلق ہو سکتی ہے جن پر ان کا اور ان کے بچوں کے مستقبل کا دارو مدار ہے .
مسلہ یہ ہے کہ عوام طبقاتی سیاسی نظام کے جبر کا شکار ہے جہاں مزدور اور کسان کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے کسی سرمایہ دار یا جاگیر دار کا ہی انتخاب کریں .سرمایہ کی طاقت سے لڑے جانے والے الیکشنز میں مزدور اور کسان کے حقیقی نمائندے ایک چھپے ہوئے میکانیکی عمل کے نتیجہ میں خود بخود نا اہل ہو جاتے ہیں.پھر نیم سرمایہ دارانہ اور جاگیر دارانہ سماج میں انفرادیت کا ایسا ماحول پیدا کیا گیا کہ لوگ اپنے کل معاشی اور سیاسی حقوق کی سوچ سے دستبردار ہو گئے اور اپنے محلے کی گلی پکی کروانا ،چھوٹے بیٹے کو چوکیدار کی سرکاری نوکری دلوانا یا تھانے دار کے خوف سے آزادی کا وعدہ ووٹ لینے کے لئے تقاضے کے طور پہ پیش کیے جانے لگے .شہر میں یہی سوچ 30 فٹ روڈ یا واٹر فلٹر کے وعدے کی شکل میں ووٹ حاصل کا وسیلہ ٹھہری .بہت تیر مارا تو کوئی اسکول یا ڈگری کالج علاقہ کے لئے منظور کروا لیا .۔

اب یہ انفرادی سوچ جو ایک گھر ،کمیونٹی ،محلہ یا قصبہ تک محدود ہوئی .اس کی بنیادی وجہ مایوسی ہے .1970 کے الیکشن شاید آخری الیکشن تھے جو بنیادی عوامی مسائل جیسے روزگار ،مہنگائی،خارجہ پالیسی اور قومی حقوق کے مطالبے پہ لڑے گئے .اس کے بعد جب الیکشن کے بار بار ادوار کے باوجود عوام کو کوئی ریلیف حاصل نہ ہو سکا تو عوام کے ایک حصّہ نے تو ووٹ دینے کو لایعنی عمل سمجھ کر کنارہ کر لیا اور دوسرے حصّے نے ووٹ کو انفرادی درجے کی سہولیات کی فراہمی کے لئے لین دین کا ٹوکن سمجھا .کچھ غریب تو اسے چند سکوں کے عوض بیچنے پہ بھی تیار ہو گئے .
یہی وجہ ہے کہ ووٹر ٹرن آوٹ اکثر الیکشن میں چالیس فیصد کے درمیان ہی رہتا ہے .اب یہاں سے روشنی کی ایک کرن پھوٹتی ہے .ایک طبقاتی سیاسی نظام میں جو سرمایہ کے بل پہ کھڑا ہو ،  اس نظام میں مزدور اور کسان کے نمائندے کیوں کر پارلیمنٹ میں پہنچ سکتے ہیں .لہٰذا ضرورت ہے کہ جمہوری سیاسی طریقے سے اس نظام پہ اپنے عدم اعتماد کا اظہار کیا جائے۔ جو ساٹھ فیصد لوگ اس نظام سے مایوس ہیں .انھیں اس مایوسی سے حکمت عملی کے سفر پہ گامزن کیا جائے .جو انفرادی فائدے کے لئے ووٹ کو استعمال کرتے ہیں۔ ان کو اس عمل کی بے مقصدیدیت کی طرف توجہ دلائی جائے اور کوشش کی جائے کہ جب تک سیاسی عمل میں طبقاتی سیاست اور سرمایہ کی اولیت کو ختم نہیں کیا جاتا .کسان اور مزدور کے حقیقی نمائندوں کو برابر کی سطح کی مقابلہ بازی کے مواقع پیدا کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات نہیں کیے جاتے تو الیکشن کے عمل سے عوام دور رہیں.
اگر عوام اس بات پہ قائل ہو کر الیکشن کے عمل سے دستبردار ہو جائے تو یہ نظام خود ٹوٹ جائے گا .آپ خود سوچیں کہ دس سے بارہ فیصد ٹرن آوٹ والے الیکشن کی اخلاقی حیثیت کیا ہو گی اور لامحالہ سسٹم کو بدلنا پڑے گا.محض شکلیں بدل بدل کر سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کو چنتے رہنے کی آزادی سے کسی حقیقی تبدیلی کا ممکن ہو جانا اشرفیہ کا سب سے بڑا ڈھکوسلہ ہے …

مناظر: 245
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جون 13, 2022

عمران خان کا یہ قصور کم نہیں تھا!


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ