امام ابوحامد محمد بن غزالی طوسی المتوفی ۵۰۵ھ۔ مجدد وقت تھے اور شافعی مذہب رکھتے تھے۔ نظام الملک طوسی کے زمانے میں مختلف الخیال علماء سے انہوں نے مناظرے شروع کئے اور حجت میں غالب آئے ان کے کمال علم و فضل کو دیکھ کر ۴۸۴ھ میں مدرسہ نظامیہ بغداد کی صدارت انہیں سپرد کی گئی۔ لیکن انہوں نے بہت جلد اس خدمت سے سبکدوشی حاصل کر لی۔
یونانی حکمت کو بنیادی طور پر رد کرنے کے لئے انہوں نے ایک کتاب ’’تہافتہ الفلاسفہ‘‘ (فلسفیوں کا کھوکھلا پن) کے نام سے لکھی جس نے فکر و نظر کی دنیا میں ہلچل مچا دی۔ اس کے علاوہ انہیں کے زمانے میں ایک بین الاقوامی فتنہ کا ظہور ہوا جسے باطنیت کہتے ہیں۔ اس فتنے کے چار نشانے تھے۔
عمائدین اسلام کو قتل کرنا.
اسلامی اقتدار کا خاتمہ.
شریعت مصطفوی کی معطلی۔
صوفیوں کو آلۂ کاربنانا اور عوام کو گمراہ کرنا۔
امام غزالی نے اس کے ردمیں بھی کتابیں لکھیں۔
طریقت میں انہوں نے حضرت بو علی خارمدی سے فیض باطن حاصل کیا تھا ۔ جس کی برکت سے وہ فلسفہ و حکمت کی الجھنوں سے نکل کر جنیدی مسلک کی طرف واپس آ سکے اور لطائف جنیدی تک رسائی حاصل کر کے ذات انسانی کے اسرار کو سمجھ سکے۔ ذیل میں احیائے علوم الدین سے کچھ اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں۔
احیائے علوم الدین مصنفہ امام غزالی٭
ترجمہ باب اوّل جلد سوم۔قلب، روح، نفس اور عقل کیا ہے۔ بہت کم ایسے لوگ ہیں جو ان چاروں الفاظ کے مفہوم کو الگ الگ سمجھتے ہیں اور ان الفاظ کے مختلف المعنی
ہونے سے واقف ہیں۔قلب طبّی اور ہے لیکن قلب انسانی ایک لطیفۂ روحانی ہے جو قلب جسمانی سے وابستہ ہے۔ یہی لطیفہ ’’حقیقت انسانی‘‘ کہا جاتا ہے۔ غرض یہ کہ اس کتاب میں جس جگہ ہمقلب لکھیں گے اس سے یہی لطیفہ مراد ہوگا۔
ترجمہ٭دوسرا لفظ روح ہے اس کتاب میں طبی روح سے بحث نہیں بلکہ روح سے مراد ایک لطیفہ مدرکہ ہے جو انسان میں ہے اور آیت قُلِ الرّوح مِن اَمَر رَبّی میں اسی روح کیطرف اشارہ ہے لیکن اس کی حقیقت کے بیان میں عقل انسانی عاجز ہے۔
ترجمہ: تیسرا لفظ نفس ہے یہ کئی معنوں میں مشترک ہے۔ ان مفہومات میں صرف دو معنی ہمارے موضوع سے متعلق ہیں۔
ترجمہ: اوّل یہ کہ نفس انسانی وجود میں ایک ایسی شے ہے۔ جو شہوت و غصب کا مرکز ہے۔ عام طور پر اہل تصوف کے یہاں یہی معنی مراد لئے جاتے ہیں۔ اسی بناء پر لوگ کہتے ہیں کہ مجاہدہ نفس کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔دوسرے معنی نفس کے یہ ہیں کہ نفس ایک لطیفۂ ربانی ہے جس کا ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں اور اس اعتبار سے درحقیقت ’’انسان‘‘ وہی ہے اور نفس انسانی اور ذات انسانی بھی اسی کو سمجھنا چاہئے۔
امام غزالی کے نزدیک ذات انسانی اپنے ’’ادراک مخفی‘‘ کے لحاظ سے کئی پہلو اور کئی نام رکھتی ہے۔ لیکن ان تمام لطائف کی حقیقت واحد ہے۔ متاخرین میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کا بھی یہی مسلک ہے۔ مجددی مسلک اپنی جگہ منفرد ہے۔ ان کے یہاں ان تمام لطائف کی اصلیں الگ الگ ہیں اور ان کا مقام ماورائے عرش ہے۔