زندگی ہر جاندار کو عزیز ہے ۔اس میں انسان و حیوان کی کوئی تمیز نہیں لیکن چونکہ انسان زندگی سے زیادہ آشنا ہے اس لئے وہ بقائے حیات کے لئے زیادہ متردد ہے بلکہ حیات دوامی کاخواہش مند ہے اورچاہتا ہے کہ ایسی زندگی حاصل کرے جسے عام حالت میں عقل کامل اور خاص حالت میںعشق کہاجاتا ہے۔ زندگی ¿جاویدتو نا ممکنات میں سے ہے، مگر یہ ممکن ہے کہ انسان کو اپنی معرفت حاصل ہو جائے اور موت کے علل سے آگاہ ہو۔ انسانی تاریخ پیدائش آدم علیہ السلام سے قیامت تک اسی کوشش و سعی میں مصروف ہے اور رہے گی کہ وہ بقائے دوام سے ہم کنار ہو جائے۔ ابھی تک یہ کوشش ناکامی سے وابستہ ہے لیکن اس سے بہت سی دیگرمعلومات حاصل ہوئی ہیں، جنہیں علم و فن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، گویا مقصود اصلی تو ناپید ہے اور اس کی فروعات حاصل ہیں، جو آتش عشق کو فرو کرنے کی بجائے یا کم از کم اس کے التہاب کو مدہم کرنے کی بجائے اسے ہوا دیتی ہیں۔ اگرچہ علوم و فنون مقصود حقیقی نہیں ہیں، لیکن تفریحی و اتفاقی بھی نہیںکہے جاسکتے۔ ان سے انسان کی فقط یہی امید وابستہ ہے کہ شاید ان کے وسیلے سے محبوب کادامن ہاتھ آجائے۔
فلسفہ اس کے اہم و سائل میں سے ایک ہے جسے عقلاءنے اس روحانی درد کا علاج تصور کیا ہے۔ اگرچہ اس سے بھی ابھی تک کوئی اہم نتیجہ ظہور پذیرنہیں ہوا، تاہم حکماءمایوس نہیں ہوئے۔ انہیں یقین ہے کہ یہ ان کے درد کا علاج بن سکے گا۔
hend-1
ہرایک فلسفی ایک خاص فلسفہ رکھتا ہے اوراپنے سلیقہ، ذوق اورمعلومات کے مطابق خوشی و غم اورمرگ و زیست کی تاویل و تفسیر کرتا ہے اورکوشش کرتا ہے کہ جوکچھ اس کے لیے اچھا یا برا ہے، خواہ موجود ہے یا ہوگا، اس سے آگاہ ہوجائے۔ وہ سوالات ذیل کا جواب چاہتا ہے۔
انسان کیا ہے؟ اس کی ابتدا کیسے ہوئی؟ انجام کیا ہوگا؟ دنیا کیا ہے؟ کیا دنیا اور اس کی اشیاءخود بخود ظہورپذیر ہوئیں یا ان کاکوئی اور خالق ہے؟ اپنی اوردوسروں کی معرفت کیسے حاصل ہو؟ سعادت کیا ہے؟ لذت کیا ہوتی ہے؟ہم میں خامیاں کیوں ہیں اورکیسے دور ہو سکتی ہیں؟
انسانی اعمال نیک و بد، خیر و شر، ستم و عدل انہیں سوالات بالا کے جوابات ہیں۔ انسان اپنی اندرونی تحریکات کے باعث مجبور ہے۔ انہیں سوالات کے جوابات فلسفہ کہلاتے ہیں۔
ابتدامیں فلسفے کے سوالات مختصر اور سادہ تھے لیکن مرورِزمانہ سے مفصّل اورپیچیدہ ہوتے گئے۔ ایک اصل سے اتنی فروع پیدا ہوئیں کہ طالبِ فلسفہ کے لئے ان تمام سوالات و جوابات کا حافظے میں محفوظ رکھنا ناممکن ہوگیا۔ لہٰذا وہ مجبور ہوا کہ بہت سی فروع میں سے ایک کو منتخب کرلے اور اسے سمجھنے میں عمر گزار دے۔
اگر ہم فلسفے کو وسعت مفہوم کے مطابق تقسیم کریں تو اس کے دو حصے ہوں گے۔ اول مغربی جو مغربی فلسفہ کاطریق ہے۔ دوسرا مشرقی جو ایشیاءکے ساتھ مخصوص ہے۔
مشرق میں اگرفلسفہ و مذہب متحد نہ ہوں تو بھی متقارب ضرور ہوتے ہیں۔
مذہب فلسفہ بن جاتا ہے اور فلسفہ مذہب لیکن مغرب میں یہ تعلق ضرور ی نہیں ۔
مغربی فلسفے کی بنیادیں مندرجہ ذیل ہیں:
1. خالق کائنات کی تحقیق۔
2. مادہ جس سے اشیاءصورت پذےر ہوئیں
3.حقیقتِ بشر۔
4.مقصودِ عقل۔
5 کسی چیز کو استدلال ، عقل، تجزیہ اور تجربہ سے سمجھنے کا طریق۔
6.تہذیبُ الاخلاق۔
7. اجتماعی زندگی اور اس کی بہترین صورت۔
8.فہم و عقل۔
9. حسن شناسی۔
اگرچہ مشرق میں بھی کم و بیش یہی عنوان ہیں، لیکن مشرقی فلسفی ایک مخصوص نقطہ ¿ نظر سے بحث کرتا ہے جو آخر کار خود شناسی، خدا شناسی، پاکیزگی ¿ افکار، تزکیہ ¿ نفس و اعمال پرختم ہوتا ہے ۔ مشرقی فلسفے میں علمِ ریاضی، موسیقی، ستارہ شناسی اور طب کو اہم شمار کیا جاتا ہے اورفزکس اورسائنس کو بھی فلسفے میں شامل کیا جاتا ہے۔
ہندی فلسفی جب اپنے افکار بیان کرناچاہتا ہے تو پہلے سلف کے افکار پیش کرتا ہے۔ ان پرتبصرہ اور تنقید کرتا ہے۔ اس طرح مجملاً دوسرے طریق بھی واضح ہو جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے ہندی فلسفہ ذیل کے چار حصوں میں منقسم ہو جاتا ہے۔
1.پروہ پکشا یعنی افکارِ سلف۔
2.کند،نا یعنی افکار سلف پر انتقاد۔
3.اتراپکشا یعنی شرع افکارِ نو۔
4.سدھانتا یعنی نتیجہ افکار ِنو۔
اس طرح ہندی فلسفہ دو بڑے حصوں میں منقسم ہو جاتا ہے۔
1. استیکہ۔ ویدک فلسفہ جو الہامی متصور ہوتا ہے۔
2. نستیکا۔ افکار مستقل و آزاد۔
علم کی دو اقسام ہیں۔
1.ایک وہ علم جو حواس پنچگانہ ، اورتجزیہ و تجربہ سے حاصل ہوتا ہے۔ یعنی مادیات کا علم۔
2.وہ علم جو قیاس و استدلال سے حاصل کیا جاتا ہے۔ یعنی مجردات کا علم۔
کیا انسانی فکر بعض سوالات کے سمجھنے کے لئے کافی ہے۔ جیسے خدا ہے؟ جان ہے؟ اگریہ ہیں تو کیا ہیں؟ زندگی کیا ہے کہاں سے آئی ہے؟ موت کیا ہے؟ کائنات کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ کیاان سوالات کو ہرآدمی سوچ سکتا ہے اور جانتا ہے؟
اس کے جواب میں بعض مشرقی مفکرین نے کہا ہے کہ فکران مسائل کے حل کے لئے کافی نہیں ہے۔لیکن بعض ایسے بزرگ پیداہوتے ہیں جو فوق العادت دماغ کے مالک ہوتے ہیں۔ وہ بعض مشکلات کی تہ تک پہنچ جاتے ہیں اورانہیں حل کرلیتے ہیں۔ اسی لئے ہمیں چاہئے کہ ہم ان کے اقوال کو صحیح اور درست سمجھیں اوران کے نتائج کی بنیاد پر سوچیں۔ بعض نے اس سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو ئندہ یا بندہ۔ پس وسیلہ تفکر کے یہی دو طریقے ہوئے۔ ہندوستان اور ایران اورتمام ایشیائی ممالک میں تفکر کو ریاضت، قناعت، ترک خواہشات ، خدا پرستی اور سادگی سے ملا دیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے جیسا کہ بتایا جاچکا ہے، مفکرین کچھ عرصہ کے بعد روحانی اور دینی ہو جاتے ہیں، لیکن مغرب میں فلسفی کا تفکر ، مفکرین کے فکری حدود سے باہر نہیں جاتا اورالہام و خدا پرستی پیدا نہیں ہوتی اورجو لوگ اس سے آگاہ ہو جاتے ہیں وہ یا توانہیں قبول کرلیتے ہیں یا انکار کردیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ایشیاءمیں افکار و فلسفہ اِمتداد زمانہ سے مذہبی ہوگئے اوربجائے خود وسعت پذیر ہوکر بھی استقلال فکر سے عاری نہ ہوئے اوراپنے کمال پر پہنچ گئے۔ لیکن یورپ میں ہرفکر صاحبِ فکر سے متعلق ہے اور اس کے فلسفے کے نام سے معروف ہے۔ ممکن ہے کہ ایشیاءمیں کوئی فلسفی روحانی بزرگ بلکہ خدا کا مظہر ہو جائے اوراس کی گفتار بلند ہو کرالہامی ہو جائے حتیٰ کہ وہاں تک عقل کی رسائی ناممکن ہو، لیکن مغربی فلسفی مثلاً سقراط، افلاطون اور ارسطو وغیرہ میں سے کسی کو درجہ روحانی و پیغمبری حاصل نہیںہوا۔ اسی لئے ان کے افکار کو باوجودیکہ ہم پسند کرتے ہیں الہامی نہیں کہہ سکتے۔
افکارِ فلسفہ قوم کی شائستگی اوردانش مندی کی بنیاد ہیں۔ اسی لئے جب تمام فلسفیوں کے افکار کو جمع کیا جائے تو وہ اساس دانش و فرہنگ بن جاتے ہیں۔ پس کسی قوم کی دانش مندی اس قوم کے فلسفیانہ افکار میں تلاش کرنی چاہیے۔ یہ صحیح ہے کہ ہر فکر کی قدر و قیمت اس کے حسن و قبح پر منحصر ہے جسے عمل ظاہر کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندی فلسفی اپنے مصنفات کے دیباچے میں بتا دیتے تھے کہ ان کی تصنیف کا مقصد کیا ہے اور مطالعہ کرنے والے کے لیے کیوں مفید ہے۔
فلسفیانہ سوالات ہرقوم کے ماحول کانتیجہ ہوتے ہیں۔ مثلاً یونانی فلسفی کے لئے یہ سوالات اہم ہیں۔ زندگی کیا ہے؟ کسی چیز کی حقیقت کیا ہے؟ اگرایسا ہے توکیوں ہے؟ اگرنہیں ہے تو کیوں نہیں ہے؟ حسن کیا ہے ؟ سعادت اور خوش بختی کیسے حاصل ہوتی ہے؟
ہندی فلسفہ ، رنج کس وجہ سے ہے؟ بے چارگی کا باعث کیا ہے؟ جان ہے یا نہیں ہے؟ قیود زندگی کہاں سے اورکیسے فراہم ہوئی ہیں؟ ان سے رہائی کس طرح ممکن ہے؟ کسی چیز کی اصل و حقیقت کیا ہے؟ کے جوابات پرمحیط ہے۔
ایرانی فلسفہ، مرگ وزیست، شکست و بست، رنج و شادی، جسم و جان اوران کے آپس میں تعلق،کائنات کے نظم و بے نظمی اورانسان کے فرائض سے متعلق ہے۔
ہند و ایران میںفکر و استدلال کی بنیاد اس پرُ ہے کہ زندگی خواہ رنج و سختی سے پُر ہو خوشی و امن و سکون سے انجام پذیر ہونی چاہئے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہندی مفکر پریشانی سے ابتدا کرکے امید تک پہنچتا ہے اور ایرانی کی ابتدا پر امیدی، کشمکش اورانجام فتح مندی ہوتا ہے۔
ہند و ایران کے مفکرین تسلیم کرتے ہیں ، کہ ہر بے نظمی میںایک نظم بھی پوشیدہ ہے۔اس نظم کو توازن کہتے ہیںسنسکرت میں یہی توازن رتہ( Rta)اور فارسی میں اشہ یا ارتہ ہے۔ وہ اسے نہایت مقدس خیال کرتے ہیں اور اپنے گیتوں میں اس کی تعریف کرتے ہیں۔ یہ الٰہی قانون ہر چیز کے کمال کا راہنما ہے اوراسے عالم خیال میں مجسم دیکھتے ہیں ۔ ایرانی اسے ارتہ، اشہ، ہشتہ یا سروش کہتے ہیں اور سامی اقوام جبرئیل کے نام سے یاد کرتی ہیں۔
فلسفہ میمامسہ ( Mimamsa)میں ہے،کہ پجاری اورمرتاضین گناہوں سے پاک اورخوش بخت ہو کر حیات جاوید کے مالک بن جاتے ہیں۔
بودھی اورجینی فلسفہ کرم (Karma) یا عمل کا قائل ہے۔ ان کے خیال میں فقط ”کرم“ ہی انسان کوخوش بخت یا بدبخت بناتا ہے ۔ چونکہ ہر عمل کی قیمت ہے اس لئے کوئی کام کرنے سے پہلے اس کی حمایت کا اندازہ کرلینا چاہئے۔
ہندی و ایرانی مفکرین کااس پر اتفاق ہے کہ صرف معرفت انسان کو گناہوں سے پاک نہیں کرسکتی۔ عمل بھی نہایت ضروری ہے اورحیوانی نفس کو قدسی نفس کامطیع و فرمانبردار بنانا چاہیے۔ کیونکہ نفسانی خواہشات شراروں کی طرح اچھلتی رہتی ہیں، اس لئے ہمیشہ مراقبہ اور ریاضت سے ان کی اچھل کود کا سدباب کیا جائے، کیونکہ یہ آہستہ آہستہ اپنے دھوئیں سے ذہن کو تیرہ و تار کردیتی ہیں اور دانش کو جہالت سے بدل دیتی ہے۔
اقوام قدیمہ نے ابتداءمیں مظاہر قدرت خورشید، چاند، زمین، آسمان ستارے اور عناصر اربعہ کو دیکھا اوران کے متعلق سوچا۔ ان کی پرستش کی۔ وید، اوستااور افکارِ ہومر وغیرہ انہیں اشیاءسے متعلق افکار ہیں۔ ان نظموں میں ستائش مظاہر مذکورہ کے ضمن میں کبھی کبھی ایک حقیقت کی طرف اشارہ ملتا ہے، مگر صاحب افکار حیران ہے کہ اس کی تعریف کیوں کرکرے۔
اقوام ماضی خیال کرتی تھیں کہ اگر اپنی عزیزو محبوب اشیاءکو خدا کے حضور پیش کریں تو وہ ان سے خوش ہو کر ان کے ا فکار و اعمال اور آرزوﺅں میں مدد گار ہوگا، اسی بنا پر مذہبی رسوم، عبادت، قربانی اور نیاز ایجاد ہوئیں، جوروز بروز وسیع ہوتی گئیں۔ جب وہ زمانہ آیا کہ وید کو مقدس اور الہامی تسلیم کیا گیا تو اس کی تفسیر و تاویل میںبزرگان مذہب و مفکرین کے دو گروہ ہوگئے۔ ایک صرف عمل کا قائل تھا۔ جس سے مراد عبادت و رسوم دین تھیں۔ دوسرا وید کی عبارت سے افکار فلسفہ استنباط کرنے اور افکار بسیط و مجمل کو مرکب و مفصل کرنے لگا، جس سے افکار فلسفہ واخلاق کا آغاز ہوا۔ اس مرتبہ اس کا نام ” اوپانی شد“ رکھاگیا۔ مرور زمانہ سے اوپانی شدکی تفسیر مرتب ہوئی اور اس سے فلسفے کے مختلف شعبے ظہور میں آئے۔
زمانہ قدیم میں نہ مطبع تھا اور نہ فن تحریر میں وسعت تھی۔ لہٰذا استاد کی باتیں حفظ کرتے تھے۔ لمبی عبارات کا اختصار کرلیا جاتا تھا۔ ایسا اختصار سنسکرت میں سوترا (Sutra) کہلاتا تھا۔ سوترا کا مطلب اختصار تھا جس کا مطلب وسیع ہو اور طلبہ کے لئے اس کا تحفظ آسان تر ہو۔
فلسفہ ہند در حقیقت فلسفہ ہنود ہے۔ جو بت پرستی سے وحدانیت تک پہنچتا ہے۔ مفکرین ہند کے افکار انواع و اقسام کے ہیں۔ ہر فکر کی بنیاد فلسفہ قدیم ہے جس میں کہیں خدا کا انکار اور کہیں اثبات ہے۔ پست ترین مذہب اور مہمل ترین فکر سے لے کر بہترین مذہب اور بلند ترین فکر تک یہاں موجود ہے۔ ہر مفکر اپنے رنگ میں مکمل رنگین ہے۔ سب کے افکار کے عمیق و وسیع مطالعے کے لئے صبر ایوب ؑ اور عمر نوح ؑ چاہیے۔