1975-76 میں جب پنجاب یونیورسٹی لاءکالج کا طالبعلم تھا، تب پاکستان کی طلبا برادری دو گروہوں میں بٹی ہوئی تھی۔ ایک کا سلوگن تھا ”سُرخ ہے سُرخ ہے ایشیا سُرخ ہے“ جبکہ دوسرے کے نزدیک مذکورہ برِاعظم کا رنگ سرخ نہیں سبز تھا۔ اس لیے وہ ”سبز ہے سبز ہے ایشیا سبز ہے“ کا نعرہ مستانہ بلند کیا کرتا تھا۔ کہتے ہیں کہ حُسن و قبح دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتا ہے۔ اس لیے ممکن ہے رنگوں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہو۔ اب میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اول لذکر تنظیم کے ارکان کی آنکھوں میں خون اُترا ہوتا تھا اِس لیے انہیں ایشیا سُرخ نظر آتا تھا یا یہ کہ موخر الذکر گروپ کے لوگ ساون کے اندھے تھے جنہیں ہرا ہی ہرا سوجھتا تھا۔ بہرحال دونوں گروہوں کے زاویہ ہائے نگاہ میں واضح فرق تھا۔ جنہیں ایشیا سرخ نظر آتا تھا وہ دراصل لبرل خیالات کے لوگ تھے انہیں سوشلسٹ یا ”سُرخے“ کہا جاتا تھا۔ طلبا کی اس تنظیم کو پاکستان پیپلزپارٹی کی پشت پناہی حاصل تھی۔ وہ گروپ جسے ایشیا سبز دکھائی دیتا تھا، مذہبی رُحجان رکھنے والے لوگوں پر مشتمل تھا جو قدرے رجعت پسند سمجھے جاتے تھے۔ یہ ”جماعتیے“ کہلاتے تھے۔ اس لیے کہ وہ جماعت اسلامی جیسی مذہبی و سیاسی جماعت کے حمایت یافتہ تھے۔
تعلیمی درسگاہوں میں اِس حوالے سے آج کل کیا صورتحال ہے یہ تو میں نہیں جانتا تاہم چار عشرے بعد ایک بّرِاعظم پھر سے متنازع شکل اختیار کیے ہوئے ہے اور وہ ہے امریکہ۔ اِس بار تنازع اُس کے رنگ سے متعلق نہیں بلکہ پاکستان کے ساتھ اُس کے سیاسی و سماجی تعلق کے حوالے سے ہے اور یہ معاملہ طلبا تنظیموں کی بجائے سیاسی گروپوں کے درمیان ہے۔ ایک سیاسی گروہ امریکہ کو پاکستان کا دوست خیال کرتا ہے جبکہ دوسرے کے نزدیک وہ پاکستانیوں کا جانی دشمن ہے۔ امریکہ کو دوست جاننے والے لوگ برسرِ اقتدار طبقے سے ہیں۔ اُن کا موقف ہے کہ امریکہ چونکہ پاکستان کو اپنا دوست کہتا ہے اِس لیے ہم پر یہ اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اُس کی دوستی کا جواب دوستی سے ہی دیں۔ یہ لوگ دوستی کے اُس سِکّہ بند پیمانے کو مدنظر رکھے ہوئے ہیں جو فارسی کے ایک شاعر نے اِن الفاظ میں وضع کررکھا ہے
دوست آں باشد کہ گیرد دستِ دوست
در پریشاں حالی و در ماندگی
دوست وہ ہوتا ہے جو بُرے وقت میں ہاتھ تھام لے)۔ اُن کا موقف ہے کہ امریکہ گلوبل ولیج کا چوہدری ہے۔ وہ ہماری مسلسل ڈگمگاتی ہوئی معاشی کشتی کو نہ صرف خود مالی سہارا دیئے ہوئے ہے بلکہ دنیا بھر کے مالی امداد دینے والے اداروں سے امداد یا قرضوں کی شکل میں کچھ نہ کچھ ہمارے کشکولِ گدائی میں ڈلواتا رہتا ہے۔ اس کے عوض امریکہ کے یہ پاکستانی دوست حقِ نمک ادا کرتے ہوئے اُسے اپنے ملکی ہوائی اڈوں کے استعمال حتیٰ کہ ڈرون حملوں میں بے گناہ پاکستانیوں کو شہید کرنے کا حق بھی مرحمت فرمائے ہوئے ہیں۔ ان کے برعکس امریکہ کو دشمن گرداننے والے سیاسی گروہ کا موقف ہے کہ اس نے دوستی کے پردے میں ہمیشہ پاکستان سے دشمنی کی ہے۔ پریشان حالی ودرماندگی میں ہاتھ تھام لینے کی بجائے اُس کا رویہ یہ رہا ہے کہ
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی
1971 کی پاک بھارت جنگ میں جب روس اور بھارت کُھل کر بنگالیوں کی حمایت کررہے تھے، ہم امریکہ کے چھٹے بحری بیڑے کا انتظار ہی کرتے رہے۔ افغانستان سے روسیوں کو نکالنے میں ہم نے حتی المقدور امریکہ کا ساتھ دیا مگر مطلب نکل جانے کے بعد اُس نے جنرل ضیا ءالحق کو فارغ کرنے میں ذرا دیر نہ کی۔ اُس کی دی ہوئی مالی امداد اور قرضے بھی ہمیں معاشی اور سیاسی طور پر غلام بنانے کے حربے ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ امریکہ مخالف یہ گروہ اُس کی دشمنی میں ہوش وحواس تک کھو بیٹھا ہے۔ اُس کے ڈرون حملوں میں مارے جانے والے کُتوں کو بھی درجہ شہادت پر فائز کررہا ہے نیز ارضِ وطن کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے افواجِ پاکستان کے جوانوں کی توہین سے بھی گریز نہیں کررہا۔ سکول کالج یا یونیورسٹی کے دنوں میں انسان نوجوان ہونے کے ناتے نا تجربہ کار ہوتا ہے۔ اُس کے جذبات میں شدّت ہوتی ہے اور وہ حتی الامکان اپنے نظریات سے دستبردار ہونا پسند نہیں کرتا۔ اِس لیے طلبا کے درمیان ایشیا سرخ ہے یا سبز والا تنازع تو سمجھ میں آتا ہے تاہم قبروں کے کنارے پہنچے ہوئے اِن تجربہ کار سیاستدانوں کا امریکہ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات بارے تضاد کم ازکم میری سمجھ سے تو بالاتر ہے۔