ہم پاکستانی پچھتر سال سے حکومت کے پودوں کو ہی اپنے خون سے سینچ رہے ہیں،کبھی بد قسمتی سے یہ مارشل لاء اور کبھی کبھار اگر بھولے بسرے اس خزاں کے موسم میں عوام کی منتخب حکومت (دھاندلی زدہ ہی سہی) آبھی جائے تو اس بیچاری کو دو، ڈھائی سال سے زیادہ چلنے نہیں دیا جاتا، جیسے مارکیٹ میں کسی نئے برانڈ کی پراڈکٹ متعارف ہونے پر پُرانی کمپنیاں نت نئے منفی طریقوں سے اس کی مت مار دیتی ہیں اور وہ نئی پراڈکٹ بیچاری خود ہی کوئی ایسی غلطی کر بیٹھتی ہے کہ مارکیٹ سے آؤٹ۔۔۔
تازہ قضیہ بھی آج کل ہم سب کے سامنے ہے۔ گزشتہ ہفتے ایک انگریزی جریدے نے انتہائی اہم اجلاس کی خبر ’ذرائع‘ سے لے کر چھاپ دی اور بس پھر ہماری تاریخ کی چائے کی پیالی میں وہ طوفان اٹھا کہ الامان!! لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ چائے کی پیالی میں طوفان نہیں تھا، یہ تو ایک پوری دیگ تھی جو ایک عرصے سے جوش کھا رہی تھی اور بچارے ’جمہوروں‘ نے خود ہی اس دیگ میں ’پَوا‘ ڈال کے وہ پھینٹا کہ اصلی رجیم کا وقار مجروح ہو گیا،گویا بھری بزم میں راز کی بات تو جو کہی گئی سو کہی گئی۔اب نہ تو جمہوریئے مان کر دینے کے ہیں اور نہ ہی ’وقارئیے‘ معاف کردینے کے ہیں۔
حقیقت کی عینک لگا کر اگر دیکھا جائے تو بات جتنی سادہ معلوم ہوتی ہے اس سے زیادہ گھمبیر بھی ہے اور اس کی گھمبیرتا میں اضافہ ہمارے میڈیا کے ساتھ ساتھ ’ان سوشل‘ میڈیا پر چلنے والے مختلف بلاگز،پیجز اور نیوز پورٹل نے کر کے بات کو فقط یونہی زیبِ داستان کے لیے بڑھا ڈالا ہے۔ چند ایک جھلکیاں ملاحظہ ہوں۔ ایک ٹی وی چینلز پر چند ’رپورٹر‘ حضرات کا شو تھا،جس میں ایک رپورٹر کافی دور کی کوڑی لائے کہ آج جنرل اور وزیر کے درمیان ہونے والی خفیہ ملاقات کی سی سی ٹی وی فوٹیج ان کے پاس ہے۔یعنی ان کے ذرائع جنرل سے بھی زیادہ طاقتور ہیں۔پھر تو بھائی لوگو اگلا جنرل انہیں ہی بننا چاہیے میری رائے میں!ایک نیوز پورٹل لکھتا ہے، ’’جنرل نے وزیر اعظم کو ڈانٹ پلا دی‘‘۔یہ صرف دو جھلکیاں ہیں،باقی آپ سبھی لوگ کافی وقت سوشلائزیشن میں گزارتے ہیں،آپ کو بھی بہتر اندازہ ہوگا۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی اور نہ ہی بات یہاں ختم ہوگی اور نہ ہی بات یہاں ختم ہونی چاہئے۔اس سے ہماری سوچ کی عکاسی ہوتی ہے،ہم نہ تو جمہور تھے اور نہ کبھی جمہوریت کے حامی تھے۔ہم جہلاء کا وہ جتھہ ہیں جو صرف اور صرف اپنے لیڈر (بلکہ گیدڑ) کو اس ملک کی عنان تھمانا چاہتے ہیں۔یہ مسئلہ نواز شریف کا نہیں،نہ ہی یہ مسئلہ عمران خان ،بلاول یا اسفند یارولی کا ہے۔یہ ہر اس پاکستانی کا مسئلہ ہے جس نے انتخابات میں ووٹ دیا تھا اور اپنی اپنی پارٹی پر اعتماد کا اظہار کیا تھا۔آج اگر نواز حکومت کسی غیر جمہوری طریقے سے جاتی ہے (جس کی یار لوگ تیاریاں کر رہے ہیں)تو یہ اس نظام کی ناکامی نہیں بلکہ،ہماری سوچ کی شکست ہو گی۔محمد علی جناح کے افکار کو شکست ہوگی جنہوں نے فرمایا تھا کہ عوام پر حکومت کا حق صرف اورصرف منتخب نمائندوں کا ہے نہ کہ کسی ادارے یا کسی گروہ کا۔ہم جو ہر پانچ سات سال بعد کروڑوں روپیہ لگا کہ انتخابات کو ڈھونگ رچاتے ہیں،کیوں نہ اس ادارے (الیکشن کمیشن) کو بند ہی کردیا جائے تاکہ کوئی طاقتور ادارہ خود ہی پانچ سات سال بعد حکومت کر کے کسی اور کو حکومت دے دے (جیسے ایوب خا ن نے کیا تھا)۔ اس کے دو فائدے ہوں گے۔الیکشن کمیشن کے دفتر میں غریب لوگوں کو گھر ملے گا اور اس کے ملازمین کو فارغ کر کے ان کی روزی روٹی کا بندوبست کیا جاسکے.