• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
امریکی خارجہ پالیسی — تحریر: ڈاکٹر ظہیر احمد بابرامریکی خارجہ پالیسی — تحریر: ڈاکٹر ظہیر احمد بابرامریکی خارجہ پالیسی — تحریر: ڈاکٹر ظہیر احمد بابرامریکی خارجہ پالیسی — تحریر: ڈاکٹر ظہیر احمد بابر
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

امریکی خارجہ پالیسی — تحریر: ڈاکٹر ظہیر احمد بابر

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • امریکی خارجہ پالیسی — تحریر: ڈاکٹر ظہیر احمد بابر
امام شاہ ولی اللہ دہلوی — تحریر: شمس الرحمن محسنی
اکتوبر 9, 2016
جمہوریت گئی پانی میں — تحریر: زوہیب یاسر – بورے والا
اکتوبر 10, 2016
Show all

امریکی خارجہ پالیسی — تحریر: ڈاکٹر ظہیر احمد بابر

جب صدرریگن نے ”گریناڈا“پرچھائی کی اورصدرکلنٹن نے 1999ءمیں ”یوگو سلاو یہ“ پر بمباری کی تو کانگریس چاہتے ہوئے بھی انہیں باز نہ رکھ سکی۔ امریکی صدور نے مختلف اقوام پر معاشی پابندیاں لگائیں اوردنیا کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کیے۔ عملی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ صدر اس ملک کو تباہ کرسکتا ہے جو امریکہ سے اختلاف رکھتا ہو اور اس کو انعام سے بھی نوازسکتا ہے جو اس کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے۔ حالانکہ جنگ کے مسئلے پرامریکہ میں باقاعدہ قانون سازی موجودہے لیکن بہت سے امریکی صدور کا یہ موقف رہا ہے کہ بطور کمانڈر انچیف کسی بھی ملک پر جنگ مسلط کرنا ان کا آئینی حق ہے عملاً وہ جنگ کے معاملے پر کانگریس کی حمایت بھی حاصل کرلیتے ہیں اورآئندہ بھی امریکی صدور اپنی یہ روش برقرار رکھیں گے۔

امریکی خارجہ پالیسی کی خاص بات یہ ہے کہ امریکی صدورمیکیاولی کے ”شہزادے“ سے بہت مماثلث رکھتے ہیں اور یہ کوئی حیران کن امر نہیں کیونکہ ریاست کے بانی اس جدید سیاسی فلسفے کے طالب علم تھے جسے میکیاولی نے رواج دیا تھا۔ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ دنیا امریکی بالا دستی کو بطور بادشاہت تسلیم کرلے ، کیونکہ وہ میکیاولی کی دوراندیشی کو تسلیم کرتاہے کہ اس نے امریکی اداروں بالا دستی کے لیے باقاعدہ ایک فلسفہ وضع کردیا ہے اور ہمیں گویا اپنی ترقی کو برقرار رکھنے کے لئے صلاح دی ہے۔ یعنی امریکی صدر کا بنیادی تعلق خارجہ پالیسی سے ہے۔

چنانچہ کیسے میکیا ولی کی کتاب” دی پرنس“ میں امریکی صدور کی خارجہ پالیسی کے لیے سامان موجود ہے۔ میکیاولی کہتا ہے ،

”پس شہزادے کے سامنے نہ کوئی اورمقصد ہو اور نہ کوئی خیال اور نہ ہی اسے فن حرب کے علاوہ کسی اور فن کو اختیار کرنا چاہیے۔ اسے چاہیے کہ وہ اس کے نظم وضبط اوراداروں (فوج) کو بہتر بنائے کیونکہ ایک کمانڈر کے شایان شان ہی فن ہے نظم وضبط ایسی خوبی ہے کہ وہ صرف ایک شہزادے کو ہی اس قابل نہیں بناتی بلکہ ایک عام آدمی کو بھی اس منصب پر پہنچادیتی ہے۔ دوسری جانب توجہ طلب یہ بات بھی واضح رہے کہ جب شہزادوں نے فوجی معاملات سے تو جہ ہٹاکر کسی اور جانب مبذول کی تو ان کی ریاست ان سے چھن گئی۔ اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ آپ اس فن میں کوتاہی کے مرتکب ہوتے ہیں اور سلطنت کو حاصل کرنے کا راستہ اس فن میں طاق ہونا ہی ہے۔“

امریکی خارجہ پالیسی اور امریکی صدور کی جانب سے اس خارجہ پالیسی کے عملی استعمال میں بنیادی فرق حقیقت پسندی اور مثالیت پسندی کا ہے اور یہی روایت امریکی خارجہ پالیسی میں بھی نظر آتی ہے۔ امریکہ کی بنیاد خود مختاری کے اصول پر رکھی گئی تھی ایک ایسی ریاست جہاں نمائندوں کو عوامی رائے سے منتخب کیا جائے۔ اس کے بنیادی اصولوں میں شخصی آزادی بھی شامل ہے۔ اس بات کو حقوق کے بل(Bill of Rights) میں بھی شامل کیا گیا ہے سامراجیت، رسمی یا غیر رسمی طور پر خود مختاری کے اصول کی نفی کرتی ہے۔ مزید یہ کہ خارجہ پالیسی کی تشکیل ایسے ادوار میں مددگار ثابت ہوتی ہے جہاں قومی مفاد کی بات آتی ہو لیکن یہ انسانی حقوق کے امریکی اصولوں کی نفی کرتی ہے۔ امریکی خارجہ پالیسی اور انسانی حقوق میں مفاہمت مشکل ہے اورکسی بھی دورحکومت کے لئے اخلاقی خطرہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکی صدور نے امریکی بالا دستی کو یقینی بنانے کے لیے دنیا پر جنگ مسلط کررکھی ہے اور وہ مسلسل اسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔اسے میکیا ولی کی نصیحت چھوڑ کر درست انسانی اصولوں کو اختیار کرنا پڑے گا۔

مناظر: 231
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جون 13, 2022

عمران خان کا یہ قصور کم نہیں تھا!


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ