مکالمہ زندہ اور صحت مند معاشرے کا عمومی چلن ہوتا ہے جس کے تین مظاہر ہوتے ہیں ایک یہ کہ میں اور آپ زندہ اور صاحب شعور ہیں دوسرا یہ کہ ہم میں اختلاف رائے فطری امر ہے اور تیسرا کہ ہم اختلاف کو زندہ رکھتے ہوئے اس کرہ پہ جسے زمین کہتے ہیں مل جل کر رہ سکتے ہیں۔ اگر مباحثہ بھی ہو جائے کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ بحث کا معنی تلاش کرنا ہے اگر دونوں طرف سے مکالمہ کسی حقیقت کی تلاش کے لئے ہے تو یہ بھی حوصلہ افزاءصورت حال اور سازگار ماحول تخلیق کرتا ہے ۔
مکالمہ کے تین مظاہر کے بعد مکالمہ کے مقاصد بھی تین ہیں۔ایک یہ کہ مکالمہ سے برداشت اور صبر جیسی صفات پروان چڑھتی ہیں۔ دوسرا ہم مکالمہ سے اس مقصد کو حاصل کرتے ہیں جو ہمیں ایک نارمل اورمفید انسان بننے کی طرف رہنمائی کرتاہے جو اپنی بات کو بیان کرنے کے ہنر سے واقفیت رکھتا اور مزید اس افادیت کو بڑھاتا ہے ،نارمل اس لئے کہ جھاگ نکالتے، میز پر مکا مارتے، اپنے مقابل کے لئے برے نام رکھتے اور دست وگریبان ہوتے لوگ نارمل تو نہیں ہوتے انہیں سائیکیٹرسٹ سے مشورہ اور علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔تیسرا مقصد اجتماعی طور پر اس معاشرے کے قیام کی طرف قدم ہے جہاں مختلف الخیال، مختلف المذاہب ، مختلف رنگ ونسل کے لوگ مکالمہ کی بنیاد پر مل جل کر رہنے اور زندگی گزارنے کا فن جان جاتے ہیں انہیں تعلیم و تربیت ایسا پختہ انسان بنا دیتی ہے کہ وہ الجھاﺅ سے سلجھاﺅ، جذباتیت سے حقیقت ،سطحیت سے واقعیت اور ناپختگی سے پختگی کی طرف سفر کرتے ہیں۔
اگر ہم مذاہب عالم کی تاریخ میں سے حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ ،حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد ﷺ کے طریقہ دعوت وتبلیغ کو سمجھیں وہ بھی ایک حقیقتاً مکالمہ پر مبنی تھا۔ حضرت موسیٰ کو جب فرعون کی طرف بھیجا تو اللہ نے فرعون( جو ایک سرکش اورمتمرد حکمران تھا اس )سے بھی نر م لہجے میں بات کرنے کی تلقین فرمائی۔ ممکن ہے کہ اس طرح وہ نصیحت حاصل کرے اور ڈرے۔ حضرت ابراہیم ؓ نے بھی اپنی قوم اور نمرودسے مکالمہ کیا۔ حضرت محمد ﷺ نے عرب جیسی سخت مزاج اور صحرائی قوم کو جس صبر اور تحمل سے دعوت دی اور دلائل کے ساتھ اپنے پیغام کی سچائی کو واضح کیا یہ بھی ایک مکالمہ کا ہی انداز ہے ۔ حقیقت کو واضح کرنا اور اس کے بعد جدال و مناظرہ سے پرہیز کرنا شیوہ پیغمبری ہے۔
مسلم تاریخ بتاتی ہے کہ جدال ومناظرہ کا چلن بہت دیر سے شروع ہوا۔ محمد رسول اللہ ﷺ کے صحابہ اور اس کے بعد ،متصل دور کے علماءوفقہاءکے حوالے سے یہ واقعات کثرت سے ملتے ہیں کہ وہ مختلف رائے رکھنے کے باوجود اپنی بات پیش کر دیتے تھے لیکن دوسرے کی رائے کا آپریشن نہیں کرتے تھے۔اگر دو ائمہ کے درمیان حج کے موقع پر مکالمہ ہوا تو انہوں نے ایک دوسرے کے دلائل و استدلال کا آپریشن کرنے کے بجائے اپنے اپنے دلائل پیش کر دیئے اور ایک دوسرے کی رائے کو سختی اورخشونت سے رد نہ کیا۔ اسلامی روایت میں مکالمہ کی روایت کیا تھی ؟ امام شافعی کے اس قول سے سمجھا جا سکتا ہے۔”میں اپنی رائے کو درست اور اس میں غلطی کا امکان خیال کرتا ہوں اپنے مقابل کی رائے کو غلط لیکن اس میں صحت کا امکان خیال کرتا ہوں “۔
اختلافات کے باوجود، معاشرت و اخوت کا سلسلہ منقطع نہیں ہوتا تھا ۔ مکالمہ کی روایت اسلامی تاریخ میں پرانی ہے اور اب ویسے بھی بہت پرانی ہو گئی ہے ۔ اس کی کئی وجوہات ہیں ایک وجہ یہ ہے کہ جب سلاطین اورشاہوںکی سرپرستی میں علماءنے اپنی خدماتِ علم کو پروان چڑھایا وہاں سے مکالمہ کی روایت ختم ہو گئی۔ یہاں سے حسد و مخاصمت نے فرقہ واریت کو جنم دیا۔ فرقہ نام ہی ”محصورِ حق“ کا ہے یعنی میں جس فرقہ کا پیروکار ہوں وہ حق پر مبنی ہے اس کے علاوہ باقی سب دجل اور بطلان ہے۔مکالمہ کا باب بند ہونے کی تین ظاہری وجوہات اقبال نے بھی اپنے اس شعر میں بیان کی ہیں
باقی نہ رہی تیری وہ آئینہ ضمیری
اے کشتہ سلطانی وملائی و پیری
سلطان نے اپنی قوتِ اقتدار سے عوام کے حق ِاظہار کو سلب کر لیا ۔ ملاں نے شریعت کے خوف کا پہراانسانوں پر اس طرح بٹھایا کہ وہ شریعت جو گفتار کی آزادی دینے آئی تھی وہی آزادی کے چھیننے کا سبب نظر آنے لگی۔پیر ی نے جاگیرداریت کا روپ دھارکر استحصال وظلم کے ذریعے انسانوں کومکالمہ کرنے کی اجازت نہ دی ۔ مسلمانوں نے صدیوں کا سفر اسی ماحول میں کیا ہے ۔ مسلم معاشروں میں، مکالمہ کی روایت زندہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔