ڈاکٹر نوید ٹیپو برطانیہ میں ایک معالج کی حیثیت سے پریکٹس کرتے ہیں۔ وہ ایک زمانے میں لیو کیمیا کے مریض تھے۔ اس وقت تک ان پر چار کیموتھیراپی ناکام ہوچکی تھیں۔ ڈاکٹر ٹیپو خود کہتے ہیں، ’’میرے اپنے بھائی سے میری ’بون میرو ٹرانسپلانٹیشن‘ ہوچکی تھی۔ اس کے نتیجے میں graft vurses host نامی ایک اور تکلیف بھی شروع ہوگئی۔ میں گزشتہ دو سال سے مناعتی نظام (امیون سسٹم) کو دبانے والی شدید دواؤں کا استعمال کر رہا تھا تاکہ میرا جسم اس پیوند کاری کو مسترد نہ کردے۔‘‘
یہ تمام علامات بتا رہی تھیں کہ ڈاکٹر ٹیپو کی زندگی کی زیادہ امید نہیں ہے۔ ان کے معالج بھی انھیں یہی کہہ چکے تھے۔ آخری امید کے طور پر ڈاکٹر ٹیپو نے مائنڈ تھیراپی کے ایک سیمینار میں شرکت کی۔ مذکورہ سیمینار کے دوران میں ڈاکٹر ٹیپو نے جو باتیں سنیں اور سیکھیں اُن پر عمل کر کے ڈاکٹر ٹیپو کو اپنے شدید ترین مرض سے نمٹنے میں مدد ملی۔ ڈاکٹر ٹیپو کے بہ قول، خوشی کے پروسیس میں ایک کام یہ کیا کہ انہوں نے کینسر کے مریض کے طور پر زندہ رہنے کی بجائے ایک ایسے فرد کے طور پر جینا شروع کردیا کہ جو کینسر سے صحت پا چکا ہے۔
مائنڈ تھیراپی کیا ہے؟
اکیسویں صدی میں انسانی برتاؤ میں ہونے والے مسائل کے حل کیلئے جدید سائنس اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ انسان کے ننانوے فیصدی مسائل کا تعلق اس کی مادی یا ظاہری کیفیت سے نہیں، ذہنی کیفیت سے ہوتا ہے۔ گویا، انسان کی سوچ اس کی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ بیسویں صدی کے اوائل تک Behaviourism کی نفسیات پڑھی جاتی تھی۔ Behaviourism کی تمام تر توجہ انسان کے برتاؤ پر تھی۔ اس طریقہ علاج کا فلسفہ یہ تھا کہ انسان کے ظاہری جسمانی مسائل اور امراض کا علاج انسان کے ظاہر ہی سے کیا جائے۔ بہ الفاظِ دیگر کردار اور برتاؤ کے مسائل کو حل کرنے کیلئے برتاؤ میں تبدیلی پر کام کیا جاتا تھا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد اور خاص کر بیسویں صدی کے آخری ربع میں یہ بعد تحقیق کی گئی کہ انسانی برتاؤ میں ہونے والے مسائل کو حل کرنے کیلئے پرانی روش درحقیقت پھل میں لگے کیڑے کو پھل سے نکال پھینکنے کے مترادف ہے اور جڑ میں بیماری بدستور موجود ہے۔
سوال یہ ہے کہ انسان کے نفسیاتی اور ذہنی مسائل کو جڑ سے کیسے ختم کیا جائے؟ اس کا جواب ماہرین نے یہ جانچا کہ انسان کے نفسیاتی، ذہنی اور جذباتی مسائل (اور جدید میڈیکل ریسرچ کے مطابق) حتیٰ کہ جسمانی امراض تک کی جڑ انسان کی سوچ ہے۔ یہاں سے نفسیات کے فلسفے نے ایک انقلابی کروٹ لی اور امراض کے علاج کیلئے انسان کے جسم اور دماغ کو فوکس کرنے کی بجائے اس کے ’’ذہن‘‘ (Mind) کو مرکز علاج بنایا گیا۔ یوں، مائنڈتھیراپی کا خیال پروان چڑھا۔
چنانچہ مائنڈ سائنس نے گزشتہ چالیس سال میں جو انقلابی تبدیلیاں انسانی سوچ اور طرزِ حیات میں کی ہیں، آج ان کی بہ دولت ممکن ہے کہ انسان کی زندگی میں مایوسی اور کرب کے اسباب کو جڑ سے اکھاڑ کر فرد کو خوشی فراہم کی جاسکے۔
مائنڈ تھیراپی کے کئی مکاتب فکر یورپ اور امریکا میں قائم ہیں اور تمام ہی اپنی جگہ خوب موثر اور نتیجہ خیز ہیں۔ ان میں این ایل پی، ڈی ایچ ای، ایموشنل انٹیلی جنس، ای ایف ٹی، اواتار، سلوا الٹرا مائنڈ سسٹم، یونیورسل تاؤ سسٹم، کوانٹم ٹچ، ریلیزنگ وغیرہ شامل ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ تیرہ برس سے میں مائنڈ تھیراپی کے ذریعے لوگوں کے نفسیاتی، ذہنی اور جذباتی مسائل کا حل پیش کررہا ہوں۔
اکیسویں صدی کی تیز رفتار صدی کے بدترین مسائل
مائنڈ سائنس کے ایک معروف سسٹم ’’این ایل پی‘‘کا معاون بانی رچرڈ بینڈلر اپنی کتاب میں لکھتا ہے:
ہم انسانی تاریخ کے متضاد ترین دوراہے پر کھڑے ہیں۔ ایک جانب ٹکنالوجی نے غیر معمولی ترقی کی ہے کہ چند عشرے پہلے تک یہ وہم و گمان میں بھی نہ تھا اور دوسری طرف نئے مسائل مثلاً بے انتہا غربت، ماحولیاتی تبدیلی اور نت نئے امراض نے خوش حال طبقات کو بھی خوف زدہ کردیا ہے۔ اس دیرینہ و خوش حال زندگی کا خواب پائے تکمیل تک پہنچتا محسوس نہیں ہوتا کہ جس کا خواب گزشتہ صدی میں انسان نے دیکھا تھا۔ سائنس، نفسیات، سیاست، ادویہ سازی کی صنعت اور بڑی صنعتوں نے جو بلند بانگ دعوے کیے تھے، اکثر پورے نہیں ہوئے اور یوں روئے زمین پر امن، خوش حالی اور خوشی حاصل کرنے میں ناکامی ہو رہی ہے۔ اب وہ وقت آچکا ہے کہ اکیسویں صدی کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ان وسائل سے ہٹ کر کہیں اور دیکھا جائے۔ ہم جو فیصلے آج کریں گے اور جو اقدامات آج کریں گے، مستقبل پر اثر انداز ہوں گے… نہ صرف ہمارے لیے بلکہ آنے والے تمام وقتوں کیلئے۔ ہمارے پاس دونوں ہی مواقع اس وقت موجود ہیں:ہم یا تو نئی سطح پر اپنی صلاحیتوں کو استعمال کریں یا پھر اسی ڈگر پر چلتے ہوئے مزید الجھنوں اور مایوسیوں میں دھنستے چلے جائیں۔ ہم اب تک ٹکنالوجی اور مختلف اشیائے ضروریہ فراہم کرنے والوں پر انحصار کرتے چلے آئے ہیں۔ اب پہلے سے کہیں زیادہ اس کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے خیالات، احساسات، رویوں اور یقینوں کی ذمے داری قبول کریں۔ اگر ہم اس میں کامیاب ہوگئے تو ہم اپنے ارتقا کی جانب ایک بڑا قدم اٹھا سکیں گے۔
مائنڈ سائنس کے اس سلسلہ وار بلاگ میں ہماری کوشش ہے کہ آپ کو رفتہ رفتہ، درجہ بہ درجہ مائنڈسائنس کے بنیادی نکات اور فلسفے سے نہ صرف آگاہ کیا جائے بلکہ انسانی زندگی کو فطرت کے قریب لانے اور اکیسویں صدی کے شدید ترین مسائل سے نمٹنے کیلئے مائنڈ ٹکنالوجی کے ماہرین نے جو اوزار اور ٹیکنیکس ہمیں فراہم کیے ہیں، ان کی پریکٹس بھی کرائی جائے۔
آپ کا مسئلہ کیا ہے؟
آپ کے ساتھ بھی کئی مسائل ہیں۔ اپنا مسئلہ کمنٹس میں تحریر کیجیے۔ ہماری کوشش ہوگی کہ آپ کے مسئلے کے حل کیلئے اس سلسلہ وار بلاگ میں مائنڈ تھیراپی کی مشقیں دی جائیں تاکہ آپ اپنے مسائل کو گھر بیٹھے حل کرسکیں۔