پاکستان جیسے پسماندہ ممالک میں بیچارے عام لوگ ساری زندگی اس چکر میں گزار دیتے ہیں کہ اُن کی ضروریات اس لئے پوری نہیں ہوتیں کیونکہ وہ گنہگار ہیں اور اسی وجہ سے ان کی دعائیں اللہ کے حضور قبول نہیں ہوتیں۔ اُن سے روزانہ کوئی نہ کوئی گناہ ہوتا رہتا ہے اور وہ روزانہ بڑے خشوع و خضوع سے گڑ گڑا کر دعائیں مانگتے ہیں لیکن پھر دل مسوس کر رہ جاتے ہیں کہ اُن کی دعائیں اللہ کی بارگاہ میں سنی کیوں نہیں جاتیں۔ لیکن اُ ن کی سمجھ میں ساری زندگی یہ بات نہیں آتی کہ ایسا اُن کے ساتھ کیوں ہوا۔
بھئی اللہ تعالی تو اپنی مخلوق سے پیار کرتا ہے اور اس نے دنیا کے سارے خزانے انسانوں ہی کے لیے پیدا کیے ہیں لیکن اصل معاملہ یہ ہے کہ پاکستان کے ملک اور معاشرےمیں چند لوگوں نے سارے وسائل پر قبضہ کیا ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عوام کے حصے میں کچھ نہیں آتا۔ اگر ہمارے ملک پاکستان میں وسائل صحیح طریقے سے تقسیم ہوں ۔ روز گار کے عام مواقع ہوں ۔ سارے ادارے صحیح کام کر رہے ہوں تو کیوں عوام کی ضروریات پوری نہیں ہوں گی۔
سال بھر پوری قوم محنت کر کے جو منافع کماتی ہے وہ چند لوگ ہڑپ کر جاتے ہیں۔ چاہئے تو یہ تھا کہ وہ وسائل عوام پر خرچ ہوں ۔ شہروں کی گلیاں اور بازار صاف ستھرے ہوں۔ کوڑے کرکٹ کو صحیح طور پر ٹھکانے لگایا جائے۔ سیورج کا نظام صحیح ہو تو بیماریاں نہ پھیلیں اور اگر پھر بھی کسی کو کوئی بیماری لگ جائے تو اگر ہسپتال ٹھیک ہوں ، بیماریوں کا ٹھیک سے علاج ہو۔ دوائیاں سستے داموں دستیاب ہوں ۔ اچھے ڈاکٹر موجود ہوں۔ دریاؤں، نہروں، تالابوں اور ندی نالوں میں فضلہ نہ پھینکا جائے ۔ ماحول ، ہو ا و فضا اور ENVIRONMENT کی صفائی کا خیال رکھا جائے۔ کاروں،بسوں، ٹرکوں اور کارخانوں سے دھویں کو صاف کر کے نکالا جائے اُس کی ٹھیک طرح سے FILTRATION ہوتی ہو۔ اگر پٹرول، ڈیزل اور دوسرے فیول ملاوٹ والے نہ ہوں بلکہ اچھی کوالٹی کے ہوں ۔ گلیوں میں گٹر نہ کھودے جائیں ،سیورج کے پائپ اچھی کوالٹی کے ہوں۔ اُن سے گندہ پانی رس رس کر پینے کے پانی میں شامل نہ ہوتا ہو۔ کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ نہ ۔ ہسپتالوں سے ڈسپوزاے بل میٹریل کو صحیح طور پرٹھکانے لگایا جائے۔ دوائیاں نقلی نہ ہوں۔ روز گار عام ہو۔ پولیس اور عدالتوں کا نظام صحیح ہو۔ لوگ اغوا نہ ہوں۔ بھتہ خوری پر قابو پایا جائے۔ عوام کے راہنما ڈھیٹ قسم کے نہ ہوں تو مسائل کی یہ بہتات ہوتی ہی نہیں یہ مسائل قسمت اور مقدر سے زیادہ ہمارے حکمرانوں کے کرتوتوں کا نتیجہ ہے۔
اگر ہم خود ہی اپنے دشمن ہوں، اپنے معاشرے اور ملک کو تباہ کرنے پر تلے ہوں تو کون ہمارا دوست ہو گا۔ اگر آپ کے راہنما کرپٹ نہ ہوں تو ساری دنیا آپ کی مدد یا آپ کے ساتھ کاروبار کرنے کو تیار ہوتی ہے۔ اگر پاکستان کا کوئی کرپٹ حاکم یا آفیسر یہ سمجھتا ہے کہ میری کرپشن کا کسی کو پتہ نہیں یا میں چرب زبانی سے کام لے کر عوام کو قائل کر لوں گا تو یہ اُس کی بھول ہے۔ ایسے کرپٹا آفیسر کی عوام میں کوئی عزت نہیں ہوتی اور اُس کی برائی کی وجہ سے اُس کے ملک اور قوم کی بھی دوسرے ممالک کے سامنے کوئی عزت نہیں رہتی۔ بے شک کسی وجہ سے آپ کا ملک کمزور یا غریب ہو لیکن حاکم کرپٹ نہ ہوں تو دوسرے ممالک آپ کی عزت کریں گے۔ کمزوری اور غربت ہوتی ہی کرپٹ اور نا اہل حاکموں کی وجہ سے ہے۔ ورنہ کبھی ایسا ہو نہیں سکتا۔ یورپ والوں نے اپنے معاشروں کو کرپشن سے پاک کر لیا ہے۔ اگر باالفرضِ والمحال کوئی کرپشن کرتا ہے چاہے کتنی بڑی پوسٹ پر ہو پکڑا جاتا ہے اور اُسے پوری سزا ملتی ہے۔ یہ نہیں کہ کیس سالوں لٹکتے رہیں۔ لیکن افسوس چونکہ پاکستان کے ادارے فعال نہیں ہیں ۔ ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے بلکہ ایک شاخ پر کئی کئی الو براجمان ہیں۔ کرپٹ،کرپشن کر کے بڑی ڈھٹائی سے بچ جاتا ہے۔ بلکہ الٹا عدالتوں اور عوام کا منہ چڑاتا ہے۔تواللہ کی رحمت اور ترقی کہاں سے آئے گی ایسے ملکوں کے مسئلے صرف دعائوں سے نہیں بلکہ شعور اور جدوجہد سے حل ہوا کرتے ہیں۔