اس تحریر کا باعث جنرل اسلم بیگ کا وہ طویل انٹرویو ہے ایک معاصر کے اخبار سنڈے میگزین میں یکم جنوری 2017ء کو شائع ہوا۔ موصوف فرماتے ہیں ” چند مضبوط فیصلوں کی ضرورت ہے جو پارلیمنٹ کے اختیار میں ہے۔ پہلا فیصلہ یہ کرنا ہوگا کہ اسلامی نظریاتی کونسل میں تبدیلی لائی جائے۔ اس کی سربراہی کے لیے دینی عالم کی بجائے پارلیمنٹ کسی اعتدال پسند پڑھے لکھے اور دین دار فرد کا انتخاب کرے جس کی سربراہی میں منتخب ماہرین قانون’ معاشرتی سائنسدانوں’ وفلاحی کارکن اور نوجوان ہوں جو اس بات کو یقینی بنائیں کہ دین کی بنیادی تعلیم جس میں فرقوں کا اختلاف نہ ہو’ پہلی جماعت سے لیکر آٹھویں جماعت تک لازم قرار دیا جائے وغیرہ”… ہمارے خیال میں یہ ”مقصد” اس وقت تک حاصل نہیں ہوگا جب تک عربی زبان کو ”لازمی” تدریسی ریاستی مشن نہ بنایا جائے اس کار عظیم کے ذریعے فرقہ وارانہ کشیدگی ومذہبی انتہا پسندی کا خاتمہ فقہی ‘ علمی وفکری جدلیات کو ترجیح ملے گی جبکہ مناظرانہ ‘ گالی گلوچ کا ماحول جو عموماً مذہبی حلقوں سے وابستہ تصور کیا جاتا ہے۔
یہ سب کچھ لازمی عربی زبان کی کم ازکم لازمی پرائمری سے میٹرک تک تدریسی سے حاصل ہونا ممکن ہے۔ بلکہ سادہ قرآن پاک کی طلبہ کو تدریسی اصلاً تدریس عربی کے ذریعے کرنے سے ہی زیادہ وپائیدار اور ہمہ گیر منافع اور فوائد میسر آئیں گے۔ موجودہ تقسیم شدہ ملک میں ”قوم” بھی تخلیق ہوسکے گی۔ دوسری وجہ اس تحریر کی مولانا شیرانی کی چیئرمین شب میں اسلامی نظریاتی کونسل کا جہاں بہت فعال کردار سامنے آیا’ میڈیا کے ذریعے اس کی بحثوں اور رپوٹوں پر سیر حاصل بحث ہوئی مگر اکثر وبیشتر اراکین اور چیئرمین شدید تنقید کا بھی ہدف بنتے رہے۔ اگر ہم ذرا جنرل ضیاء الحق کا عہد یکھ لیں کہ کس معیار کے چیئرمین بنائے گئے 1۔ مولانا عبیداللہ سندھی کے شاگرد اور سماجی انصاف کے مصنف ‘ فلسفہ ولی الہی سے گہری وابستگی کے حامل مولانا غلام مصطفی قاسمی’ 2 ڈاکٹرعبدالواحد ھالی پوتہ جوادارہ’ تحقیقات اسلامی کے مفکر تھے جنرل صدر مشرف کے عہد میں ڈاکٹر مسعود جو ادارہ تحقیقات اسلامی کے مفکر تھے چیئرمین بنائے گئے ان کے ہمراہ جاوید غامدی جیسے مجہتد کو رکن بنایا گیا۔ ”ولی الہی فکری تحریک” کا حلقہ موجودہ نظام حکومت کو میثاق مدینہ کی روشنی میں وسیع المشرب ‘ سخت اخلاقی اقدار کی قوت نافذہ کے ساتھ تبدیل کرنے کا متمنی و داعی ہے۔ اس حلقہ فکر میں سماجیات و عدل و انصاف بطور خاص معاشی پہلو زیادہ نمایاں اور قابل توجہ ہوتا ہے۔
برصغیر میں شاہ ولی اﷲ پہلے اسلامی مفکر و مجتہد ہیں جنہوں نے کارل مارکس سے بھی پہلے معاشیات کے قرآنی اور اسلامی اجتہادات انقلابی طورپر پیش کئے ان کے سامنے عملاً نظام عمر فاروق تھا۔ علامہ اقبال نے بھی معاشی اور فقہی یعنی قانون کو زیادہ اہمیت دی ہے۔ آج شاہ ولی اﷲ اور علامہ اقبال کا معاشی اسلامی فکر زیادہ توجہ طلب ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل میں شاہ ولی اﷲ کے معاشی اسلامی اجتہادات سے استفادہ بہت زیادہ مفید ہو گا۔ بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے سربراہ ڈاکٹر سعید الرحمان نے ولی اللہی فکر پر زیادہ علمی و تحقیقی کام کیا ہے۔ کچھ ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ اسلامی نظریاتی کونسل میں زیادہ خرابی چیئرمین و اراکین مقررکرتے ہوئے میرٹ و علمی و فکری معیار کی بجائے ”سیاسی رشوت” بنانا ہے۔ مذہبی جماعتوں جو حکومتوں کی سیاسی اتحادی ہوتی ہیں ان کی صفوں میں سے ایسے علماء کو بھی رکن بنا دیا جاتا رہا ہے جو عصر حاضر کے درپیش فکری چیلنجوں کو غیر اہم تصور کرتے رہے ہیں۔ اگر یہ ادارہ سیاسی رشوت نہ بنتا تو خیر کا پہلو نمایاں ہوتا۔ ایسا بھی ہوتا رہا ہے کہ مسلم لیگی پس منظر کے علمی و فکری پہلو کو نمایاں کرنے والوں کو محترم نواز شریف کی دوسری اور موجودہ حکومت میں بھی بطور چیئرمین نظر انداز کیا گیا تھا یہی حرکت جنرل پرویز مشرف نے بھی کی مگر ڈاکٹر مسعود کی آمد سے یہ ”راز” دفن رہا۔ البتہ مولانا شیرانی کی جس طرح سیاسی رشوت کے طور پر تعیناتی صدر زرداری نے کی اور اراکین مقرر کئے وہ توپرشان کن تھی۔ یہی حرکت محترم نوازشریف نے بھی کی تھی۔ اب پھر دس اراکین اور چیئرمین کے منصب خالی ہیں۔ ضرورت ہے کہ کم از کم عربی زبان پر عبور رکھنے والا چیئرمین ہو۔ فکری طور پر کسی سخت گیر مسلک کی نمائندگی نہ کرے۔ بلکہ میثاق مدینہ کی روشنی میں اقلیتوں کے حقوق کا حامی ہو۔ داعش و القاعدہ کا فکری طور پر جواب دینے کا ماضی اور تجربہ رکھتا ہو۔
ہمارے چیئرمین یا رکن کو کیا ان حوالوں سے کبھی غور و فکر میں مبتلا پایا گیا تھا ؟ ان کی ترجیحات میں داعش و القاعدہ کی بجائے اپنے اپنے سیاسی مفادات پر اصرار نمایاں کرنا رہا ہے۔ افسوس صد افسوس اس سے دانشوروں کے اس فکری ادارے کی اہمیت بہت کم ہو گئی ہے۔ چونکہ میاں نواز شریف اب شدید دباؤ میں ہیں خیال کیا جاتا ہے کہ اب کی بار پھر مولانا فضل الرحمن کے ”جملہ تقاضے” پورے ہوںگے۔ حالانکہ وسیع المشرب’ فرقہ وارانہ تقسیم اور سیاسی جماعتوں کا مخصوص اور سخت گیر موقف رکھنے وا لوں سے متضاد اور انسانیت نواز موقف رکھنے والا چیئرمین اور اراکین ہوں۔ وزارت مذہبی امور کے پاس اب یہ شعبہ نہیں۔ وزارت قانون کے پاس ہے۔ مگر وزارت قانون کونسل کی سابقہ رپورٹوں کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لانے میں ناکام رہی ہے۔ اس ”خامی” کا تدارک ہونا چاہئے۔ نیز اس ادارے کو محض قدیمی فکر کے علماء دین کے لئے مخصوص کرنے کی بجائے دانشوروں و ماہرین’ معاصر علوم و سماجیات کا فہم رکھنے والے کچھ لبرل نقطہ نظر کے انسانی خدام مفکرین و مجتہدین کو بھی اس میں فوراً جگہ ملنا چاہئے۔ ان کی مراعات اور تنخواہیں رکن پارلیمنٹ سے کافی زیادہ ہوں اور سماجی مرتبہ بلند تر ہونا چاہئے۔