پاکستان کی جمہوری سیاست ہمیشہ ہی سول ملٹری تعلقات کے پس منظر میں دیکھی گئی ہے۔ حتیٰ کہ ذوالفقار علی بھٹو جیسے مقبول رہنما کا جمہوری دور بھی کہ جب فوج کا مورال سقوطِ ڈھاکہ کے سبب مکمل طور پر متاثر ہوچکا تھا، جنرل گُل حسن سے لے کر جنرل ضیا تک، بھٹو کی جمہوری حکومت میں بھی سول ملٹری تعلقات حکمرانی کی سیاست کا بنیادی عنوان تھا۔ حتیٰ کہ جنرل ضیا کے آمرانہ سائے تلے جنم دی گئی جونیجو جمہوریت میں بھی اور یہ بھانڈا بیچ بازار پھوٹا۔ جنرل ضیا نے اپنی آمریت کے بطن سے جنم دی گئی اس سیاسی اور نام نہاد جمہوری حکومت کو چلتا کیا۔ سول ملٹری تعلقات کے تانے بانے، برصغیر میں برطانوی دور میں متعارف کروائے گئے اس سیاسی نظام سے ملتے ہیں۔ یہ سلسلہ لارڈ کرزن سے شروع ہوتا ہے جب برطانوی نظام نے ہمارے ہاں محدود سیاسی جمہوری نظام متعارف کروایا، موجودہ جمہوریت اسی نظام کا سلسلہ ہے۔ اس لیے کہ جمہوریت حقیقی معنوں میں پنپنے نہیں بلکہ جنم ہی نہیں دی گئی۔ یعنی سیاسی جماعتوں نے اس نہج پر کام ہی نہیں کیا کہ جمہوریت کو سماج کا حصہ بنا دیا جائے۔ اسی لیے طاقت واقتدار کا یہ تصادم ہر تھوڑے وقفے بعد دیکھنے کو ملتا ہے۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد بھی کہ جب متعدد دانشور یہ اعلان کررہے تھے کہ سیاست دان میچور ہوگئے ہیں اور اس وقت بھی جب ایک طرف محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے روایتی حریف نوازشریف کے ساتھ چارٹرآف ڈیموکریسی پر دستخط کرتی ہیں تو دوسری طرف جنرل پرویز مشرف کے ساتھ درپردہ معاملات طے کرتی ہیں۔ وہ اس راز کو پا گئی تھیں کہ سول لیڈرشپ کو کس قدر اقتدار میسر ہوسکتا ہے۔
2013ء کے انتخابات کے بعد جس طرح میاں نوازشریف کی حکومت احتیاط اور دھیرے دھیرے اقتدار واختیارات کے معاملات سے نمٹتی چلی آئی ہے، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سول ملٹری تعلقات کس قدر Fragile رہے ہیں۔ ہمارے ہاں اکثر تجزیہ نگار ان تعلقات کو فوج کے سربراہ کے حوالے سے دیکھتے ہیں، حالاںکہ یہ معاملہ اداروں کی طاقت، اقتدار اور اختیارات کے گرد گھومتا ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج برطانوی نظام کا واحد ادارہ ہے جس نے اپنے کلونیل ڈسپلن کو برقرار رکھا ہے۔ اس ادارے کا قابل فخر ڈسپلن درحقیقت برطانوی راج کی مرہونِ منت ہے۔ مسلح افواج نے اس شناخت کو کبھی متاثر نہیں ہونے دیا۔ سرد جنگ میں یہ ادارہ مزید مضبوط ہوا۔ سرد جنگ کے دنوں میں اس ادارے کی نئی امپیریلسٹ قوت امریکہ کے ساتھ براہِ راست تعلقات استوار ہوئے اور اہم مقامی علاقائی اور عالمی معاملات میں پارٹنرشپ بھی کی جس نے اس منظم ادارے کو ہرحوالے سے مزید مضبوط کیا ہے۔ اور سب سے اہم یہ کہ مزید خوداعتمادی بھی پیدا ہوئی ہے۔ سرد جنگ میں تقریباً چار دہائیوں میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ تعلقات نے اس ادارے کو ناقابل بیان صلاحیتیں، اعتماد اور تضادات سے کھیلنے کے مواقع دئیے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد تمام تر تجزیہ نگار یہ یقین کیے بیٹھے تھے کہ جہاں امریکہ کے عالمی، عسکری اور سٹریٹجک مفادات بدلے، ختم یا محدود ہوئے ہیں، وہیں اس کے اتحادی ممالک کی مسلح افواج کی سیاسی اہمیت بھی ختم ہوجائے گی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ان اتحادی ممالک کی مسلح افواج، امریکی مفادات اور اس کے تضادات سے کھیلنے کا سبق سیکھ گئیں۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد بھی پاکستان کی مسلح افواج خطے میں امریکی مفادات کے لیے اہم Player رہی ہیں۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ متعدد مقامات پر اس نے امریکی پالیسی سازوں کی خواہشات کے بغیر بلکہ امریکی خواہشات کے خلاف اپنے طور پر بھی کردار ادا کیا ہے۔ اور متعدد مقامات پر امریکی بے بس نظر آئے ہیں۔ اس لیے پاکستان کی مسلح افواج کا تجزیہ کرتے ہوئے ہمارے تجزیہ نگار اور سیاست دان یہ راز ہی نہ جان سکے کہ ملٹری لیڈرشپ کس گہرائی تک اثر رکھتی ہے۔
12اکتوبر 1999ء کو میاں نوازشریف نے نیا چیف آف آرمی سٹاف تو نامزد کردیا، لیکن وہ اس راز سے آگاہ ہی نہ تھے کہ طاقت اُن کے نامزد کردہ نئے چیف آف آرمی سٹاف کے پاس نہیں بلکہ حکم فضا میں اڑتے جنرل پرویز مشرف کا ہی چلے گا۔ اور جب وہ 2013ء میں اقتدار میں آئے تو تب بھی انہوں نے شروع شروع میں 12اکتوبر 1999ء کو ان کا تختہ الٹنے والے جنرل مشرف کو مقدمات کے ذریعے سبق سکھانے کی ٹھانی لیکن وقت اور واقعات نے ان کی کرسی کی طاقت کا پول کھول دیا۔ اور پھر اس کے بعد جو سیاسی سٹیج سجے، اس سے بھی ان کو سمجھ جانا چاہیے تھا کہ طاقت اور اقتدار کہاں وجود رکھتی ہے۔
ہماری سول لیڈرشپ یعنی موجودہ حکومت یا وزیراعظم نوازشریف، گوادر تک چین کو شاہراہ کی فراہمی کو اپنے کریڈٹ پر ڈالتے ہیں اور اسے ایک معاشی شاہراہ قرار دیتے ہیں۔ ممکن ہے ان کو اب علم ہوگیا ہوگا کہ عالمی معاشی طاقتیں اپنے معاشی مفادات کے لیے عالمی سٹریٹجک انتظامات بھی کرتی ہیں۔ گوادر سے چین تک دونوں ممالک نے تیس ہزار سے زائد مسلح ڈویژن کی منصوبہ بندی کی ہے اور چین نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ گوادر میں اس کے جنگی بحری بیڑے چاق وچوبند اور ہر وقت متحرک رہیں گے۔ اس مسلح ڈویژن میں دونوں ممالک برابر کا فوجی عددی حصہ ڈالیں گے۔سرد جنگ میں امریکہ کے ساتھ اور سرد جنگ کے بعد کہیں امریکہ کی مرضی کے خلاف فیصلے کرنے والی ملٹری کو چین کے ساتھ معاملات طے کرتے ہوئے یہ علم ہے کہ نئی ابھرتی عالمی طاقت چین اس کے ساتھ تعلقات میں کس قدر اہمیت دے گی۔ اسی لیے تو سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے کہا کہ میں ریٹائر ہونے سے پہلے اس شاہراہ سے باقاعدہ آمدورفت کا افتتاح کروں گا اور انہوں نے کیا۔ اعلان اور فیصلے کی یہ طاقت، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ طاقت کہاں کھڑی ہے۔ اس سارے تناظر میں موجودہ سال انتخابات کا سال ہے۔ اور سب سیاسی دھڑے متحرک ہونے کے لیے نئی حکمت عملی بنا رہے ہیں۔ جاری سال Pre-election Year ہے۔ اب سب سیاسی جماعتیں جہاں اپنی اپنی کارکردگی کے دعووں کے ساتھ متحرک نظر آئیں گی، وہیں ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ کون کس کا اتحادی بنے گا۔ انتخابی اتحادی نہیں بلکہ سیاسی شطرنج میں چالوں کا اتحادی۔ متعدد فیصلے انتخابات سے قبل ہوں گے اور فیصلہ کن اقدامات انتخابی نتائج پر منحصر ہوں گے۔ عمران خان نے پچھلے چار سالوں میں جو اقدامات اٹھائے، ان سے عمران خان صاحب کو یہ سبق ملا ہے کہ اب کوئی راستہ نہیں، سوائے اس کے کہ مسلم لیگ (ن) پر بھرپور دبائو ڈالا جائے، ان کو دوڑا دوڑا کر ہلکان کردیا جائے۔ آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمن، ایم کیوایم، عوامی نیشنل پارٹی اور جماعت اسلامی وقت کا دھارا دیکھیں گے اور فیصلے کریں گے۔ چودھری شجاعت حسین کیک کٹنے کے انتظار میں ہیں کہ ان کو محنت کرنے کی کچھ زیادہ ضرورت نہیں، بنے بنائے کیک کا ایک حصہ ان کو بھی مل جائے تو وارے نیارے ہوجائیں۔ ایک بار پھر کوشش ہوگی کہ کیک کی تیاری سے پہلے ہی حصہ داری کے معاملاے طے کرلیے جائیں، لیکن اگر آئندہ انتخابات میں نتائج بھرپور طور پر منقسم نہ برآمد ہوئے تو کیک کاٹنا ہی پڑے گا۔ پھر ہمارے تجزیہ نگار رپوتاژ پیش کررہے ہوں گے۔ تجزیہ تو وہ جو مستقبل کے واقعات کے برپا ہونے کے حوالے سے کیا جائے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انتخابی عمل تسلسل کے ساتھ جاری رہے تو جمہوریت مضبوط ہوگی، اُن کو نئے سرے سے برصغیر کی جمہوری تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔