ماجھا کے علاقے میں بھیکن ایک چھوٹا سا غیر معروف گاؤں تھا۔ مشکل سے سو گھرہوں گے۔ زیادہ تر سکھوں کی آبادی تھی۔ یہاں کی ایک بات تھی، وہ یہ کہ بعض اوقات یہاں کوئی غیر معمولی طور پر حسین لڑکی وجود میں آتی جس کے ساتھ کسی نوجوان مرد کے عشق کی داستان اس قدر پُر رومان ہوتی کہ سسی پنوں، سوہنی مہینوال اور ہیررانجھے کے قصے بھی مات ہوجاتے۔ اور اب کے قرعہ گورنام کور کے نام پڑا تھا۔
گورنام کے حسن نے آس پاس کی بستیوں کے نوجوانوں میں ایک ہلچل سی مچا دی تھی۔ وہ ایک گڑیا کے مانند تھی، چینی کی مورت، چلتی تو اس سبک رفتاری کے ساتھ کہ نقش قدم معدوم ، سرمگیں اور بدمست آنکھیں ایسے گناہ کی دعوت دیتی تھیں جس سے بہتر ثواب کا تصور ذہن میں نہ آتا تھا لیکن ابھی وہ معصوم تھی۔ شباب کی آمد آمد تھی اور وہ ایک بے فکر اور پر شباب دوشیزہ کی پُرزور حس ابھی اس طرح محسوس کرتی تھی جیسے خاموش اور پُرسکون سمے میں کہیں دور سے شہنائی کی اڑتی ہوئی آواز سنائی دے جائے۔
ابھی وہ مردوں کے اشاروں اور کنایوں کا مطلب نہیں سمجھتی تھی۔ وہ اپنی مسکراہٹ ہر کسی کو پیش کر دیتی۔ وہ سب سے ہنس کر بات کرلیتی، ابھی اس میں پندارِحسن پیدا نہیں ہوا تھا، اس لیے جو بھی شخص اس سے بات کرلیتا، یہی سمجھتا کہ گورنام اسی سے محبت کرتی ہے۔ ایک مرتبہ شنگاراسنگھ نے علانیہ نوجوانوں کے جھرمٹ میں کھڑے ہو کر کہہ دیا تھا کہ وہ گورنام کو بھگا لے جائے گا۔ اسی وقت دلیپ سنگھ وہاں سے گزرا تو دوسروں نے اسے سمجھایا کہ دیکھو دلیپ سنگھ بھی گورنام کے عاشقوں میں شمار ہوتاہے، اس نے سن پایا تو حالات خطرناک صورت اختیار کرلیں گے۔ اس پر شنگاراسنگھ نے زبردست قہقہہ لگایا اور دلیپ کے پیچھے کھڑے ہو کر بکرا بلا دیا۔ (کسی کی تضحیک کرنے کے لیے اپنے منہ کے آگے ہاتھ رکھ کر بھق بھق کی آواز نکالنا)۔ اس پر دلیپ کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ اس نے خشمگیں نظروں سے شنگارے کی طرف دیکھا اور کڑک کر بولا “تو نے بکرا کیوں بلایا ہے؟”
شنگارے نے تہبند کس لیا اور خم ٹھونک کر مقابلے پر آ کھڑا ہوا۔ دلیپ کی آنکھیں قہر برسا رہی تھیں، قریب تھا کہ دونوں جوان باہم گُتھ جائیں مگر سب نے بیچ بچاؤ کرادیا۔ آخر کہاں تک؟ ایک دن خونی پل پر دونوں کا مقابلہ ہوگیا۔ دلیپ کا ٹخنہ اتر گیا اور دلیپ کی لاٹھی کی ایک ہی ضرب سے شنگارے کا جبڑا ٹوٹ گیا۔ جان تو بچ گئی مگر صورت بگڑ گئی۔ اس دن سے سب کو کان ہوگئے اور اب دلیپ کے جیتے جی گورنام کا دعوےدار پیدا ہونا ناممکن تھا۔
رات بھیگ چکی تھی، چاند جوبن پر تھا۔ گاؤں پر ایک پُراسرار خاموشی طاری تھی۔ کبھی کبھی کتوں کے بھونکنے کی آواز آجاتی یا اس وقت رہٹ کی چرخی کے پاس ایک جنگلی بلا بیٹھا دُم ہلا رہا تھااور نہایت انہماک کے ساتھ میاؤں میاؤں کر رہا تھا۔ یہ رہٹ روڑیوں (کوڑے کے ڈھیر) کے پاس گاؤں کے باہر کی طرف تھا۔ ساتھ ہی پیپل کا ایک بہت بڑا اور گھنا درخت تھا جس پر ایک جھولا پڑا تھا۔چونکہ بیلوں کو ہانکنے والا کوئی تھا نہیں ، جی چاہتا چل دیتے، جی چاہتا ٹھہر جاتے۔ اس وقت خاموشی سے کھڑے سینگ ہلا رہے تھے اتنے میں سانڈنی سوار ایک سکھ مرد پیپل کے نیچے آکر رکا۔ اس نے سانڈنی کو نیچے بٹھانا چاہا۔ سانڈنی بلبلا کر مچلی پھر دھپ سے بیٹھ گئی۔ پنجاب کے دیہات میں چھ فٹ اونچا نوجوان کوئی خلاف معمول بات نہیں مگر اس مرد کے کاندھے غیر معمولی طور پر چوڑے تھے۔ ہاتھوں اور چہرے کی رگیں ابھری ہوئی، آنکھیں سرخ انگارا، ناک جیسے عقاب کی چونچ، رنگ سیاہ، چوڑے اور مضبوط جبڑے، سرایسے دکھائی پڑتا تھا جیسے گردن میں سے تراش کر بنایا گیا ہو، جوڑے پر رنگ برنگ کی جالی جس میں سے تین بڑے بڑے پھندنے نکل کر اس کی سیاہ داڑھی کے پاس لٹک رہے تھے۔ کانوں میں بڑے بڑے مندرے، کالے رنگ کی چھوٹی سی پگڑی کے دو تین بل سر پر ،بدن پر لانبا کرتا اور مونگیا رنگ کا دھاری دار تہبند اس کی ایڑیوں تک لٹکتا ہوا،گریبان کا تسمہ کھلا ہوا اور اس کے سینے پر کے گھنے بال نمایاں اور پھر اس کے ہاتھ میں ایک تیز اور چمکدار چھوی ۔ (ایک تیز خم دار ہتھیار جو لاٹھی کے سرے پر چڑھالیا جاتا ہے۔)
آتے ہی اس نے بیلوں کو دھتکارا اور وہ چلنے لگے۔ اس نے جوتے اتارے، تہبند اوپر اٹھایا اور اپنے موٹے کڑے (آہنی کڑا جو سکھ کلائی میں پہنے رہتے ہیں) پیچھے ہٹا، پانی کی جھال کی طرف بڑھا۔ پہلے اس نے منہ ہاتھ دھویا، زور سے کھانسا پھر پانی پینے لگا۔
جب وہ پگڑی کے شملے سے منہ پونچھنے لگا تو ایک نوجوان دوشیزہ کو دیکھ کر ٹھٹک گیا۔ لڑکی نے پانی بھرنے کے لیے گھڑا جھال کے نیچے کیا۔ اس کی گوری کلائی پر کچ کی کالی کالی چوڑیاں ایک چھن کی آواز کے ساتھ یکجا ہوگئیں۔ گلابی رنگ کی شلوار، چھینٹ کا گھٹنوں تک کا کرتا، سر پر دھانی رنگ کی ہلکی پھلکی اوڑھنی، کانوں میں چھوٹی چھوٹی بالیاں، جب اس نے اپنا نازک ہونٹ دانتوں تلے دبایا، گھڑا ایک جھٹکے کے ساتھ اٹھا، کولھے پر رکھا تو اس کی کمر میں ایک دل نشیں خم ساپیدا ہوکر رہ گیا۔ مرد نے پہلے ایک پاؤں اَولُو (جہاں پانی گرتا ہے) سے باہر نکالا اور اسے جھٹک کر جوتا پہن لیا۔ پھراس نے اپنے دوسرے پاؤں کو جھٹکا دیا اور دوسرا جوتا بھی پہن لیا تو وہ اپنی چھوی ہاتھ میں لیے ہوئے روڑی پر کھڑا ہوگیا جہاں ایک سفید مرغی کے بہت سے پر پڑے تھے۔ پاس ہی کسی کے گھر کی کچی دیوار تھی جس پر اُپلے رکھے تھے۔
جب لڑکی دیوار کے قریب سے گزرنے لگی تو مرد نے چھوی سے ایک اپلا نیچے گرا دیا۔ جو لڑکی کے پاؤں کے پاس جا کر گرا۔ اسی وقت اجنبی مرد نے اس کے پاؤں دیکھے جیسے سپید سپید کبوتر، تلووں کی ہلکی گلابی رنگت ایسے معلوم ہوتی تھی جیسے وہ پاؤں ابھی ابھی گلاب کی کلیاں روند کر چلے آرہے ہوں۔ لڑکی نے اپنی لانبی پلکیں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا، شاید اس نے اسے محض ایک راہ گیر سمجھا تھا مگر اس کی ڈراؤنی صورت دیکھ کر اس کی بڑی بڑی سرمگیں آنکھوں میں خوف کا سایہ دکھائی دینے لگا۔ مرد نے بھاری بھر کم اور کرخت آواز میں پوچھا: “تو کون ہے؟”
لڑکی کی نظریں مرد کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی شخص نے اسے اس قدر بے مروتی کے ساتھ مخاطب کیا۔اس کے سرخ سرخ نازک ہونٹ پھڑکنے لگے جیسے کسی نے لال مرچیں ان پر چھڑک دی ہوں مگر مرد غیر معمولی طور پر بھیانک تھا۔ مرد نے اسی لہجے میں اپنا سوال دہرایا: “تو کون ہے؟”
لڑکی سمجھ نہ سکی کہ اس بات کا کیا جواب دے؟ اس نے اپنی حنائی انگلی اٹھا کر اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا: “میں وہاں اس گھر میں رہتی ہوں۔”
مرد نے چبھتی ہوئی نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ اپنے چوڑے شانوں کو حرکت دے کر بولا “تیرا کیا نام ہے؟”
دوشیزہ کی آنکھیں پُرآب ہوگئیں، بولی “گورنام۔”
“تو وہاں کس کے ساتھ رہتی ہے؟”
“میری ماں ہے، بے بے، ویر، چاچا، باپو سبھی رہتے ہیں۔”
“مجھے اپنے گھر لے چل۔” مرد نے اس کے ساتھ ساتھ قدم بڑھاتے ہوئے کہا۔
“مجھے تجھ سے ڈر معلوم ہوتا ہے۔”
مرد کی پیشانی پر بہت سی تیوریاں پڑ گئیں، اس نےاپنی دلھن کی طرح آراستہ سانڈنی کی مہار پکڑ کر اپنی دانست میں ذرا نرم لہجے میں پوچھا “کیوں؟ کیا تم لوگ سکھ نہیں ہو کیا؟”
لڑکی کا چہرہ کانوں تک سرخ ہوگیا “لیکن مجھے تم سے خوف معلوم ہوتا ہے۔”
“کیوں؟” مرد نے اجڈپن سے اصرار کرتے ہوئے پوچھا۔
لڑکی نے ایک لمحے کے لیے اس کی چمکدار آنکھوں کی طرف دیکھا۔ “تم ہنستے کیوں نہیں؟”
“ارے یہ بات؟” یہ کہہ کر اجنبی نے ایک خوف ناک قہقہہ لگایا جیسے کوئی پانی سے لبریز مٹکا زمین پر انڈیل دے۔ اس کے قہقہے کی آواز سن کر چمگادڑیں اپنی کمین گاہوں سے نکل کر پرواز کر گئیں۔
گورنام کا گھر گاؤں سے باہر دھریک کے درختوں کے جھنڈ کے پاس تھا۔ اس کی ممٹی تو بہت دور سے نظر آتی تھی۔ دروازے کے سامنے پہنچ کر اجنبی رک گیا اور گورنام نے اندر سے اپنے باپو اور بھائی کو باہر بھیجا۔ انھیں دیکھتے ہی اجنبی نے بلند آواز میں کہا “واہ گوروجی کا خالصہ سری واہ گوروجی کی فتح۔”
“واہ گوروجی کا خالصہ سری واہ گوروجی کی فتح۔”
اجنبی کسی ہچکچاہٹ کے بغیر بولا: “میں دور سے آ رہا ہوں، رات زیادہ گزر چکی ہے۔ میں آج یہیں ٹھہروں گا”۔”
باپو درانتی اپنے پوتے کے ہاتھ میں دے کر اجنبی کے منہ کی طرف دیکھنے لگا۔ وہ بہت خوش خلق اور ملنسار شخص تھا مگر اجنبی کی بھیانک شکل اسے شش و پنج میں ڈالے ہوئے تھی۔ خیر اس نے رضامندی ظاہر کرتے ہوئے جواب دیا: “میں ہر طرح سے خدمت کے۔۔۔” پیشتر اس کے کہ وہ اپنا فقرہ پورا کرسکے، اجنبی سانڈنی لڑکے کے سپرد کرکے دروازے کے اندر داخل ہوچکا تھا۔
اگرچہ گھر کا کل سامان غریبانہ تھا مگر گوبر سے لپی ہوئی کچی دیواریں اس کا ثبوت دے رہی تھیں کہ گھر کی عورتیں کاہل یا آرام طلب ہرگز نہیں ہیں۔ گھر کے سب افراد بیاہ والے گھر گئے ہوئے تھے، چار کے سوا۔
ڈیوڑھی سے نکل کر اجنبی صحن میں داخل ہوگیا۔ ایک بچہ سینے سے گلی ڈنڈا لگائے سو رہا تھا۔ صحن مویشیوں کے موت اورگوبرسے اٹا پڑا تھا۔ ایک طرف کھرلی کے پاس ایک بھینس جگالی کررہی تھی۔ بُھس اور کھلی کی سانی کی بو چہار جانب پھیلی ہوئی تھی۔ رسی پر میلے کچیلے کپڑے لٹک رہے تھے۔ ایک طرف خراس، دوسری طرف تنور اور اس کے پاس ہی دیوار سے ٹکا ہوا چھکڑے کا پہیا، یہ بڑے بڑے اپلے، کونے میں کپاس کی چھڑیاں، چولھے کے پاس جھوٹے برتنوں کا انبار، ایک کمرے سے سفید سفید چمکتے ہوئے برتن دکھائی دے رہے تھے۔ ساتھ ہی تاگے میں پروئے ہوئے شلغم کے قتلے سوکھنے کے لیے لٹک رہے تھے۔
صحن سے گزر کر بوڑھا باپو اجنبی کو دروازے سے باہر چھپر کے نیچے لے گیا۔ تھوڑی سی جگہ کے تینوں طرف ایک کچی دیوار اٹھا دی گئی تھی۔ سوکھے ہوئے اُپلے جو جلانے کے کام آسکتے تھے، اسی جگہ رکھے جاتے تھے۔یہاں ایک چارپائی ڈال دی گئی۔ چارخانوں والا ایک کھیس اور اجنبی کے دل کی طرح سخت ایک عدد تکیہ اس پر رکھ دیا گیا۔
گورنام نے کپاس کی چھڑیوں کا ایک گٹھا تنور میں پھینکا اور خود آٹا گوندھنے لگی۔ جس وقت وہ تنور میں روٹیاں لگانے لگی تو اس کی اوڑھنی سر سے کھسک گئی۔ اس کی لانبی چوٹی کے رنگ برنگ کے پھندنے اس کی پنڈلیوں تک لٹک رہے تھے۔ دہکتے ہوئے تنور کی روشنی اس کے حسین چہرے پر پڑ رہی تھی اور اجنبی چپکے چپکے اسے دیکھ رہا تھا۔
شلغم کی ترکاری، ایک کٹورے میں شکر گھی، ڈیلوں کا اچار، دو بڑی بڑی پیاز کی گٹھیاں اور آٹھ چوڑی چوڑی روٹیاں تھال میں رکھ کر گورنام اسے دینے آئی۔
جب اجنبی نے اونچے سُر میں تین چار ڈکاریں لیں اور بڑے زور و شور کے ساتھ منہ میں انگلی پھیر کر کلی کی توگورنام کو معلوم ہوگیا کہ وہ کھانا ختم کرچکا ہے۔
وہ برتن اٹھانے لگی تو اس نے دیکھا کہ اجنبی کپڑے اتار رہا ہے۔ جب اس نے تہبند اتارا اور اسے جھاڑ کے تکیے کے قریب رکھنے لگا تو سونے کا ایک کنٹھا نیچے گر پڑا۔ گورنام ٹھٹک کر واپس جانے لگی تو اجنبی نے آہستہ سے پوچھا: “گورنام! بس جا رہی ہو کیا؟”
گورنام حسب معمول اپنے دل فریب طفلانہ انداز سے مسکرائی اور اوڑھنی سنبھالتی ہوئی آگے جھک کر آہستہ سے بولی: “سب لوگ سو جائیں تو میں آؤں گی۔”
اجنبی دور کھیتوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ شرینہہ اور ببول کے پیڑ سیاہ دیووں کی طرح خاموش کھڑے تھے۔ لنڈمنڈ بیریوں پر بیئوں کے گھونسلے لٹک رہے تھے۔ ایسے سنسان وقت میں تاروں بھرے آسمان تلے، کسی دور افتادہ رہٹ سے کسی نوجوان کے مسرت انگیز گانے کی ہلکی ہلکی آواز آرہی تھی۔۔۔
باگے وچ کیلا ای
نکل کے مل بابو!
ساڈا اونجھنے دا ویلا ای
نکل کے مل بابو!
اتنے میں گورنام دبے پاؤں، شلوار کے پائنچے اٹھائے، نچلا ہونٹ دانتوں تلے دبائے، چپکے چپکے قدم ناپتی ہوئی آئی۔
تھوڑی دیر بعد دونوں میں گھل مل کر باتیں ہونے لگیں۔ اجنبی نے بہت سے سونے کے زیورات اور موتیوں کے ہار نکالے۔ قریب تھا کہ گورنام کے منہ سے حیرت اور مسرت کے مارے ایک چیخ نکل جاتی مگر اجنبی نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
گورنام بہت دیر تک مینا کی طرح چہکتی رہی، اِدھر اُدھر کی باتیں کرتی رہی مگر اس کا دھیان زیورات کی طرف تھا۔ آخر اس نے اپنی باتوں سے آپ ہی اکتا کر ایک گہری سانس لی اور تکان کی آواز میں بولی: “کیوں تم یہ زیورات کہاں سے لائے ہو؟ میرے خیال میں تم جیب کترے تو نہیں ہو، مجھے جیب کتروں، چوروں اور ڈاکوؤں سے سخت نفرت ہے۔ وہ جھٹ سے گلا دبا کر آدمی کو مار ڈالتے ہیں۔” یہ کہہ کر گورنام اپنی موٹی موٹی آنکھوں سے خلا میں گھورنے لگی، جیسے سچ مچ کا کوئی قاتل اس کا گلا دبانے آرہا ہو۔
“مت گھبراؤ، تم بھی کیسی بچوں کی سی باتیں کرتی ہو۔ بھلا میرے ہوتے ہوئے تمھیں کس بات کا خطرہ ؟ اٹھو یہاں میرے پاس چارپائی پر بیٹھ جاؤ۔”
گورنام اٹھ کر اس کے پاس بیٹھ گئی۔ اس نے اجنبی کے چوڑے شانوں کا جائزہ لیا اور پھر گویا تہ دل سے مطمئن ہوکر کہنے لگی “تم کتنے اچھے ہو۔ یہ زیورات تو تم اپنی بیوی کے لیے لائے ہوگے نا؟”
“ہاں!”
گورنام نے اپنی ہتھیلی پر رخسار رکھتے ہوئے بڑے اشتیاق سے پوچھا “تمھاری بیوی کیسی ہے؟”
“مگر میری تو ابھی شادی بھی نہیں ہوئی۔”
“اچھا تو ہونے والی بیوی کے لیے لائے ہو؟”
اجنبی نے اپنی داڑھی کے کھردرے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا “ابھی تو مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ میری بیوی کون بنے گی؟ بنے گی بھی یا نہیں۔”
گورنام نے اپنی دونوں ہتھیلیوں پر ٹھوڑی رکھ کر اپنی آنکھیں جلد جلد جھپکاتے ہوئے ناک ذرا سکیڑ کر بھولے پن سے کہا: “ہاں، تم کالے ہو ذرا۔” اجنبی کے سینے میں جیسے کسی نے گھونسا مار دیا۔ مگر گورنام نہایت سنجیدگی سے کسی گہری سوچ میں ڈوب چکی تھی۔ شاید وہ اجنبی کے لیے بیوی حاصل کرنے کی ترکیب سوچ رہی تھی۔ تبھی وہ بولا “یہ زیور تم لے لو۔”
گورنام نے چونک کر اجنبی کی طرف دیکھا اور پوچھا: “پھر تم اپنی بیوی کو کیا دو گے؟”
اجنبی کو کچھ جواب نہ سوجھا، لڑکھڑاتی زبان سے بولا “پھر میں تم سے لے لوں گا۔”
گورنام کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ اس کی باچھیں کھل گئیں۔ تالی بجا کر بولی “میں انھیں اُپلوں میں چھپا دوں گی۔ کبھی کبھی رات کو اچھے اچھے زیورات پہن کر کھیتوں میں جایا کروں گی۔”
کچھ دیر سکوت کے بعد اجنبی نے کہا “گورنام، تم بھی تو مجھے کچھ دو۔”
گورنام نے دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپایا اور بولی “میرے پاس کیا ہے؟”
“کچھ بھی ہو۔”
گورنام چہرے سے ہاتھ ہٹا کر کچھ دیر تک سوچتی رہی۔ پھر اس نے اپنے گلے سے کوڑیوں اور خربوزے کے رنگ برنگ کے بیجوں کا ہار اتار کر اجنبی کی طرف بڑھا دیا۔ وہ اپنا یہ حقیر تحفہ دیکھ کر جھینپ سی گئی اور اس کے رخسار دہکنے لگے۔
تھوری دیر بعد گورنام نے ایک انگشتری اٹھا کر کہا “یہ میری انگلی میں پہنا دو۔ دیکھوں، کیسی لگتی ہے۔”
اجنبی نے اپنے کالے کالے، میلے کچیلے لمبے چوڑے ہاتھوں میں گورنام کا کنول سا ہاتھ لیا۔ گورنام نظریں جھکائے بچوں کی سی سادگی اور انہماک کے ساتھ انگوٹھی کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کی زلفوں نے اس کے رخساروں کا ایک بڑا حصہ ڈھانپ رکھا تھا۔ اجنبی وارفتگی کے عالم میں اس کے خوب صورت سیپوں جیسے پپوٹوں پر نظریں گاڑے ہوئے تھا۔ جب وہ اس کی انگلی میں انگوٹھی پہنانے لگا تو اس کی اپنی انگلیاں لرزنے لگیں۔ اوراسے ایسا محسوس ہونے لگا، جیسے اس کی چار چار انگل چوڑی کلائیوں کی کل طاقت کشید کی جارہی ہو۔ گورنام چونکی اور سہمی ہوئی ہرنی کی طرح اٹھ کھڑی ہوئی “اماں کھانس رہی ہے۔ اب میں جاتی ہوں۔” اجنبی اپنے خواب سے چونکا۔ گورنام نے آگے جھک کر نقرئی آواز میں پوچھا “جاؤں کیا؟”
اجنبی کی اجازت لے کر وہ زیورات کی پوٹلی بغل میں دبائے جھٹ اندر چلی گئی۔ علی الصباح گاؤں کے مویشی رات بھر کی گرمی سے گھبرا کر جوہڑ میں گھس پڑے۔ اجنبی جانے کے لیے تیار بیٹھا تھا۔ گورنام نے اسے ایک باسی روٹی پر مکھن اور چھنا لسی کا دیا۔ جب اجنبی کپڑے پہن کر تیار ہوا تو گورنام رونے لگی۔ اجنبی نے آہستہ سے کہا “روتی کیوں ہو؟”
“تم مجھے بہت اچھے لگتے ہو۔ تم مت جاؤ۔”
اجنبی ہنس پڑا “میں پھر آؤں گا۔”
باپو کو آتے دیکھ کر اس نے آنسو پونچھ ڈالے۔ باپو اجنبی کو رخصت کرنے کے لیے کچھ دور تک اس کے ساتھ گیا۔ اس نے اجنبی سے پوچھا “کیا میں اپنے معزز مہمان کا نام دریافت کر سکتا ہوں؟”
“ہاں! ” اجنبی نے اپنی تیز نظریں اس کے چہرے پر گاڑ کر جواب دیا۔ پھر اس نے اپنی دھوپ میں چمکنے والی چھوی کی طرف فخریہ انداز سے دیکھتے ہوئے مزید کہا: “اور تمھیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اگر میرے نام کا ذکر اپنے یا بیگانے، کسی سے بھی کیا تو تمھارے اور تمھارے خاندان کے سب افراد کے خون سے مجھے ہاتھ رنگنے پڑیں گے۔” بوڑھے کا چہرہ فق ہوگیا۔
اجنبی سانڈنی پر سوار ہو گیا اور مہار کو جھٹکا دے کر اپنی بھاری آواز میں بولا “آج رات جگا ڈاکو تمھارا مہمان تھا۔”
جگا ڈاکو، اصل نام سردار جگت سنگھ ورک وہ خوف ناک شخص تھا جس کا نام سن کر بڑے بڑے بہادروں کے چھکے چھوٹ جاتے تھے۔ قتل، غارت گری، ظلم، لوٹ مار اس کے ہر روز کے مشاغل تھے۔ لڑکپن اور شباب خون کی ہولی کھیلنے ہی میں گزر گیا۔ بہت سی زمین کا مالک تھا۔ بڑوں بڑوں پر ہاتھ صاف کرتاتھا۔ غریب خوش تھے۔ اس کے خلاف گواہی دینے کا کوئی شخص حوصلہ نہیں کرسکتا تھا۔ اب تیس برس سے اوپر سن تھا۔ موت کے ساتھ کھیلتا ہوا سو جاتا اور موت کا مذاق اڑاتا ہوا جاگ اٹھتا۔ محبت، حُسن، شفقت، نیکی وغیرہ کا اس کے نزدیک کچھ بھی مفہوم متعین نہیں تھا۔ دور دور تک اس کی دھوم تھی۔ علاقہ بھر اس سے تھراتا تھا۔ اس کا دل پتھر، بازو آہن، غصہ قیامت، دہن شعلہ۔ وہ قہر تھا۔
لوگوں نے اس کے نام پر کئی گانے بنا لیے تھے۔ نوجوان جھوم جھوم کر انھیں گایا کرتے۔ ایک واقعے کا ذکر یوں ہوتا تھا۔ ے:
پکے پل تے لڑائیاں ہوئیاں، پکے پل تے
پکے پل تے لڑائیاں ہوئیاں تے چھویاں دے کل ٹٹ گئے۔۔۔ جگیا
یا پھر لائل پور میں اس نے ایک زبردست ڈاکا ڈالا تھا اور بچ کر واپس بھی آگیا تھا۔ اس کا ذکر یوں ہوتا:
جگے ماریا لائل پور ڈاکا، جگے ماریا
جگے ماریا لائل پور ڈاکا تے تاراں کھڑک گیاں آپے
اس کی طویل، تاریک اور ہیبت ناک شب حیات میں ایک تارا طلوع ہوا جس نے اس کی نظریں خیرہ کردیں۔ اور وہ تارا تھی، گورنام!
گورنام بیچاری نادان چھوکری، اسے عشق و محبت کا پتا ہی نہ تھا۔ اسے لوگ کنکھیوں سے دیکھتے، وہ ہنس دیتی۔ اس کا جذبۂ پندارِحسن و شباب کسی نے بھی صحیح طور پر متحرک کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ ابھی اسے اتنا ہوش ہی نہ تھا کہ دیدہ و دانستہ شکار کھیلے، بسملوں کا تڑپنا دیکھے اور اس لذت سے محظوظ ہو جو صیادوں کے لیے مخصوص ہے۔ وہ بھولی بھالی سادہ رو چھوکری یہ جانتی ہی نہیں تھی کہ وہ شاہین جسے زخمی کرنے کے لیے پنجاب کے شہزور نوجوانوں کی کمانیں ٹوٹ چکی تھیں اور جس پر جو بھی تیر پھینکا جاتا تھا، وہ اسے چھو کر اور کند ہو کے زمین پر گر پڑتا تھا، وہی شاہین اس کے غلط انداز تیر کا شکار ہو کر نیم بسمل اس کے پیروں کے پاس پڑا تھا۔ اور وہ تیر قدرت نے اس کی پلکوں میں پنہاں کر کے رکھ چھوڑا تھا۔
رات کی تاریکیوں میں جگا ان کے ہاں آتا اور سپیدۂ سحر نمودار ہونے سے پہلے ہی رخصت ہوجاتا۔ اس نے اپنے آپ کو ایک متمول زمین دار ظاہر کیا۔ باپو کے علاوہ گھر کے سبھی افراد اسے دھرم سنگھ کے نام سے جانتے تھے۔ گورنام کی کشش اسے کھینچ لاتی تھی۔اس کے دل میں خلش سی رہتی تھی کہ وہ اس فرشتے کو اپنانے سے پہلے خود کو کیونکر اس کے قابل بنائے؟ اس نے کبھی بھی اس سے محبت جتانے کی کوشش نہیں کی۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ کیونکر اس کا آغاز کرے، وہ سوچتا تھا کہ نہ معلوم اس کے اظہارِ محبت کرنے پر گورنام کیا رویہ اختیار کر لے؟
وہ اس کے پاس بیٹھی چہکتی رہتی تھی اور وہ مبہوت سا بیٹھا سنا کرتا۔ کبھی کبھی اسے خود سے نفرت ہونے لگتی تھی۔ صورت تو پہلے ہی اس کی مکروہ تھی مگر اس کی سیرت پر تو شیطان دامن میں منہ چھپاتا تھا۔ گورنام تھی کہ اس نے کبھی اس سے اظہارِنفرت نہیں کیا۔ وہ نہایت مہرومحبت کے ساتھ اس سے پیش آتی۔ اگر وہ اسے اپنے قریب بیٹھنے کے لیے کہتا تو اس کے قریب ہی بیٹھ جاتی۔ اگرچہ اس نے آج تک اسے چھونے کی جرأت نہیں کی تھی۔ گورنام کی فرشتہ سیرتی اس کے دل میں دھڑکا پیدا کردیتی تھی ۔ اس کاملکوتی جمال اس کا سر نگوں کردیتا۔ صرف اس کے دل کی بے چینی اور ضمیر کی ملامت بڑھ گئی۔ یہاں تک کہ لوگوں نے نہایت حیرت سے سنا کہ جگے نے ڈاکازنی ترک کردی ہے۔
ڈیڑھ برس کا عرصہ آنکھ جھپکتے میں گزر گیا۔ جگا صبح و شام پاٹھ کرتا، غریبوں کو کھلاتا پلاتا، دان کرتا، گردوارے میں جا کر سیوا کرتا اور ہر کسی کے ساتھ نرمی اور حلیمی سے گفتگو کرتا۔
جگے نے باپو کی منت کی کہ گورنام کور کی شادی اس کے ساتھ کردی جائے۔ اس نے ڈاکازنی ترک کردی ہے اور جو کچھ اس نے لوٹا ، وہ سب بڑی توند والوں کا تھا۔ غریبوں کی کمائی کا ایک پیسہ اس کے پاس نہیں تھا۔ وہ اپنی بہت سی زمین اور روپیہ انھیں دینے کو تیار تھا اور باپو کو وہ ہمیشہ بزرگ سمجھ کر اس کی خدمت کرے گا۔ لیکن گورنام کو یہ نہ معلوم ہونے پائے کہ وہ جگا ڈاکو تھا اور نہ ہی اسے فی الحال اس بات کا علم ہونے پائے کہ اس کی شادی کس سے ہونے والی ہے۔ کیونکہ اسے یقین تھا کہ وہ اسے چاہتی تھی اور جب وہ اپنے پریتم کو یک بیک اپنا خاوند دیکھے گی تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہے گی۔ باپو نے سب کچھ منظور کرلیا۔
جگا بھیکن سے چودہ کوس پرے رہتا تھا۔ اس کی آمدورفت کی خبر کسی کو کانوں کان نہ ہوتی تھی۔ لوگوں نے اس اجنبی کو کبھی کبھار ان کے گھر سے نکلتے دیکھا تھا مگر کسی نے کوئی خاص توجہ نہ دی کیونکہ اول تو آتا ہی کبھی کبھار تھا اور دوسرے وہ راتوں رات واپس بھی چلا جاتا تھا۔ وہ ہمیشہ اپنی بڑھی ہوئی مصروفیتوں کا بہانہ کردیتا۔ جگے کو دنیا جانتی تھی مگر اسے کوئی نہیں پہچانتا تھا، جگے کو شادی کی منظوری مل ہی چکی تھی۔ اب وہ چاہتا تھا کہ گورنام کی زبان سے بھی اس عشق کا اقرار کروالے۔ خواہ اسے یہ نہ بتائے کہ اس کا ہونے والا خاوند وہی تھا۔
ایک دن غروب آفتاب کے بعد وہ بھیکن میں داخل ہوا۔ گھر پہنچ کر پتا چلا کہ گورنام ساتھ والے گاؤں میں جلاہوں کو سوت دینے گئی ہوئی تھی۔ جگے نے آئینے میں اپنی صورت دیکھی۔ اس نے پگڑی ذرا کج کی، شملہ ذرا اور بلند کیا پھر اس نے سب کی نظریں بچا کر چراغ میں سے سرسوں کا تیل ہتھیلی پر الٹ لیا اور اسے اپنی گھنی اور کھردرے بالوں والی گردآلود داڑھی پر خوب اچھی طرح مل لیا۔ پھر وہ مونچھوں کو بل دیتا ہوا گھر سے باہر نکلا اور آہستہ آہستہ ٹہلتا ہوا پانچ چھ فرلانگ تک چلا گیا۔
ہر طرف دھند سی چھائی ہوئی تھی۔ چاند کی ملگجی روشنی میں وہ ایک بھوت کے مانند دکھائی پڑتا تھا۔ دور سے ایک صورت دکھائی دی۔ اسے غور سے ٹکٹکی باندھ کر دیکھا۔ کوئی عورت تھی اور یقیناً تھی بھی گورنام۔ جگا اصیل مرغ کی طرح تن کر کھڑا ہوگیا۔ گورنام قریب آتے ہی مسکرا دی لیکن مسکراہٹ میں کچھ متانت جھلکتی تھی۔ سر پر ایک بھاری گٹھڑی تھی، بولی” میری تو گردن ٹوٹ گئی۔”
“اس گٹھڑی میں کیا بھر لائی ہو؟” یہ کہتے ہوئے جگے نے ایک ہاتھ سے من بھر کا بوجھ اس کے سر سے یوں اٹھالیا جیسے کوئی دو سال کے بچے کو ٹانگ پکڑ کر اٹھا دے۔
“اُپلے اور کیا ہوتا؟” گورنام نے اپنی پتلی سی ناک سکیڑ کر کہا: “آ رہی تھی، رستے میں اپلے چننے لگی، یہاں تک کہ شام ہوگئی۔” دونوں کھیت کی مینڈھ پر بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔
آج جگے نے گورنام کی طرف دیکھا تو اس کے دل میں عجیب عجیب خیالات پیدا ہونے لگے۔ وہ اپنی ہونے والی بیوی کی طرف بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس کے ہاتھ کی پکی ہوئی روٹیوں اور ساگ کا تصور اسے بے چین کیے دیتا تھا۔ کبھی تو اس کے دل میں آتی کہ سارا بھید کھول دے اور کبھی سوچتا کہ ہرگز نہ بتائے۔ آخر اس سے نہ رہا گیا کیونکہ گورنام کچھ افسردہ سی ہو رہی تھی۔ “گورنام!” یہ کہتے کہتے رال اس کی داڑھی پر ٹپک پڑی، اس نے اسے آستین سے پونچھا، پھر بولا “گورنام! تمھیں ایک خوشخبری سنانا چاہتا ہوں۔”
گورنام نے کچھ جواب نہیں دیا۔ وہ اپنے پاؤں کے انگوٹھے سے زمین کریدنے میں مصروف تھی اور گہری سوچ میں تھی۔ اگرچہ وہ پہلے سی شوخ اور الھڑ نہیں رہی تھی مگر جگے سے کافی مانوس تھی۔ اس لیے اس سے زیادہ شرماتی بھی نہیں تھی۔ جگے کو کچھ الجھن سی ہونے لگی۔ اس نے اس کا شانہ ہلا کر پوچھا: “کیوں گورنام! کس سوچ میں ہو؟”
گورنام پہلے تو چونکی۔پھر اس نے دھیرے سے کہا: “میں بہت پریشان ہوں۔ میں بہت دنوں سے چاہتی تھی کہ تمھیں سب حال سناؤں لیکن۔۔۔”
“لیکن کیا؟”
“شرم آتی تھی۔” گورنام نے جھینپ کر جواب دیا۔
جگا کچھ کچھ تاڑ گیا۔ مونچھ کے نیچے مسکرایا: “ارے مجھ سے شرم کیسی؟”
گورنام چپ رہی۔ جگا کھسک کر اس کے قریب ہوگیا۔ اس کے بار بار اصرار کرنے پر گورنام نے بتایا: “وہ میری شادی کرنا چاہتے ہیں۔”
“تو اس میں پریشانی کی کیا بات ہے؟ شادی تو سبھی کی ہوتی ہے۔”
گورنام کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ بھرائی ہوئی آواز میں بولی “وہ کسی روپے پیسے والے شخص سے میرا بیاہ کرنا چاہتے ہیں جسے میں نے دیکھا بھی نہیں۔ مگر میں کسی اور سے۔۔۔” یہ کہہ کر وہ رو پڑی۔
جگے نے اپنا اوپر کی طرف اٹھا شملہ چھو کر دیکھا کہ وہ نیچے تو نہیں جھک گیا؟ پھر اس نے سینہ پھلا کر کہا: “نہیں گورنام! نہیں، جسے تم چاہوگی اسی سے تمھاری شادی ہوگی۔ میں باپو کو خود سمجھاؤں گا۔۔۔ ہاں تو ۔۔۔ مگر وہ ہے کون؟ ” جگے کی آنکھیں مارے خوشی کے چمک رہی تھیں۔ گورنام نے اس کے سینے پر سر رکھ دیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ آج اسے اس کے چوڑے شانے اور صندوق جیسا سینہ چھو کر یک گونہ تسکین حا صل ہورہی تھی۔ جگا گھبرا گیا۔ اس نے اسے چمکارا، دلاسا دیا اور پھر اس شخص کا نام پوچھا۔
گورنام نے کچھ کہنا چاہا۔ پھر رک گئی اور زور زور سے رونے لگی۔ جگے نے تسکین دی تو وہ بولی “تم ضرور میری مدد کرو گے۔ میں ان سب کے ہاتھوں سخت بیزار ہوں۔ تم بہت اچھے ہو۔ اس کا نام۔۔۔”جگے کا دل بلیوں اچھلنے لگا “اس کا نام ہے دلیپ۔۔۔ دلیپ سنگھ۔”
جگے کو سانپ نے ڈس لیا۔ اس کا چہرہ یکایک بھیانک ہوگیا۔ “دلیپ سنگھ اس کا نام ہے؟” گورنام نے دہرایا۔
جگے کی مونچھیں لٹکنے لگیں۔ پیشانی پر بل پڑ گئے۔ جسم کے رونگٹے کانٹوں کی طرح کھڑے ہوگئے۔ آنکھوں سے چنگاریاں نکلنے لگیں۔ گردن کی رگیں پھول گئیں۔ گورنام نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ “گھر جاؤ۔” اس نے بھاری آواز میں کہا۔ یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا: “تم فوراً واپس چلی جاؤ۔” اس نے کرخت لہجے میں گرج کر کہا۔
گورنام چپ چاپ حیرت کے ساتھ اٹھی اور گٹھڑی سر پر رکھ کر گھر کی طرف چل دی۔ جگا اسی طرح کھڑا ہوا تھا۔ اس کا چہرہ لحظہ بہ لحظہ بھیانک ہوتا جا رہا تھا۔ عقاب کی چونچ نما ناک سرخ ہوگئی۔ آنکھیں خون آلود ہو کر رہ گئیں اور چہرے سے بربریت ٹپکنے لگی۔ معاً اس نے خنجر نکالا اور اسے مضبوطی سے ہاتھ میں پکڑ لیا۔ دانت پیستے ہوئے آہستہ سے بولا “دلیپ سنگھ؟۔۔۔” موت کا فرشتہ دلیپ سنگھ کے سر پر منڈلانے لگا۔
خونی پل علاقے بھر میں مشہور تھا۔ یہ پل ایک چھوٹی سی نہر پر واقع تھا۔ نہر کے دونوں کناروں پر شیشم کے بہت ہی گھنے پیڑ تھے۔ وہاں نہ تو سورج کی دھوپ پہنچ سکتی تھی، نہ چاند کی چاندنی۔ پل بڑے بڑے اور بھدے پتھروں سے تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کے نیچے صرف ایک کوٹھی تھی اور پانی دو حصوں میں تقسیم ہو کر بہتا تھا۔ رات کے وقت یہ دو بڑے بڑے منہ ایسے دکھائی پڑتے تھے جیسے دومنہ والا کوئی دیو انسانوں کو ہڑپ کر لینے کے لیے منہ کھولے بیٹھا ہو، یا جیسے کسی مردے کی دو بڑی بڑی آنکھیں ، جن کی پتلیاں کوّے نوچ کر کھا گئے ہوں۔ پاس ہی ایک قبرستان تھا اور کچھ فاصلے پر مرگھٹ۔ رات کے وقت کوئی شخص ادھر سے گزرنے کی جرأت نہیں کرسکتا تھا کیونکہ اس پل پر اتنے قتل ہو چکے تھے کہ اس کا نام ہی خونی پل رکھ دیا گیاتھا۔ نوجوان لڑکیاں اور بچے تو دن کے وقت بھی اکیلے ادھر نہ آتے تھے۔ مشہور تھا کہ وہاں ایک سرکٹا سید رہتا تھا۔ کبھی کبھی اس کا سر تو پل کے نیچے دل دوز چیخیں مارا کرتا اور وہ خود سر کے بغیر نہایت اطمینان کے ساتھ قبرستان میں ٹہلا کرتا تھا۔
نصف رات گزر چکی تھی۔ دلیپ سنگھ شہر سے واپس آرہا تھا۔ چھوٹے سے گدھے پر دو بوریوں میں سامان تھا۔ وہ سنار کا کام بھی کرتا تھا اور پنساری کی دکان بھی۔ اس کی اپنی تیارکردہ گل قند خوب بکتی تھی۔ وہ نوجوان تھا۔ خوش رو، خوش وضع، مسیں ابھی بھیگ ہی رہی تھیں، گالوں اور ٹھوڑی پر بالکل چھوٹے چھوٹے بال جیسے زعفران، آنکھیں شربت سے لبریز کٹورے، سر پر اس وقت لنگی باندھے ہوئے تھا۔ اس کا ایک چھوٹا سا شملہ نیچے کی جانب لٹکتا ہوا اور دوسرا اوپر کی طرف اٹھا ہوا! الغوزہ خوب بجاتا تھا۔ جب رانجھا ہیر کی شادی کے بعد اس کے ہاں بھیک مانگنے کے لیے جاتا ہے، یہ واقعہ وارث شاہ کی ہیر سے بڑے دردناک لے میں گایا کرتا تھا۔ ۔بلکہ اس میں تو دور دور تک اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔
دلیپ طاقتور اور دلیر نوجوان تھا مگر خونی پل کا نظارہ اور پھر اس کے ساتھ وابستہ خونی روایات وہ جگہ اور بھی بھیانک بنا دیتی تھیں۔ رات کی تاریکی میں شیشم کے گھنے درختوں کے تلے نہر کے سسک سسک کر بہنے والے پانی کی آواز سن کر اس کے دل کو کوفت سی ہونے لگی۔ اس نے ذرا بلند آواز میں چھئی گانا شروع کردیا۔ تاریکی اور خاموشی میں اپنی آواز سن کر اسے تسکین ہوئی۔ اس کا گدھا پل سے پار ہوچکا تھا۔ وہ عین پل کے درمیان میں تھا۔ دل میں شاداں تھا کہ اچانک کسی شے کی چبھن محسوس ہوئی۔ جیسے کوئی اس کا کرتا پکڑے پیچھے کی طرف کھینچ رہا ہو۔ اس نے گھوم کر دیکھا۔ ایک دیو ہیکل مرد پل کی دیوار سے اُچکا ہوا تھا۔ اس نے اپنی چھوی پیچھے سے دلیپ کی قمیص میں اڑا دی تھی۔ اس کی آنکھیں انگاروں کی طرح دہک رہی تھیں۔
“تم کون ہو؟” دلیپ نے ہمت کرکے بلند آواز میں پوچھا۔
“ادھر آ۔” بھاری اور تحکمانہ آواز آئی۔
دلیپ اس کی طرف بڑھا۔ یکایک اس نے اجنبی کو پہچان لیا۔ بولا: “مجھے ایسا معلوم پڑتا ہے کہ میں نے تمھیں کہیں دیکھا ضرور ہے۔ کیاتم وہی شخص نہیں جس نے تین سال پہلے چند اشخاص سے لڑتے وقت میرا ساتھ دیا تھا؟ ہاں شاید وہ ننکانہ صاحب کا میلہ تھا۔ تبھی کا واقعہ ہے اور تم نے دو آدمی جان سے بھی مار ڈالے تھے؟”
“بے شک میں وہی ہوں لیکن میں نہیں جانتا تھا کہ تیرا نام دلیپ سنگھ ہے۔ میں تجھے ایک اجنبی اور نو عمر چھوکرا سمجھ کر تیرا مددگار بنا تھا اور قتل تو میں نے بہت کیے ہیں، اسی پل پر گیارہ آدمی قتل کر چکاہوں اور آج مجھے بارھواں قتل کرنا ہے۔”
دلیپ کو اس کے اجڈپن پر تعجب ہوا، بولا “میں نہیں جانتا تمھاری مجھ سے کیا دشمنی ہے؟ تم تو میرے محسن ہو۔”
“تو گورنام سے محبت کرتا ہے جو صرف میری ہے۔ مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ تو نے شنگارا سنگھ کو اسی پل پر سخت زخمی کیا تھا۔ آج تیرا میرا فیصلہ ہوگا۔”
یہ کہہ کر اجنبی نے چھوی ہاتھ سے رکھ دی، اور اس کی طرف بڑھا اور بولا “اور میں چاہتا ہوں کہ تو ایک مرد کی طرح میرے مقابل آجائے۔”
دلیپ پس و پیش کر رہا تھا۔ اس نے کہا “میں اپنے محسن سے لڑنا پسند نہیں کرتا۔”
اجنبی نے گرج کر جواب دیا “تو بُزدل ہے۔ یہ عورتوں کی طرح گلے میں ریشمی رومال لپیٹ کر گھومنا اور بات ہے اور کسی مرد کے ساتھ دست پنجہ لڑانا کچھ اور بات ہے ! اگر تو واقعی اپنے باپ ہی کے تخم سے ہے تو میرے سامنے آ۔” یہ کہہ کر اس نے اس کے منہ پر تھوکا۔
دلیپ کو غیرت آگئی۔ وہ شیر کی طرح بپھر گیا۔ دلیپ نے وہ ڈنڈا اس کے منہ پر دے مارا جو گدھا ہانکنے کے لیے ہاتھ میں لیے ہوئے تھا۔ لیکن اجنبی نے وار روکنے کی کوشش نہیں کی۔ دلیپ نے دوسری ضرب اس کے کان پر رسید کی، ڈنڈا ٹوٹ گیا۔ اس کی پیشانی اور کان سے خون بہنے لگا۔ دلیپ جوش میں تھا، اس نے پوری قوت کے ساتھ ایک مکا اس کے منہ پر رسید کیا جس سےاس کا جبڑا اپنی جگہ سے ہٹ گیا اور منہ بگڑ گیا مگر اجنبی نہایت سکون کے ساتھ کھڑا رہا۔ اس وقت اس کی پیشانی سے خون بہ بہ کر اس کی داڑھی تر کر رہا تھا۔ ایک کان کا اوپر والا حصہ ٹوٹ کر لٹک رہا تھا اور اس میں سے خون کی دھار چھوٹ رہی تھی۔
منہ ٹیڑھا ہو جانے کی وجہ سے اس کی صورت اور بھی بھیانک ہو رہی تھی مگر وہ حیرت انگیز طور پر مطمئن
تھا۔ پھر اس نے دلیپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی گہری اور بھاری آواز میں کہا: “اس طرح نہیں دلیپ! تم ابھی محض بچے ہو۔ لیکن جگا کوئی طفلانہ حرکت کرنا نہیں چاہتا۔” یہ کہہ کر اس نے ایک گھونسا اپنے منہ پر دیا اور اس کا جبڑا عین اصل جگہ آگیا۔ دلیپ جگے کا نام سن کر خوف زدہ ہوگیا۔ اجنبی اپنی چھوی پکڑ کر بولا: “تیرے پاس چھوی ہے؟”
“نہیں۔”
“تلوار ہے؟”
“نہیں۔”
“صفا جنگ؟”
“نہیں۔”
“مگر لاٹھی تو ہے، وہ تیرے گدھے کی پیٹھ پر بوری میں ٹھنسی ہوئی ہے۔” دلیپ تعجب کے مارے چپ چاپ کھڑا تھا۔ “جا!” اجنبی نے پکار کر کہا “لاٹھی لے آ۔ میں نے سنا ہے کہ تو علاقے بھر میں سب سے زیادہ تیز دوڑنے والا جوان ہے لیکن میں امید کرتا ہوں کہ تیری غیرت تجھے ایک بزدل کی موت ہرگز نہیں مرنے دے گی۔”
دلیپ بہادر تھا مگر اس قسم کے شخص سے آج تک اس کا پالا نہیں پڑا تھا۔ جگے نے چھوی اتار کر علیحدہ رکھ دی اور صرف لاٹھی اٹھا لی اور وہ دونوں ایک دوسرے کو للکارتے ہوئے میدان میں کود پڑے۔ ان کی للکار کی آواز سن کر پرندے گھونسلوں میں پھڑپھڑانے لگے۔ گیدڑوں نے ہوا ہوا ہوا ہو کا شور بلند کیا۔ چاروں طرف گرد ہی گرد نظر آنے لگی۔
لاٹھی سے لاٹھی بج رہی تھی۔ دلیپ ہلکا پھلکا، چست ، چالاک، نو آموز اور نوجوان چھوکرا، بجلی کی طرح بے چین، جوڑ جوڑ میں پارہ۔۔۔ جگا بھاری بھر کم، قوی ہیکل، کہنہ مشق دیو۔ موٹا ہونے کے باوجود اب بھی جس وقت سرک لگاتا، تو ایسا معلوم پڑتا جیسے سطح آب پر ٹھیکری پھسلتی ہوئی چلی جا رہی ہو۔ دلیپ نے داؤ لگا کر پہلا وار کیا۔ جگا اسے خالی دے کر چلایا “ایک۔”
دلیپ نے پھر وار کیا۔ جگا اسے بچا کر گرجا “دو۔”
دلیپ نے تیسرا وار کیا۔ جگے نے اسے بھی روکا اور کڑکا “تین!”
یہ کہہ کر وہ آگے کی طرف لپکا: “او سنبھل بے چھوکرے، اب جگا وار کرتا ہے۔”
پسینے کی وجہ سے دلیپ کے ہاتھ سے لاٹھی چھوٹ گئی۔ وہ فوراً چُھرا لے کر جھپٹا۔ جگے نے ایک لات اس کے پیٹ میں رسید کی اور وہ لڑکھڑاتا ہوا پل کی دیوار سے ٹکرا کر گر پڑا۔ اب جگے کے لبوں پر خونیں مسکراہٹ پیدا ہوئی۔ اس نے ایک وحشی بھیڑیے کے مانند حلق سےایک خوف ناک آواز نکالی پھر دونوں ایڑیاں اٹھا کر آگے کی طرف اُچک کر بھرپور وار کیا۔ دلیپ نے چھرا سنبھالا اور چیتے کے مانند تڑپ کر ہوا میں جست کرگیا مگر کہنہ مشق استاد کا وار اپنا کام کرگیا۔ شاید پہلی صورت میں یہ وار اس کا سر توڑ دیتا اور لاٹھی اس کے سینے تک پہنچ جاتی مگر اب بھی لاٹھی کافی زور کے ساتھ سر پرپڑی۔ سر پھٹ گیا اور وہ تڑپ کر بارہ سنگھے کے مانند نہر کے کنارے پر جا گرا۔ کچھ دیر تک تڑپتا رہا پھر سرد پڑگیا۔
گرم گرم خون بہ بہ کر نہر میں ملنے لگا۔ نہر کے پانی کی کل کل کی آواز ایسی معلوم پڑتی تھی جیسے خونی پل قہقہے لگا رہا ہو۔ قبرستان میں بوسیدہ قبروں کے روزنوں سے ہوا سبکیاں لیتی ہوئی چل رہی تھی۔ زرد چاند بدلی سے نکل آیا مگر اس کی شعاعیں شیشم کے گھنے پتوں میں الجھ کر رہ گئیں۔
جگے نے نہایت اطمینان کے ساتھ اپنی خون آلود پیشانی صاف کی۔ منہ ہاتھ دھویا، کان پر پگڑی پھاڑ کر پٹی باندھی۔ دلیپ کے سینے پر ہاتھ رکھ کر دل کی حرکت سننے کی کوشش کی۔ پھر اس نے چھوی اٹھائی اور دلیپ کو پیٹھ پر لاد کھیتوں کی طرف چل کھڑا ہوا۔
اس واقعے کے پچیس دن بعد____ دیہات میں شام ہوتے خاموشی طاری ہوجاتی ہے۔ خصوصاً سردیوں میں تو لوگ فوراً اپنے گھروں میں گھس بیٹھتے ہیں۔ گورنام کے ہاں سبھی لوگ اپنے اپنے کاموں سے فراغت پا کر بڑے کمرے میں بیٹھے تھے۔ عورتیں چرخا کات رہی تھیں، بڑے بوڑھے باتوں میں مشغول تھے اور بچے شرارتوں میں مصروف۔ اتنے میں جگا اندر داخل ہوا۔
شاید ڈیڑھ برس بعد آج پھر اس کے مضبوط ہاتھ میں چھوی چمک رہی تھی۔ سب نے اسے دیکھ کر اظہارِمسرت کیا۔ گورنام حیرت سے اس کی جانب دیکھنے لگی۔ بے بے نے اسے بیٹھنے کے لیے کہا مگر اس نے بتایا کہ اس کی ڈاچی (سانڈنی) باہر کھڑی ہے اور اسے جلدی واپس جانا ہے۔ چند لمحوں کے لیے اس نے سکوت کیا۔ پھر نہایت مختصر اور فیصلہ کن انداز میں کہنا شروع کیا “میں آپ لوگوں سے صرف اتنی بات کہنے کے لیے آیا ہوں کہ آپ گورنام کی شادی جس شخص سے کرنا چاہتے ہیں، وہ ہرگز ہرگز نہیں ہو سکتی۔ بلکہ اس کی شادی اس شخص سے ہوگی جس سے میں چاہوں گا۔”
سب لوگ حیران تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ گورنام کا ہونے والا خاوند وہ خود تھا۔ مگر چونکہ انھیں یہ راز پوشیدہ رکھنے کی سخت تاکید کی گئی تھی اس لیے وہ خاموش رہے۔ “اور وہ شخص یہ ہے۔” یہ کہہ کر اس نے دروازے کی طرف دیکھا اور دلیپ اندر داخل ہوا۔
ہر شخص پر حیرت زا خاموشی طاری ہوگئی۔ گورنام نہ معلوم کس دنیا میں پہنچ گئی۔ اسے شرما جانا چاہیے تھا مگر وہ اٹھ کر اس کے قریب آگئی۔
جگے نے دلیپ کے کان میں کہا “اگر گورنام کو مجھ سے محبت ہوتی تو تم آج زندہ نظر نہ آتے دلیپ! تم مرد ہو۔ میں نے اچھی طرح تمھیں آزما کر دیکھ لیا ہے۔ میں چاہتا تو تمھیں قتل کر ڈالتا مگر مردوں سے مجھے محبت ہے۔ اب جبکہ تمھاری گورنام تمھارے سپرد کررہا ہوں، امید کرتا ہوں کہ تم میرا راز ظاہر نہیں کرو گے۔”
دلیپ نے تشکر آمیز نظروں سے اپنے محسن کی طرف دیکھا۔ جگا بلند آواز میں بولا “باپو، اماں، بے بے! میں ان کی شادی کے لیے ضرورت سے کہیں زیادہ روپیہ دوں گا اور انھیں بہت سی زمین دوں گا۔”
باپو اصل قصہ بھانپ گیا لیکن سب کو زیادہ تعجب اس بات پر تھا کہ دلیپ زندہ کیونکر ہوگیا؟ مشہور ہو چکا تھا کہ دلیپ کو ڈاکوؤں نے خونی پل پر قتل کردیا تھا۔ دلیپ نے قصہ گھڑ کر سنا دیا کہ خونی پل پر ڈاکوؤں نے اسے گھیر لیا تھا، اس لڑائی میں وہ سخت زخمی ہوا اور قریب تھا کہ ڈاکوؤں کے ہاتھوں قتل ہو جاتا کہ سردار دھرم سنگھ وہاں پہنچ گئے۔ وہ اس قدر تندی سے لڑے کہ ڈاکوؤں کے چھکے چھوٹ گئے اور انھیں بھاگتے ہی بنی۔ پھر وہ اسے اپنے گھر لے گئے اور تیمارداری کرتے رہے۔
جگے کی مونچھوں کے نیچے اس کے لبوں پر ایک تلخ مسکراہٹ پیدا ہوئی۔ گورنام کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وہ مسحور ہوکر آگے بڑھی۔ اس نے جگے کا بھدا ہاتھ اپنے کنول ایسے ہاتھوں میں لے لیا۔ پہلے اس نے جگے کے بلند سینے اور اس کے غیر معمولی طور پر چوڑے شانوں کا جائزہ لیا پھر گویا مطمئن ہو کر بھرائی ہوئی آواز میں بولی “تم کتنے اچھے ہو۔۔۔ تم یہیں ہمارے پاس رہا کرو۔”
قریب تھا کہ جگا چیخیں مار مار کر رو پڑے مگر جلدی سے پگڑی کے شملے میں منہ چھپا کر بگولے کی طرح دروازے سے باہر نکل گیا۔
شادی ہوگئی۔ کچھ عرصے بعد رات کے وقت گورنام باپو کے ساتھ گھر سے باہر کریلے کی بیل کے پاس کھڑی تھی۔ معاً دور سے غبار اٹھا، کچھ سانڈنی سوار نمودار ہوئے، ان کی سجی سجائی سانڈنیاں، مردانہ اور دیوپیکر صورتیں اور چمکتی ہوئی چھویاں عجب منظر پیش کرتی تھیں۔ ان کا سالار تو غیر معمولی طور پر چوڑا چکلا شخص تھا۔ گورنام اسے دیکھتے ہی چلا اٹھی “باپو! وہ کون لوگ ہیں؟ یہ سب سے آگے والا شخص تو دھرم سنگھ دکھائی پڑتا ہے۔”
“نہیں بیٹی نہیں، وہ دھرم سنگھ نہیں ہے۔” یہ کہہ کر اس نے اپنی پوتی کا سر سینے سے لگایا۔ پھر ببول کے درختوں کے جھنڈ میں غائب ہوتے ہوئے سانڈنی سواروں کی طرف خواب ناک نظروں سے دیکھتے ہوئے بڑبڑایا “آج جگا ڈاکو ڈاکا ڈالنے کے لیے جا رہاہے”۔
مناظر: 67