ہمارے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے زیادہ تر موضوعات عالمی، علاقائی یا اعلیٰ لوگوں سے ہی متعلق ہوتے ہیں۔ اسلامی اُمہ کے مسائل سے لے کر افغانستان، مشرقِ وسطیٰ، امریکہ کی سیاست اور اسی طرح ملک کی اعلیٰ شخصیات اور اُن کے خاندان۔کبھی کسی اعلیٰ عیدے دار کی نوکری کی بحالی پر پوری کی پوری وکلا برادری متحرک نظر آتی ہے تو کبھی عمران خان کی شادی اور طلاق پر۔ جب ریحام، عمران خان سے شادی کرتی ہیں تو وہ مسلم لیگ (ن) کے حلقوں میں ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں اور پھر انہی حلقوں میں طلاق کی خبروں اور طلاق یافتہ ہونے کے بعد عزت واحترام کے اعلیٰ مقام کی حق دار ٹھہرادی جاتی ہیں۔ اُن کے علم وفکر اور تدبر سے متعلق بحثیں شروع ہوجاتی ہیں۔ ہماری صحافت کا بڑا حصہ سیاست دانوں کے بیانات پر مبنی ہوتا ہے۔ راقم اس خبر کو ایک بڑی خبر مان لے اگر آصف علی زرداری اور اُن کے صاحب زادے بلاول بھٹو زرداری کے رکن اسمبلی کے لیے میدان مارنے کے سبب، غربت کے سمندر میں کمی واقع ہوجائے۔ راقم کے لیے اس لیے ایسی خبریں زیادہ اہم نہیں کیوںکہ ہم نے شہباز شریف کے صاحب زادے حمزہ شہباز، پرویز الٰہی کے صاحب زادے مونس الٰہی، نوازشریف کی صاحب زادی مریم نواز، نثار میمن کی صاحب زادی ماروی میمن، عزیز چودھری کے صاحب زادے دانیال عزیز، جنرل اختر عبدالرحمن کے صاحب زادوں ہارون اختر اور ہمایوں اختر،جنرل ضیا کے بیٹے اعجاز الحق،مخدوم سجاد حسین قریشی کے بیٹے شاہ محمود قریشی سمیت لاتعداد ’’قومی لیڈروں‘‘ کے ’’چشم وچراغ‘‘ کو میدانِ سیاست میں میدان مارتے دیکھا ہے۔ ہماری صحافت کا المیہ یہ ہے کہ ہم اُن موضوعات کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں جن کا تعلق پاکستان کے مسائل سے نہیں، بلکہ وہ لوگ خود ان مسائل کا مسئلہ ہیں۔ بڑا اینکر وہ جو حکمران طبقات کو زیربحث لائے اور اسی طرح بڑا کالم نگار بھی وہ جو حکمران طبقات کے ایک دھڑے میں کھڑا ہوکراُس دھڑے کا دفاع کرتے ہوئے ’’جمہوریت بیانی‘‘ کرے۔ پہلے ان لوگوں کو ہم نے اسلام، نظریۂ پاکستان کے پرچم ہاتھوں میں لیے ایک لمبا عرصہ دیکھا اور اب اُن کے ہاتھوں میں جمہوریت کے پرچم ہیں۔
اسی طرح کرپشن کا موضوع بھی حکمران طبقات کی باہمی لڑائی کا ہی ایک موضوع ہے۔ کسی ایک بھی سیاسی دھڑے میں محنت کشوں کا استحصال زیر بحث نہیں۔ اور اسی طرح وہ حکمران جو حکمران سے زیادہ خادم کہلوانا پسند کرتے ہیں، وہ Govern (حکمرانی) کرنے کی اپنے آپ کی شاندار مثال دیتے ہیں یعنی Good Governance، یہ اصطلاح ہم نے کبھی یورپ کی فلاحی ریاستوں کی سیاست میں اس زور وشور سے نہیں سنی جس قدر ہمارے ہاں استعمال کی جاتی ہیں کیوںکہ وہاں عوام حکمرانی میں خود شامل ہیں جبکہ یہاں صرف اشرافیہ حکمرانی کرتی ہے، اس لیے گورننس سے گڈ گورننس انہی کے حصے میں آتی ہے۔ ذرا آئیں دیکھیں ’’گڈ گورننس‘‘ کے دعوے دار صوبے اور خصوصاً صوبے کے دارالحکومت میں ’’گڈ گورننس‘‘ کی حقیقت کیا ہے۔ پنجاب کو Good Govern کرنے کا دعویٰ بڑے زور وشور سے کیا جاتا ہے۔ خادم اعلیٰ کا میڈیا سیل اس حوالے سے خوب خبریں خصوصی اہتمام سے شائع کرتا ہے۔ لیکن کیا یہ غلط ہے کہ صوبائی دارالحکومت لاہور سٹیٹ کرائمز کی جنت بن چکا ہے۔ اور تو اور سڑکوں پر ٹریفک قوانین کی مکمل دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ کیا اسے گڈ گورننس کہا جائے۔ موٹر سائیکل سوار اب کسی قانون کے دائرے میں ہی نہیں۔ دائیں چلیں، بائیں چلیں، سامنے سے آئیں، انہیں اب کوئی نہیں روک سکتا۔ خادمِ اعلیٰ نے بڑے ذوق وشوق سے لاہور کی ایک خوب صورت سڑک جیل روڈ کو سگنل فری سڑک میں بدل دیا لیکن عملاً اب یہ Free Style Wrestling کا نظارہ پیش کرتی ہے۔ سڑک کے دونوں جانب یوٹرن کے لیے بنائے گئے راستے اب ہر طرف آنے جانے کے لیے شارٹ کٹ کے طور پر استعمال ہورہے ہیں۔ پولیس جس طرح اس قانون شکنی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بے بس کھڑی نظر آتی ہے، کیا اسے گڈ گورننس کہیں گے۔ یہ سگنل فری روڈ اب شارٹ کٹس روڈ میں بدل چکی ہے۔ ہمارے ہاں کسی موٹر سائیکل سوار کے پاس لائسنس نہیں اور نہ ہی پیچھے دیکھنے والے آئینے ان کی موٹر سائیکلوں پر نظر آتے ہیں۔ ایک ایک موٹر سائیکل پر پورا پورا کنبہ، موٹر سائیکل پر سوار اس کی بیوی اور پانچ چھے بچے، کیا یہ قانون کی دھجیاں نہیں اڑائی جا رہیں؟ اشاروں کو توڑنا، بائیں ہاتھ سے اوور ٹیک کرنا، سامنے سے جانے والی سڑک سے چلے آنا، بیک ویو مررز کے بغیر موٹر سائیکل چلانا تو اب رواج ہی بن گیا ہے۔ ان ساری قانون شکنیوں میں ایک اور اضافہ ہوا ہے، وہ ہے دس سال کی عمر کے قریب بچے موٹر سائیکل چلا کر اپنے بہن بھائیوں کو لادے سکول آجا رہے ہوتے ہیں۔ شرم آنی چاہیے اُن والدین کو جو ان کو یہ اجازت دیتے ہیں اور ان کو بھی جن کی ’’گڈگورننس‘‘ کے زیر سایہ یہ سب کچھ ہورہا ہے۔ جبکہ خاموش پولیس، سڑکوں پر اعلیٰ سرکاری افسران اور سیاست دانوں کو سیکیورٹی دینے میں چاق وچوبند کھڑی پائی جاتی ہے۔
پاکستان کے دوسرے بڑے شہر، صوبائی دارالحکومت لاہور میں صرف موٹر سائیکل سوار جس طرح قانون کی دھجیاں اڑاتے ہیں، صرف یہ ایک مثال ہی پنجاب میں گڈ گورننس کا پول کھول دیتی ہے۔ شہر میں موٹر سائیکل سواروں کی تعداد اب لاکھوں میں ہے۔ وہ شاہراہ کے علاوہ جہاں فٹ پاتھ ہے، وہاں اور ہر ممکن جگہ چلتے ہیں۔ اور ان کی غصہ بھری آنکھیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ جہاں قانون توڑنے پر ان کو ملال نہیں، وہاں وہ اب اس قانون شکنی کو جائز تصور کرتے ہیں۔ جس سماج کے حکمران طبقات آئین کی دھجیاں اڑائیں، طاقت واقتدار اور دولت کے لیے کسی بھی قانون کی پرواہ نہ کریں، ایسے سماج میں سڑک پر چلنے والا موٹر سائیکل سوار یہ سب کچھ کرنے کو جائز تصور کرتا ہے۔
کتنی دلچسپ خبر تھی تین روز قبل کہ لاہور پولیس نے نئے سال کی آمد کی تقریبات منانے والوں کو کڑے ہاتھوں لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ اب کر ہی کیا سکتے ہیں، جہاں پتنگ اڑانے والا گرفتار کر لیا جائے اور بلا لائسنس قانون توڑنے والے موٹر سائیکل سوار موت کے کنووں کی طرح دندناتے پھریں، وہاں پولیس صرف خوشیاں منانے والوں کی ہی گرفتاریاں ڈال سکتی ہے۔سڑکوں پر دندناتے یہ موٹرسائیکل سوار پُراسرار بندے نہیں، وہ بازاری پرولتاریہ (Lumpen Prolitariot) ہے جو انقلاب ا ور تبدیلی کا سبب نہیں بنتے بلکہ ایسے طبقات انقلاب اور تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ میری خادمِ اعلیٰ سے درخواست ہے کہ آپ فیلٹ ہیٹ اور کوٹ اتار کر عام لوگوں جیسے کپڑوں میں اپنا حلیہ بدل کر لاہور کی مختلف شاہراہوں، سڑکوں اور گلیوں میں آئیں جائیں تو معلوم ہوگا کہ کس بھائو بکتی ہے۔ پھر پتا چلے گا کہ گورننس ہے بھی کہ نہیں۔ گورننس یا گڈگورننس تو دُور کی بات ہے۔