ہماری جامعات میں تحقیقی کانفرنسز(علمی مجالس)کی روایت جتنی تیزی سےبڑھ رہی تحقیق اتنی تیزی سےروبہ زوال ہے۔آئےروزکسی نہ کسی کانفرنس کاپتہ چلتارہتاہےلیکن عملی مشاہدہ یہ ہے کہ ان کانفرنسزکاامپیکٹ فیکٹرنہ ہونےکےبرابرہے۔ ایچ۔ای۔سی کاکیاگلاکریں کہ اس کی ناقص کارکردگی پرتوبجائےخودایک کمیشن تشکیل دینےکی ضرورت ہے۔ اکثر دیکھاگیاہےکہ ان کانفرنسزمیں جامعات کےاہم عہدوں پرفائزنمایاں ناموں کومحض اس لیے بلایاجاتاہےکہ کسی فیشن شوکی طرح اس کانفرنس کو کامیاب کیاجائے۔ ان بلائےگئےمحققین میں سےاکثر کی گفتگوان حضرات کےلیے توبڑی مفیدہوتی ہےجوانہیں پہلی بارسن رہےہوں لیکن ایک دوبارسننےوالوں کےلیے ان کی گفتگو میں کوئی نئی بات نہیں ہوتی۔ کانفرنس کاموضوع خواہ کچھ ہومگران محققین کی گفتگوہمیشہ ان کےعلمی مدارمیں ہی گھومتی رہتی ہے۔ اس سےبڑی بدمزاقی یہ کہ ایک ایسے شخص کوجس کااختصاص عربی ادب پرہوتاہےاس سےفقہی حوالےسےمقالہ پڑھوایاجارہاہوتاہے۔ دوسری بات یہ کہ ہوناتویہ چاہیےکہ اگرکسی مخصوص موضوع پر کانفرنس منعقد کی جارہی ہے تواس موضوع کےحوالےسے قدیم وجدیدفکرکےحامل طبقے کوایک دوسرےکےسامنےبٹھایاجائے اوراپنااپنانقطہ نظرپیش کرنےکاموقع دیاجائے۔ اس حوالےسےاگرکئی نشستیں درکارہوں توان کااہتمام کیاجائے۔ لیکن عام طورپرایک ہی طرح کے نقطہ نظرکےحامل محقق کی گفتگوسننےکوملتی ہے۔ تیسری بات یہ کہ ان کانفرنسزمیں زیادہ ترسوال وجواب کی نوبت نہیں آتی اور یک رخی گفتگوسےاکثرسننےوالوں کےلیےیہ محض جمعہ کاخطبہ جیساہی ایک اجتماع بن جاتاہے۔ ان کانفرنسزمیں لاکھوں روپےخرچ ہوجاتے ہیں مگرحاصل وصول کچھ نہیں۔ نہ ریاست اورسماج کوان مجالس سےکوئی فائدہ پہنچتاہے اورنہ ہی کسی فردکی زندگی میں ان سےکوئی تبدیلی آتی ہے۔ گویانہ ان کااجتماعی فائدہ ہے اورنہ انفرادی۔ ہاں! البتہ اتناضرورہےکہ بعض حضرات کوان کےذریعےعلمی عیاشی ضرورمیسرآجاتی ہے اوران کی سی۔وی کی ضخامت ان مجالس میں شرکت کرکرکےضروربڑھ جاتی ہےجوبعدازاں ان کےعہدوں اورترقی میں اضافےکاباعث بھی بنتی ہے۔
اب آئیےان علمی مجالس کی اصل غرض وغایت اوراس کاتاریخی جائزہ لیتے ہیں۔
اسلام میں ان کانفرنسزکی روایت بہت پرانی ہے۔ چناں چہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اوران کےبعد خلفائے راشدین کےدورمیں پیش آمدہ مسائل پرعلمی مجالس منعقدہوتی تھیں بلکہ ان میں سےاکثرمیں باہمی گفت وشنیداوردلائل کےنتیجے میں ایک فریق دوسرےفریق کےنقطہ نظرکوقبول بھی کرتاتھا۔ فقہ حنفی کی تدوین میں بھی ہمیں ان علمی مجالس کی اثرپزیری نظرآتی ہے کہ جہاں چالیس سےزائدفقہاء کی موجودگی میں امام ابوحنیفہ سےان کےشاگرددلائل کی بنیادپرکسی مسئلہ بابت اختلاف کرتےتھے اوران کےاختلاف کوبھی امام ابوحنیفہ کی رائےکےساتھ باقاعدہ تحریرکیاجاتاتھا۔ پھرکوفہ،بصرہ اورحجاز کے علمی مکاتب کےذریعے پیش آمدہ مسائل پرعلمی اختلافات کودلائل کےذریعہ ثابت کرنےکی کوشش کی جاتی رہی۔ بعدازاں اگرچہ یہ عمل بوجوہ محدودہوتاچلاگیامگرختم کبھی نہیں ہوا۔ تاہم اس کی اثرپذیری حتمیت اورتعصب پرمبنی رویے کےسبب ختم ہوتی چلی گئی۔
یورپ میں ان علمی کانفرنسزکاانعقادہمیں سولہویں/سترہویں صدی میں ملتاہے۔ اس سےقبل یورپ اس علمی اجتماعیت سےبےخبرتھا۔ یورپ نےان کانفرنسزکی بنیاد پرصنعتی انقلاب برپاکیا۔ سائنسی ترقی میں نئےآئیڈیازاورنئی تھیوریزکےذریعےبرابراضافہ ہوتاچلاگیا۔ اکثرکانفرنسزکئی کئی سالوں سےتسلسل کےساتھ منعقدہورہی ہیں۔ اب اس کادائرہ محض پیورسائنسزتک ہی محدودنہیں رہابلکہ سوشل سائنسزپربھی علمی کانفرنسزمنعقدکی جانےلگی ہیں۔ ان کانفرنسز میں متعلقہ موضوع کےماہرین کواپنی تحقیق پیش کرنےکی دعوت دی جاتی ہے۔پھراس تحقیق پرنہ صرف جرح ہوتی ہےبلکہ اس محقق کواپنی رائےکوثابت کرنےکےلیےپوراوقت دیاجاتاہے۔ اس نوعیت کی پیورسائنسز کی کانفرنسزمیں نیوٹن اورآئن سٹائن (جن کوسائنسی حوالےسےترقی پذیرممالک کےلوگ بتوں کی طرح پوجتے ہیں) کی تھیوریزپراتنی جرح ہوچکی ہےکہ ان پلندوں سے کئی المایاں بھرجائیں۔ پھرسب سےاہم چیزیہ ہےکہ یہ کانفرنسزاکثروہاں کی جامعات میں قائم تھنک ٹینکس منعقد کرواتےہیں جن کی سفارشات کونہ صرف ریاستی سطح پرقبول کیاجاتاہے بلکہ ان سفارشات پرمناسب قانون سازی بھی کی جاتی ہے۔ تاہم یہ کہےبغیرچارہ نہیں کہ یورپ میں بھی اب یہ کانفرنسزبتدریج عمومیت کاشکارہوتی جارہی ہیں۔ تاہم اب بھی ان کی صورت حال ہم سےبہت بہترہے۔
ضرورت ہے کہ ان تحقیقی کانفرنسوں کی اصل روح کی جانب واپس لوٹاجائے اورپہلےمرحلےمیں سائنس وسماج کےپیش آمدہ مسائل پراسلامی نقطہ نظرسےمکالمہ اورباہمی تبادلہ خیال کی روایت کوفروغ دیاجائے۔ فی الوقت اگرہم ایک دوسرے کی رائے کااحترام کرناسیکھ جائیں تواس منزل کے بعدکےمراحل طےکرنےکی امیدکی جاسکتی ہے۔
نوٹ: اس پوسٹ سےکسی کی دل شکنی مقصود نہیں۔ یقیناآپ کواختلاف کاحق حاصل ہے۔