آزادی کے بعد مسلمان ہمیشہ قیادت کے بحران کا شکار رہے ہیں ۔قدآور لیڈر تو بہت ہوئے مگر قومی سطح پرکوئی مسلمانوں کی رہبر ی نہیں کرسکا ۔اسکی بڑی وجہ یہ رہی کہ دانشور طبقہ تقسیم ہندکے بعدپاکستان منتقل ہوگیا اور ہندوستانی سیاست میں صرف وہی افراد متحرک رہے جو کانگریس کی وفاداری کی بنیاد پر پاکستان نہیں جاسکے ۔آزادی کے فورا بعد کوئی ایسا نمائندہ چہرہ نہیں تھا جو قومی سطح پر انتخاب میں کامیاب ہوکرمسلمانوں کی قیادت کا بیڑہ اٹھانے کا حوصلہ رکھتا ہو۔مولانا ابوالکلام آزاد کی علمی حیثیت اپنی جگہ مگر وہ تنہا بوڑھی جان اس خلا کو پر نہ کرسکے اس خلا کو پر کرنے کے لیے شخصیت سے زیادہ ایک جماعت کی ضرورت تھی ۔آزادی کے بعد ہندوستانی سیاست کا ظاہر و باطن یکساں نہیں رہا ۔مسلمانوں کی پسماندگی ختم کرنے کے لئے وعدے تو بہت کئے گئے مگر کبھی ان وعد وں پر سنجیدگی سے عمل نہیں کیا گیا ۔ کہیں نہ کہیں ہر سیاسی جماعت کے دل میں یہ بات گھر کر گئی تھی کہ آخر مسلمان پاکستان کی شکل میں اپنا حق لینے کے بعد بھی ہندوستان میں رہ کر مزید حق طلبی کی جرأت کس بنیاد پرکررہے ہیں ؟۔اسی فکر نے سیاسی جماعتوں کو مسلمانوں کے سیاسی استحصال پر اکسایا اور پھر سیاسی دوغلے پن نے ملک کی سیاست کو زہر آلود بنادیا ۔اس سیاسی شعبدہ بازی اور نفاق پروری نے ہر محاذ پر مسلمانوں کو انہی کے ذریعہ خوب چھلا اور ٹھگا۔مسلمان بھی اپنوں کے دام فریب میں الجھ کر خوش آئند دھوکوں کی بھینٹ چڑھ گئے اور آج تک چڑھ رہے ہیں۔ہر سیاسی جماعت میں مسلمانوں کو سیاسی نمائندگی ضرور دی گئی مگر اس نمائندگی کا مقصد مسلم ووٹوں کا حصول اور سیاسی غلامی کا
فروغ تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ آہستہ آہستہ مسلمان ہر سیاسی جماعت میں یا تو دکھاوے کے لئے رکھے گئے یا پھر پارٹی کے وفادار غلام بن کر ملت کو سیاسی استحصال کے کنویں میں ڈھکیلتے رہے۔ یہ استحصال آج بھی اسی طرح جاری ہے اور ختم ہونے کی امید نظر نہیں آتی ۔کیونکہ کسی کے پاس مسلمانوں کی پسماندگی دوکرنے کا کوئی لائحۂ عمل نہیں ہے ۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ وہ مسلم تنظیمیں جو ہر محاذ پر مسلمانوں کی فلاح و ترقی کے لئے کوشاں ہیں وہ بھی اس محاذ پر ناکام نظر آتی ہیں ۔بے گناہ مسلم نوجوانوں کی رہائی ،فساد زدگان کی با ز آباد کاری ،اانصاف کے لئے قانونی لڑائی لڑنا اور دیگر مسائل کو سلجھانے میں مختلف مسلم تنظیمیں پوری طاقت کے ساتھ میدان عمل میں نظر آتی ہیں مگر ان تنظیموں کے پاس کوئی ایسا چہرہ نہیں ہے جو قومی قیادت کا چہرہ بن کر ابھر سکے ۔ممکن ہے ان تنظیموں کے لائحۂ عمل میں قیادت کی کمی کو پورا کرنا شامل نہ رہاہو ۔اگر ایسا ہے تو پھر ان تنظیموں کے سربراہوں کو سیاسی پینترہ بازیوں اور سر پھٹول سے بھی پرہیز کرنا چاہئے ۔یہ بھی ایک المیہ ہے کہ تمام مسلم تنظیمیں صرف مولویوں کے ہاتھوں میں ہیں ۔اب ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ملت کی قیادت کا بیڑہ کوئی مولوی نہیں اٹھا سکتا کیونکہ اس میدان میں چرب زبانی ،سیاسی بصیرت ،قانونی معاملات کی سمجھ ،قیادت کی صلاحیتیں اوربارعب شخصیت کا ہونا لازمی ہے ۔تسلیم کرنا چاہئے کہ ہمارے علماء اس میدان کے شہسوار نہیں ہیں۔انہیں چاہئے کہ وہ ایسے لوگوں کی ذہنی تربیت میں ضرور حصہ لیں ،انکی سرپرستی کریں مگر ملت کی قیادت کا بھوت کسی وظیفہ کا ورد کرکے اتار پھینکیں ۔
مسلمانوں کی قومی تنظیموں کو ایک بارضرور غورکرنا چاہئے کہ آخر وہ ہر محاذ پر کامیاب ہوتے ہوئے بھی اس میدان میں ناکام کیوں ہیں ؟آخر اتنی امداد اور عوامی مشکلات کو حل کرنے کے باوجود عوام انکے کہنے پر عمل کیوں نہیں کرتے ہیں؟کیوں انکے کہنے پر متحد ہوکر ایک جگہ ووٹ نہیں دیے جاتے ؟کیا وجہ رہی کہ وہ آج تک مسلمانوں کو ایک محاذ پر لانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہیں ؟ کسی عام اجلاس میں مولویں کا اکٹھا ہوجانا اس بات کی قطعی دلیل نہیں ہے کہ قوم بھی ایک محاذ پر اکٹھا ہوسکتی ہے ۔غور کرنا ہوگا کہ آخر ہم سیاسی سطح پر ملت کا اعتماد حاصل کرنے میں کن غلط پالیسیوں کی بنیاد پر ناکام رہے ہیں ؟۔بند کمروں کی سیاست اور سڑک کی سیاست میں زمین و آسمان کے جتنا فرق ہے ۔ہماری تمام تنظیموں کا لائحۂ عمل بند کمروں میں بیٹھ کر بغیر کسی سروے کے ترتیب دیا جاتاہے ۔کتنی ایسی تنظیمیں ہیں جو مسلم پسماندہ علاقوں میں جاکر انکے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتی ہیں ۔کتنی تنظیموں نے ایسے علاقوں میں جاکر تعلیمی ،معاشی اور سیاسی پسماندگی کی وجوہات کا سروے کیاہے ۔کسی تنظیم نے کبھی کسی سروے کی رپوٹ کو عوامی نہیں کیا اور کسی تنظیم کی ویب سائٹ پر ایسا کوئی سروے موجود بھی نہیں ہے ۔اگر ہمارے منہ بولے قائد حضرات ایسے علاقوں میں نہیں جاسکتے یا نہیں جانا چاہتے ہیں تو وہ ملت کی قیادت کا رونا مت رویا کریں۔اگر ہمارے علماء ایسے پسماندہ علاقوں میں جانے سے پرہیز کرتے ہیں تو پھران علاقوں کے مسلمان انکے کہنے پر اپنے علاقائی لیڈر کے خلاف جاکر کس توقع پر حق رائے دہی کا استعمال کرنے کی جرأت کریں۔ایسا کرنا انکے لئے کتنا نقصان دہ ثابت ہوسکتاہے اسکا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے ۔
تعجب خیز بات یہ ہے کہ موجودہ اسمبلی انتخاب میں بہوجن سماج پارٹی نے تقریبا سو مسلم امیداوروں کو ٹکٹ تقسیم کئے ہیں۔یہ سخاوت اور رحم و کرم قابل تعریف نہیں قابل غور بھی ہے۔گزشتہ انتخاب میں اپنی ناکامی کا ٹھیکرا مسلمانوں کے سرپھوڑنے کے بعد اتنے امیداروں کو ٹکٹ دینا مسلمانوں کی طاقت کو تسلیم کرنے کا کھلا اعلان ہے۔پہلی بار کسی سیاسی جماعت نے مسلمانوں کی اہمیت اور طاقت کو تسلیم کیاہے۔مگر قابل افسوس یہ ہے کہ ان سو میں ایک بھی ایسا نمائندہ نہیں ہے جو قومی سطح پر متعارف ہو یا انتخاب میں کامیابی کے بات ملت کی نمائندگی کی صلاحیت رکھتا ہو ۔مسلمانوں کو سوچنا ہوگا کہ صرف مسلم امیداروں کو ٹکٹ دیکر اپنی غلامی کا سبق سکھانا انکے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کرنے جیسا تو نہیں ہے ۔یہ کھلواڑ اس وقت تک ہوتا رہیگا جب تک مسلمان ایک قیادت کے پرچم تلے جمع نہیں ہونگے ۔انہیں سمجھنا ہوگا کہ یہ سو امیدوار انکی قسمت کا نوشتہ تبدیل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔کامیابی کے بعد انکے گلے میں بھی غلامی کا طوق ہوگا اور وہ ہر حکم پر فقط دم ہلاتے نظر آئیں گے۔
بی جے پی کے ترجمان شاہنواز حسین کا یہ کہنا کہ اترپردیش میں کسی مسلمان کو اس لئے ٹکٹ نہیں دیا گیاکہ پارٹی کارکنان میں ایسے افراد نہیں ہیں جو یوپی انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے کی حیثیت رکھتے ہوں،بی جے پی کی ذہنیت اور پارٹی میں مسلمانوں کی حیثیت کو ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے۔بی جے پی نہیں چاہتی کہ کوئی مسلمان قومی سطح پر مسلمانوں کا نمائندہ بن کر انکی جماعت میں داخل ہو ۔بی جے پی میں شاہنواز حسین جیسے مسلمانوں کی کمی نہیں ہے جو پارٹی کی خوش آمد میں مسلمانوں کے مفادات کو کسی بھی قیمت پر نیلام کرسکتے ہیں۔حیرت ہوتی ہے کہ جس اترپردیش میں مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے ،ہر پارٹی میں کامیاب مسلم امیداور بھی موجود ہیں ۔ایک پارٹی سو امیدواروں کو ٹکٹ بھی دے رہی ہے اور بی جے پی کے مسلم قومی ترجمان بیان دے رہے ہیں کہ انکی پارٹی میں کوئی ایسا امیدوار نہیں ہے جو کامیاب ہونے کا دم خم رکھتا ہو۔آیا اب بھی ہم آرایس ایس کے ایجنڈے کو سمجھنے میں ناکام ہیں ۔اگر جان بوجھ کر اندھے بہرے اور گونگے بنے ہوئے ہیں تو اس ملت کا اللہ ہی مالک ہے ۔آخر ہماری تنظیمیں آرایس ایس جیسی تنظیموں کی برائی اور مذمت کرنے کے علاوہ مزید کیا کچھ کرتی ہیں ۔مذمت کا وظیفہ پڑھنے کے ساتھ انہیں ایسی تنظیموں کی ترقی اور کامیابی سے کچھ سبق لینا بھی ضروری ہے ۔
موجودہ وقت میں مسلمانوں کو اپنی سیاسی حیثیت کا اندازہ کرنا ہوگا تاکہ وہ اپنی سیاسی حیثیت منوانے کی جد و جہد کرسکیں ۔جومسلم سیاسی جماعتیں اترپردیش میں اور علاقائی سطح پر فعال ہیں وہ آج تک ملکی سطح پر اپنی حیثیت منوانے میں ناکام رہی ہیں ۔زیادہ تر پارٹیاں الیکشن کے دنوں میں نظر آتی ہیں اور ہا ئو ہو کرکے حاشیہ سے غائب ہوجاتی ہیں اور جو امیدوار کامیاب ہوتے ہیں انکی بنیاد پر اپنے سیاسی مفاد حاصل کرنے میں لگ جاتی ہیں ۔مسلم سیاسی جماعتوں کو یہ سمجھنا ہوگاکہ ہندوستان کی روح سیکولر نظام سے وابستہ ہے ۔اگر انہیں قومی سطح پر کامیابی کا پرچم لہرانا ہے تو صرف مسلمانوں کی بنیاد پر کامیابی نہیں ملے گی ۔فقط مسلمانوں کی بات کرنا فرقہ پرستی کو جنم دینے کے مترادف ہے ۔مسلمانوں کے مسائل کو ترجیح دینا اور صرف مسلمانوں کے مسائل کی بات کرنے میں بڑا بنیادی فرق ہے ۔اس فرق کو سمجھتے ہوئے سیاست کے اندھے کنویں میں کودنا روشنی کی نوید ثابت ہوسکتاہے۔
ہر انتخاب سے پہلے مسلمانوں میں قیادت کے بحران کے مسائل پر بحث ہوتی ہے مگر انتخابات کے بعد ہمارے تجزیہ نگار اور سیاسی بصیرت رکھنے والے سبھی اسکالرزکہیں غائب ہوجاتے ہیں ۔اگر انکے پاس ملی قیادت کا کوئی لائحۂ عمل ہے تو اس لائحۂ عمل کو زیر بحث کیوں نہیں لایا جاتا تاکہ اس کا نفاذ ممکن ہو۔ہمارا کام صرف سوالات قائم کرنا نہیں ہے ان سوالوں کے جواب تلاش کرنا بھی ہے ۔اگر تمام تجزیہ نگار اور اسکالرز مل کر ملی قیادت کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کریں تو کامیابی کے امکانات روشن ہیں ۔ہمیں تنظیموں اور علماء کرام کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا اور ایسے شخص کا انتخاب کرنا ہوگا جو ملت کی نمائندگی کرنے کی حیرت انگیز صلاحیت رکھتا ہو ۔