دنیا میں کسی بھی تحریک کے مستند اور قابل اعتبارہونے کے لیے اس تحریک کی اپنے اکابرین کے فکر و عمل سے وابستگی دیکھی جاتی ہے- جب کسی مذہبی تحریک کی بات ہو رہی ہو تو اس بات کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے- اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضور پُر نورؑ جب اپنا فکر معاشرہ میں پیش کرتے ہیں تو واضح انداز میں فرماتے ہیں کہ میں بنی اسرایئل کے انبیاء علیہم السلام کے سلسلہ کی ایک کڑی ہوں-اس اعلان کے بعد آپؑ انہیں انبیاء کے فکر و عمل کی وراثت کا حق ادا کرتے ہوئےدور کے ظالمانہ نظاموں کی بیخ کنی کے لیے عملی جدوجہد شروع کرتے ہیں اور جماعت صحابہ رضوان اللہ اجمعین کے ساتھ مل کر اول پورے خطہ عرب کو انقلاب سے روشناس کراتے ہیں اور دوم اپنی اسی جماعت کو بین الاقوامی انقلاب کے اصول و ضوابط فراہم کرتے ہیں- نبیؑ کے فکر کےسچے ورثاء نے اس ذمہ داری کو بطریق احسن نبھایا اور انسانیت کو ایسا عظیم انقلاب فراہم کیا کہ بارہ سو سال تک دنیا اس سے مستفید ہوتی رہی-
شومئی قسمت کہ 17ویں صدی میں حالات نے پلٹا کھایا تو اپنوں کی نادانیاں اور غیروں کی کارستانیاں اس حد تک بڑھ گیئں کہ دیگر اقوام بالعموم اور ہند وستانی معاشرہ بالخصوص اس شجر سایہ دار (صالح نظام )سےمحروم ہو گیا-اس پر آشوب دور میں جب نظام ہمارے ہاتھوں سے سرک گیا تو ضرورت اس امر کی تھی کہ فکر کو محفوظ کیا جائے- اس کا ر عظیم کے لیے قدرت نے جس ہستی کا انتخاب کیا اسے تاریخ شاہ ولی اللہؒ کے نام سے جانتی ہے-شاہ صاحبؒ نے جب ادراک کر لیا کہ عہد رفتہ کی عظمت کی بحالی صرف اسی میں ہے کہ موجودہ فرسودہ نظام کی بنیاد وں کو جڑسے اکھاڑ کر حالات کے تقاضوں کے مطا بق نئے نظام کی بنیاد رکھی جائے تو اس مقصد کے حصول کے لیے رجال کار تیار کرنا شروع کیے-ان ہی ہم فکر و ہم سفر لوگوں کی جماعت کا نام فکر ولی اللؐہی پڑا-شاہ صاحب ؒ کے فکر وعمل کی سچی وارث یہی جماعت کبھی معرکہ بالا کوٹ میں جانوں کے نذرانے پیش کرتی ہے توکبھی جنگ آزادی 1857ء لڑتی نظر آتی ہے -کبھی 1866ءمیں اپنی اعلیٰ فکر کے تحفظ کے لیے دیو بند کی چادر کا سہارا لیتی ہے تو کبھی تحریک ریشمی رومال سے انگریز کی نیندیں حرام کرتی ہے-
فکر ولی اللہی کی مخلصانہ کوششوں سے جب انگریز سامراج اس خطے سے نکلا تو جہاں اپنے نظام کے چلانے کے رسمی تعلیمی اداروں کے تیار شدہ کل پرزے چھوڑے وہیں مذہب کے نام پہ ایسے گروہ پیدا کیے جو دودھ کے شوقین مجنوں کی طرح بنا قربانیوں کے اس کامیابی کا تاج اپنے سر سجا نے کے شوق میں رائج نظام کے گندے تالاب میں کود پڑے-ان ہی مذہبی ٹھیکیداروں نے جہاد کے نام پہ قوم کو دہشت گردی کی آگ میں دھکیل کے خوب انسانیت کی تذلیل کی- قوم کو جہاد (بقول مذکورہ ہستیوں کے) کے نتیجہ میں جنت کی خوشخبری اور خود سامری کے ہر بچھڑے (را ئج نظام )کے پُجاری، واہ! کیا خوب خدمت اسلام اورفکر ِانسانیت ہے۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کے خود کو شیخ الہندؒ کے وارث بھی گردانتے ہیں-اسی شوق میں دیو بند کی یاترا اور صد سالہ تقریبات منا کربھی اپنی دیو بند یت کا ثبوت دیتے نظر آتے ہیں- وہ شیخ الہندؒ جنہوں نے عدم تشدد کی حکمت عملی کو آج کے دور کی تحریکات کی کامیابی کے لیے لازمی قرار دیا-وہ شیخ الہندؒ جن کی سیاسی بصیرت کا زمانہ معترف ہے-وہ شیخ الہندؒ جنہوں نےبستر پہ مرنے کی بجائے انگریز کے ظالمانہ نظام کے خلاف لڑتے ہوئے جان دینے کی تمنا دل میں لیے داعی اجل کو لبیک کہا-
آج یہ حضرات اسی نظام کی بقا اور حفاظت کے لیے میدان عمل میں نظر آتے ہیں- اسلام سے زیادہ اسلام آباد کی فکر لیےشب و روز ایک کیے ہیں-ان کی اس حالت کو د یکھ کے مجبورا کہنا پڑتا ہے کہ-
میراث میں آئی ہے انہیں مسندِ ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
کیونکہ یہ اس د یو بند یت کا راگ الاپتے ہیں جس کے بارے میں مہتمم دیو بند فرماتے ہیں کہ “درس ِ نظامی پڑھنے پڑھانے کا نام دیو بند یت نہیں ہے ،بلکہ امام شاہ ولی اللہ ؒ کے فکر کے عملی نظام کے وارث ہونے کا نام دیو بند یت ہے-“آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس حقیقت کو پہچانیں کہ شیخ الہندؒ کی اصلی فکر اوراس فکرکے سچے وارث کون ہیں ؟ اورشیخ الہندؒ اور دیو بند کے نام پہ اپنے نفس اور خواہشات کے اسیر بنے ہوئے کون لوگ ہیں؟ اللہ رب العزت ہمیں سچی جماعت کی پہچان عطا فرمائے اور تا زیست اکابرین کے مشن پہ اخلاص و للہیت سے کار بند رہنے کی توفیق عطا فرمائے-آمین