ہرحکومت زرعی شعبے کوملکی قومی معیشت کی ’’ریڑھ کی ہڈی‘‘ قراردیتی ہے مگراس نعرے پراتنا ہی عمل کیا جاتا ہے جتنا کہ کسی کو ’’ہڈی‘‘ سمجھ کرکیاجاتا ہے!یہی وجہ ہے کہ حکومت خواہ اپنی جماعت کی ہویا مخالف جماعت کی۔کاشت کار اس سے شاکی رہے ہیں۔
اس کی ایک مثال اُس وقت بھی سامنے آئی تھی جب صوبائی وزیر اورحال ایم پی اے میاں مناظر حسین رانجھا نے فلور پر کاشتکاروں کے حق میں خطاب کیا۔ انہیں زرعی پالیسی کے کئی نکات سے اختلاف تھا۔ اُن کے خیال میں کاشتکاروں کے ساتھ ناانصافی ہورہی تھی۔ کئی طرح کے ٹیکسز اور زرعی محاصل کی مسلسل گرانی ان پربوجھ ہے،اس کے باوجود کاشت کاروں کوصنعت کاروں جیسا ریلیف حاصل نہیں۔ مناظر رانجھا نے پنجاب ایگری کلچر انکم ٹیکس ایکٹ1997ء میںکئی ترامیم کی تجویز پیش کی ہے۔
انہوںنے کہا کہ ’’ زرعی انکم ٹیکس زرعی آمدنی کا تین سے چار فیصد ہونا چاہیے۔ ہر فصل کی انشورنش کی جائے۔ پانچ لاکھ روپے سے کم آمدنی پر زرعی انکم ٹیکس کی چھوٹ اور ساڑھے بارہ ایکڑ پر آبپاشی رقبے اور25ایکڑ زمین پر زرعی انکم ٹیکس ختم کیا جائے۔ اس سے زیادہ رقبہ اور چھ یا چھ ایکڑ سے زائد زیرآبپاشی آم اور کینو کے باغات رکھنے والے کو انکم ٹیکس ریڑن جمع کرانے کا پابند بنایا جائے۔ بارہ ایکڑ تک باغات رکھنے والے کاشتکار بھی زرعی انکم ٹیکس سے مستثنیٰ ہونے چاہئیں۔ اس سلسلے میں پنجاب حکومت ہر تحصیل میں نائب تحصیلدار اور پٹواریوں کے دفاتر میں ایک ڈیسک قائم کرے۔ کاشتکاروں کو ریلیف دینے کے لئے قوانین اور ان کی روشنی میں کوئی میکنزم بنایا جائے۔
ان کی تحریک پر پنجاب حکومت نے زرعی پالیسیوں اور قوانین پر نظر ثانی کے لئے محمد افضل گل ایم پی اے کی چیئرمین شپ میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ سابق صوبائی وزیر اور موجودہ چوہدری محمد اقبال،مناظرحسین رانجھا، افتخار احمد، چوہدری فضل الرحمن، سرداربہادر خان،جاوید علائو الدین ساجد،ملک فیاض احمد اعوان، رانا چودھری محمد اقبال، سردار علی رضا خان دریشک، شوکت علی لالیکا، سید حسین جہانیاں گردیزی،سید عبدالعلیم اورملک محمد احمد خان اس کمیٹی میںشامل تھے۔کمیٹی نے پالیسیوں، ٹیکسوں اورقوانین پر غورکیا اور ان میں ردوبدل کے لئے تجاویزپیش کیں۔حسین جہانیاں گردیزی کی رائے تھی کہ’’زراعت ریڑھ کی ہڈی ہے مگر کاشتکاروں اور کسانوں کی اس ملک میں شنوائی نہیںہوتی۔ صنعتکاروں پر انکم ٹیکس ان کی خالص آمدنی پر نافذ ہے مگرکاشتکاروں پہ ٹیکس اپنی گراس انکم پر دے رہے ہیں جس میں ان کے تمام اخراجات بھی شامل ہیں۔
صنعتکاروں کی سیلف اسس منٹ میں نقصان بھی قبول کرلیا جاتا ہے مگر زرعی شعبے کو یہ سہولت حاصل نہیں۔ نقصان کی صورت میں کاشتکاروں کو زرعی انکم ٹیکس میں ریلیف نہیں ملتا۔ کاشتکار زرعی انکم ٹیکس کے ساتھ ودہولڈنگ ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں مگر صنعتکاروں ود ہولڈنگ ٹیکس اپنی سالانہ آمدنی میں ایڈجسٹ کرواسکتے ہیں۔ انہوںنے تمام زرعی محاصل پرجی ایس ٹی ختم کرنے کی تجویز پیش کی۔ شوکت علی لالیکا نے زرعی معاملات سے نمٹنے کے لئے نئے پیرامیٹرز تشکیل دینے کی تجویز پیش کی۔ انہوںنے کہا کہ زرعی انکم ٹیکس کوفوکس کیاجاناچاہیے کیونکہ60فیصد برآمدات کا تعلق اسی شعبے سے ہے۔ زراعت کو صنعت کادرجہ قرار دے کر یہ مقاصد حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ جاوید علائو الدین کے مطابق نجی کمپنیوں کی منافع خوری زرعی پالیسیوں کی ناکامی کا ثبوت ہیں۔ انہوں نے تمام زرعی زمینوں پرفکس زرعی ٹیکس کے نفاذ اور بیج، کھاد، کیڑے مار ادویات اور ٹریکٹروں پر سبسڈی دینے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ سرمایہ کاروں اورصنعت کاروں سے پانچ فیصد اورزرعی شعبے سے اٹھارہ فیصد مارک اپ وصول کیاجارہا ہے۔ بعض ارکان نے تجویز دی کہ پاسکو مڈل مین کو نکال کر کاشتکاروں سے براہ راست خریداری کیا کرے۔ اس سے قیمتوں میں استحکام پیداہوگا اور سرکاری سکیموں کا فائدہ براہ راست کاشتکاروں کو پہنچے گا۔ موجودہ صورت حال میں کاشت کار منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں اور اصل فائدہ پیسے والے اٹھالیتے ہیں۔
ارکان اسمبلی نے زرعی انکم ٹیکس کو فی ایکڑ کے حساب سے فکس کرنے کی تجویز دی۔ ملک محمد احمد خان نے لینڈ بیسڈ زرعی ٹیکس کی حمایت کی۔ انہوںنے 2002ء میں بننے والے رولز میں کئی خامیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے باعث کاشتکاروں کو ڈبل انکم ٹیکس اداکرنا پڑتا ہے۔ بعض ارکان نے زرعی شعبے کی ترقی کے لئے سبسڈی کو ہر زرعی پیکیج کا حصہ بنانے، مستقبل کے لئے ایک ٹھوس اور جامع زرعی پالیسی تشکیل دینے اور کم سے کم سپورٹ پرائس کے تعین میں صوبے کی مشاورت جیسے معاملات پر وفاق سے بات کرنے کابھی مطالبہ کیا۔ فوری طور پر مارکیٹ سپلائی سسٹم قائم کرنے،بھارت کی طرز پر سبسڈیز کے تعین اور سٹیک ہولڈروں، ماہرین تعلیم، ارکان اسمبلی ، کاشت کاروں اور ٹیکنو کریٹس پر مبنی ایک زرعی کمیشن کے لئے قیام کی بھی تجویز دی گئی۔ زرعی مارکیٹنگ سسٹم کو استحصالی شکنجے سے نکالنے اور اسے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے تبدیلیوں کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ کیڑے مار ادویات،کھاد اور دیگر مداخل پر جی ایس ٹی کو کسانوں پربوجھ قرار دیتے ہوئے ان ٹیکسوں کی فوری تنسیخ کے لئے وفاقی حکومت سے رابطہ کرنے کی تجویز بھی پیش کی گئی۔ ماضی میں کپاس اوردوسری فصلوں کے لئے علاقے مخصوص کئے جاتے رہے ہیں مگر گزشتہ چند سالوں میں اس پر عمل نہیں کیا جارہا جس سے کپاس، گنے اورگندم کی فصلیں متاثر ہورہی ہیں۔ اس پر سختی سے عمل درآمد کرنے اور ہر ضلع کی زمینی صلاحیت کا جائزہ لے کر فصلوں کی کاشت کے بارے میں رہنمائی کرنے کو بھی کہا گیا۔ اووربلنگ کرنے والوں نے زراعت کو بھی کہاں معاف کیا ہے۔ اسے وزارتی سطح پر حل کرنے کے لئے وفاقی حکومت سے رابطہ ناگزیر قرار دیا گیا ہے۔ بینکس کاشتکاروں کو قرضے تو مہیا کررہے ہیں مگر اس پر مارک اپ کی شرح سٹیٹ بینک کے قواعد وضوابط کے مطابق دس فیصد سے کم کی جائے۔ شوگرملوں کی جانب سے بروقت ادائیگیاں نہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے لئے نئے سخت قوانین بنائے جائیں اور انہیں بھاری جرمانے کئے جائیں۔ چوہدری محمد اقبال نے بھی زرعی انکم ٹیکس کے بارے میں کاشتکاروں کی بعض تجاویز سے اتفاق کیا۔
ارکان اسمبلی کا کہنا ہے کہ پانچ لاکھ سے کم آمدنی والے کاشتکاروں کو زرعی انکم ٹیکس سے استثنیٰ دیا جائے۔ کیڑے مار ادویات اورکھاد سمیت تمام زرعی مداخل پر انکم ٹیکس ظالمانہ ہے اورپنجاب حکومت اس کی تنسیخ کے لئے فوری طور پر وفاقی حکومت سے مذاکرات کرے۔ وفاقی وزارت خزانہ بینکوں کو پابند کرے کہ KIBORکی بنیاد پر بھی کاشتکاروں کو قرضے مہیا کرے۔ زرعی انکم ٹیکس کی اپیلوں کے فوری فیصلے کے لئے ہرضلع میں اپیلٹ کورٹس قائم کی جائیں،زرعی انکم ٹیکس کا تعلق ایف بی آر سے ختم کردیا جائے اور اس کو مکمل طورپر صوبائی انتظامیہ دیکھے۔ زرعی آمدنی کو ایف بی آر کے دائرہ کار میں شامل نہ کیا جائے۔
اس وقت زیر کاشت رقبے پر مختلف سطحوں سے زرعی انکم ٹیکس عائد ہے۔ بعض حلقے اس میں اضافے کی تجاویز پیش کررہے ہیں۔ کچھ عالمی ادارے بھی زرعی انکم ٹیکس میں اضافے کے خواہاں ہیں۔کچھ لوگ اس میں کئی گنا اضافہ چاہتے ہیں مگر حکومت نے ایسی کوئی تجویز منظور نہیں کی۔ اس سلسلے میں مختلف تخمینے لگائے گئے ہیں۔ساڑھے بارہ ایکڑ سے کم رقبے کے چھوٹے کاشتکار اس سے مستثنیٰ ہیں۔ ساڑھے بارہ ایکڑ سے پچیس ایکڑ تک کے کاشتکار ڈیڑھ سو روپے فی ایکڑ اور پچیس ایکڑ سے زائد رقبے کے حامل کاشتکاروں ڈھائی سو روپے فی ایکڑ زرعی انکم ٹیکس دے رہے ہیں۔ اس سے بڑے کاشت کاروں پر300 روپے فی ایکڑ اور غیر زیر کاشت باغات پرڈیڑھ سو روپے فی ایکڑ کے حساب سے ٹیکس عائد ہے۔ زرعی انکم ٹیکس کی شرح ڈیڑھ سو روپے سے تین سوروپے کرنے سے ایک ارب39کروڑ روپے اور ڈیڑھ سو روپے سے بڑھاکر پانچ سو روپے کرنے سے حکومت کی آمدنی میں دو ارب31کروڑ روپے کااضافہ ہوگا۔زرعی انکم ٹیکس ڈیڑھ سو روپے سے بڑھا کر سات سو روپے کرنے سے تین ارب17کروڑ، ڈیڑھ سو روپے کی جگہ1000روپے کردینے سے چار ارب بائیس کروڑ روپے اور بارہ سو روپے کردینے سے پانچ ارب روپے کی اضافی آمدنی ہوگی۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ بجٹ میں دوارب30کروڑ روپے کا تخمینہ لگایا گیا تھا لیکن مارچ2016ء تک اس سے آمدنی 92کروڑ روپے کے لگ بھگ رہی۔موجودہ صورتحال میں لینڈ بیسز پر یعنی رقبوں کی بنیاد پر زرعی انکم ٹیکس کا نفاذ ناممکن ہے۔ زرعی انکم ٹیکس کو فی ایکڑ کے حساب سے فکس نہیں کیا جاسکتا۔اسی طرح پچاس ایکڑ سے زائد رقبے کے حامل کاشتکار انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کے پابند ہیں۔ فی ایکڑ آمدنی کا تخمینہ لگانا ممکن نہیں اور نہ ہی اس کی بنیاد پرکوئی قانون بنایا جاسکتا ہے۔ جب قانون ہی نہیں بن سکتا تو ٹیرف کا تعین بھی نہیں کیا جاسکتا۔