2018ء کے انتخابات کے لیے ہر سیاسی جماعتوں نے انتخابی مہم کا اپنے طور پر آغاز کر دیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے 2013ء کے انتخابات کے بع وفاقی حکومت کو مسلسل مشکل وقت دیا ہے۔ پی ٹی آئی نے احتجاجی سیاست کے ذریعے پہلے دو سالوں میں یہ یقین کر رکھا تھا کہ وہ مسلم لیگ (ن) کو کسی نہ کسی طرح اقتدار سے باہر کرنے میں کامیاب ہوجائے گی جس میں وہ کامیاب نہیں ہوسکی۔ چند ہفتوں سے اب پی ٹی آئی کے قائد جناب عمران خان کو یقین ہوگیا ہے کہ کوئی ’’غیبی طاقت‘‘ اُن کے احتجاجی مظاہروں کو ’’جِلا بخشتے‘‘ میں ساتھ نہیں دے سکے گی اور اب یہ فریضہ اپنے ہی بازوئوں کے ذریعے سرانجام دینا ہے۔ اسی لیے پاناما لیکس کو اب انہوں نے عدالت عظمیٰ کے حوالے کرکے اپنی انتخابی سیاست کو شدید احتجاجی سیاست میں ڈھال دیا ہے۔ عمران خان کو اب یہ بھی یقین ہوگیا ہے کہ اب اپنے ہی بازوئوں سے مسلم لیگ (ن) کا مقابلہ کرنا ہے۔ اسی لیے ہم دیکھ رہے ہیں کہ اُن کا لب ولہجہ پہلے سے زیادہ ترش وتیز اور تلخ ہوگیا ہے۔ اور انہوں نے اب مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت اور میاں خاندان پر سخت لفظی حملے کرنا شروع ہوگئے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) اب مزید اعتماد کے ساتھ حکومت بھی کرتی نظر آرہی ہے اور انتخابی مہم میں بھرپور طریقے سے شامل بھی نظر آ رہی ہے۔ پنجاب اور وفاقی حکومت کی طرف سے اخباری اشتہارات میں اپنی کارکردگی کا مظاہرہ اُن کی انتخابی مہم کا سب سے بڑا Instrument ہے۔ سرکاری وسائل سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں کروڑوں روپے کی اشتہاری مہم درحقیقت اُن کی انتخابی مہم ہے۔ اس حوالے سے وہ صوبہ پنجاب اور وفاق کی طرف سے پراجیکٹس کو عوام کے سامنے پیش تو کررہی ہے، ساتھ ساتھ صوبہ خیبر پختونخوا میں وفاقی حکومت کے اقدامات کو بھی نمایاں طور پر پیش کررہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کا دعویٰ ہے کہ پاکستان 2018ء میں لوڈشیڈنگ سے باہر نکل آئے گا۔ سابق آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ اور نئے چیف کی تقرری کے عمل سے حکومت نے ایک حساس مرحلہ طے کیا ہے۔ میاں نوازشریف شروع شروع میں جنرل مشرف کیس اور ایک میڈیا ہائوس کے خلاف نبرد آزما ہوتے نظر آئے اور یوں انہوں نے درحقیقت پس دیوار قوت کے خلاف اختیارات واقتدار کی پراکسی لڑائی لڑی، اس میڈیا ہائوس کے حوالے سے متعدد خبریں تھیں کہ اس کو اہم سیاسی مراکز کی حمایت حاصل ہے۔ اس لڑائی میں پہلے سے موجود ایک بڑے میڈیا ہائوس کو سپورٹ کرکے انہوں نے کسی حد تک کامیابی حاصل کی اور اس نئے ابھرتے میڈیا ہائوس کو ٹیک آف کرنے سے پہلے ہی گرائونڈ کردیا۔ پاور پالیٹیکس میں یہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی ایک اہم کامیابی تھی۔ لیکن جنرل مشرف کیس میں اُن کو وہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی جس کے وہ خواہش مند تھے کیوںکہ یہ معاملہ ایک سابق آرمی چیف کا تھا۔ اس کے لیے مسلح افواج کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے پر تیار نہ تھیں، نہ ہی سیاسی شکست برداشت کرسکتی تھیں۔ جبکہ عمران خان کی احتجاجی سیاست کو انہوں نے بہت تدبر سے نمٹا، ردِعمل سے زیادہ غیرمحسوس انداز میں ڈیل کیا۔ نئے آرمی چیف کی تقرری کے بعد وزیراعظم زیادہ پُرجوش نظر آرہے ہیں اور انہوں نے اُن خدشات، خطرات، تجزیات اور خواہشات کو ناکام ثابت کردیا ہے جو یہاں پر ایک درمیانی مدت کی نام نہاد ’’اچھے لوگوں‘‘ کی حکومت کا تصور لیے پچھلے بیس برسوں سے متحرک ہیں۔ نئے آرمی چیف کی تقرری سے وہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ موجودہ منتخب سیاسی ڈھانچا اسی حالت میں برقرار رہے گا اور جو ہوگا اب 2018ء کے انتخابات کے گرد ہوگا، اس دوران انہوں نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ اُن کو اپنی جماعت پر مکمل گرفت حاصل ہے اور کوئی بھی اُن کی جماعت میں بغاوت برپا نہیں کرسکتا۔
متحدہ قومی موومنٹ اور اس کے بطن سے نکلنے والے دھڑے بھی انتخابی مہم میں پیش پیش ہیں۔ مصطفی کمال یقینا حیدر آباد اور بہاری ووٹرز کے اندر اپنے آپ کو فوکس کررہے ہیں کہ اُن کے حصے کا ’’انتخابی کیک‘‘ اُن کو مل جائے۔ دوسرے دونوں دھڑے لندن گروپ اورفاروق ستار زمین کے اوپر اگر اپنی آزادی کا اعلان کرتے تھکتے نہیں لیکن ’’زیرزمین‘‘ اُن کی باگیں لندن گروپ سے بندھی ہیں اور آئندہ انتخابات میں ان دونوں دھڑوں کی طاقت مصطفی کمال کی سرزمین پارٹی سے کہیں زیادہ مضبوط ہوگی۔
جمیعت علمائے اسلام (ف) پاور پالیٹکس میں سب سے زیادہ شاطر اندازِ سیاست رکھتی ہے۔ وہ اقتدار وحکومت کی سیاست میں 1988ء سے Engagement کی پالیسی پر کارفرما ہیں اور یہ ہی اُن کی کامیابی کا راز ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں جے یو آئی (ایف) عملاً اپوزیشن میں ہے۔ اور وفاق میں مسلم لیگ (ن) کی اتحادی، جے یو آئی (ایف) شروع دن سے پی ٹی آئی کے خلاف جس قدر نقاد ہے، اس کی یہ پالیسی اس کو مسلم لیگ (ن) کے مزید قریب ہونے میں مددگار ہے۔ مسلم لیگ (ن)، قومی سیاست میں جب پی ٹی آئی پر تنقید کرتی ہے تو اس حوالے سے وہ اس کی صوبہ خیبر پختونخوا میں کارکردگی کو نشانہ بناتی ہے لیکن سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) وفاقی حکومت کے تحت صوبہ خیبر پختونخوا میں جتنے بھی ترقیاتی پراجیکٹس بشمول پاور پراجیکٹس عمل پذیر ہیں، اس کا پہلا اور بڑا سیاسی فائدہ جمیعت علمائے اسلام (ف) ہی اٹھائے گی اور یوں جے یو آئی (ایف) وفاقی حکومت کی اتحادی ہونے کے ناتے اس منصوبوں کو اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنا رہی ہے۔ اور ہم دیکھیں گے کہ 2018ء کے انتخابات میں صوبہ خیبر پختونخوا میں جہاں حیران کن نتائج برآمد ہوں گے، وہیں سب سے دلچسپ بات یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس صوبے میں تمام سیاسی جماعتیں گرینڈ مخلوط حکومت بنائیں گی اور پی ٹی آئی ایک مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرنے پر مجبور ہوجائے گی۔ پی پی پی، شیرپائو، اے این پی، جماعت اسلامی، جے یوآئی (ایف) اور مسلم لیگ (ن) کی مخلوط حکومت پاکستانی سیاست کا ایک عجب حکومتی اتحاد ہوگا۔
جماعت اسلامی کے اسلامی انقلاب سے عوامی انقلاب کے سفر نے اس جماعت کو جس قدر سکیڑ کر رکھ دیا ہے، اس کا احساس اس کی اعلیٰ قیادت کو شاید کبھی نہ ہوسکے کیوںکہ وہ خود احتسابی کے لیے تیار ہی نہیں۔ اُن کے امیر جناب سراج الحق نے اپنے بینرز کو سبز سے سرخ کیا اور پھر ٹوپی بھی سرخ پہن لی، لیکن افسوس جماعت مزید مقبولیت کی بجائے سکڑنے میں تیزی سے سفر کررہی ہے۔ جماعت اسلامی کا المیہ اُن کا ملک، خطے اور عالمی سیاست کا مکمل غلط تجزیہ ہے جس کے بَل پر وہ سیاست اور سیاسی موقف اپنائے ہوئے ہے۔ اسی لیے اُن کے ووٹرز کی زیادہ تعداد مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف لے گئی۔ اور وہ اسلامی انقلاب برپا کرنے کا دعویٰ کرتے رہ گئے۔ جماعت اسلامی اپنے تئیں اسلامی کے ساتھ ساتھ عوامی ہونے کی بھرپور کوشش کررہی ہے کہ شاید وہ پاپولسٹ طرزِ سیاست کے زریعے حیران کن معجزے برپا کرنے میں کامیاب ہوجائے اور اس کے لیے مزدوروں، قلیوں اور اپنے آپ کو طاقت کے سرچشمے عوام سے قریب ہونے کا تاثر دے کر آئندہ انتخابات میں بہتر نتائج حاصل کرنے کے درپے ہے جوکہ ممکن نہیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی کا دعویٰ ہے کہ وہ زوالفقار علی بھٹو شہید کی پارٹی ہے، درحقیقت یہ اب محض دعویٰ ہی ہے۔ اور اس کا ادراک خود پارٹی کے قائد اعلیٰ جناب آصف علی زرداری کو ہے کہ پارٹی اب آصف علی زرداری کی حکرانی کی سیاست کے تحت چلائی جا رہی ہے۔ شان دار تاریخ اور Legacy کے حوالے سے پاکستان پیپلزپارٹی آج بھی سندھ کی طاقتور ترین پارٹی ہے۔ اور آئندہ انتخابات میں وہ سندھ میں 2013ء سے بہتر نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی۔ آصف علی زرداری حکمرانی کی سیاست اور اس کے تضادات کو خوب جان گئے ہیں اور وہ ان تضادات سے کھیلنا بھی جان گئے ہیں اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ غیر محسوس انداز میں 2018ء کی انتخابی تیاری عوامی جدوجہد کی بجائے حکمرانی کی سیاست کے تحت کررہے ہیں۔ خبریں ہیں کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں شیرپائو اور پنجاب میں متعدد پرانے لوگوں کو دوبارہ (پرانے لوگوں سے مراد نظریاتی نہیں بلکہ Electable لوگ ہیں) کو لاکر پارٹی کو 2013ء کے نتائج سے کہیں زیادہ، ہمارے آج کے تجزیہ نگاروں کی توقعات سے بھی زیادہ بہتر نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ 2018ء کے انتخابات کے بعد اُن لوگوں کا ’’اقتداری مستقبل‘‘ مشکوک ہے جو سر اٹھا کر چلنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں جناب آصف علی زرداری ہی سب سے زیادہ فرمانبردار لیڈر ثابت ہوسکتے ہیں۔ اسی لیے انہوں نے اپنی پوزیشن بہتر کرنے کے لیے واشنگٹن اور بعد میں پاکستان کے سیاسی مراکز میں تابع داری کی یقین دہانیاں کروانے کے انتظامات شروع کردئیے ہیں اور نوجوان بلاول کو ’’عوامی رابطوں کے کھیل‘‘ میں لگا دیا ہے۔ امکان ہے کہ 2018ء کے انتخابی نتائج اور ’’انتخابی انتظامات‘‘ میں سب سے زیادہ Beneficiary آصف علی زرداری ہی ہوں گے اور لوگ ایک مرتبہ پھر ورطہ ٔ حیرت میں رہ جائیں گے کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ جو لوگ حکمران اشرافیہ کے طبقات کی سیاست سے عوامی سیاست کے نتائج کی توقعات لگائے بیٹھے ہیں، اُن کی طفلانہ سوچ پر قہقہہ ہی لگایا جاسکتا ہے۔ اور ہاں، چودھری برادران اپنے حصے کے کیک کا انتظار کررہے ہیں جو اگر انتخابات سے پہلے نہ کٹا تو انتخابی نتائج کے بعد ضرور کٹے گا اور یہ کیک چودھری ظہور الٰہی روڈ لاہور پر چودھری برادران کو بڑے اعتماد کے ساتھ پہنچا دیا جائے گا۔