• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
ضرورت ھے — تحریر: ڈاکٹر وقار گلضرورت ھے — تحریر: ڈاکٹر وقار گلضرورت ھے — تحریر: ڈاکٹر وقار گلضرورت ھے — تحریر: ڈاکٹر وقار گل
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

ضرورت ھے — تحریر: ڈاکٹر وقار گل

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • ضرورت ھے — تحریر: ڈاکٹر وقار گل
مایوسی سے امید تک کا سفر — تحریر: ڈاکٹر ممتاز خان
فروری 26, 2017
پر اثر گفتگو کا سلیقہ — تحریر: قاسم علی شاہ
فروری 26, 2017
Show all

ضرورت ھے — تحریر: ڈاکٹر وقار گل

دھند اور شدید خنکی کا موسم شاید گزر چکا ھے۔ فروری کا مہینہ بھی تو ختم ھونے والا ھے۔ گھر کے صحن میں کھڑی اکلوتی نیم کے سبھی پتے جھڑ چکے ھیں جیسے سبھی ارمان اور احساسات اپنی موت آپ مر چکے ھوں ۔ مگر جب تک آخری سانس باقی ھے آگے ھی آگے خبر نہیں کہاں تک چلنے کا چارہ کرنا پڑے گا۔ زندگی کی مشکلات کیسے انسان کی کمر توڑ دیتی ھیں ِ ، اس کی سمجھ تبھی آتی ھے جب اپنی کمر دوھری ہونی شروع ہوتی ہے۔ چاند نے اک بار کہا تھا کہ تماشا دیکھنا ہر کسی کو اچھا لگتا ھے اور یہ ایک آسان کام بھی ہے مگر تماشا بننا بہت کٹھن ھے۔
آنکھیں موند لو تو زمانہ قیامت کی چال چل جاتا ھے اور اگر آنکھیں کھلی ھوں تو اک رات بھی گراں گزرتی ھے۔ جب میں نے اپنے پریتم کی گود میں سر رکھا تو جیسے سارے دکھ بھول گییٔ۔ سکھ کی نیند کے ہچکولے مجھے سماج کی ریت رواج سے بہت دور لے گیٔے مگر اس سے کچھ پل پہلے مری اکھیاں چھم چھم برسیں اور اس برکھا سے وہ تمام تلخیاں اور اذیتیں دھل گیٔں جن کی گرد میرے نینوں کو ستا رہی تھی۔ محبوب کی مسکان سبھی دکھوں پریشانیوں کو چھپانے کے لیے کافی ہوتی ھے۔
آج بسنت تھی مگر میں لاہور نہ گیٔی۔ کیا فایٔدہ؟ گر کویٔ اپنے ہی شہر میں پردیسی ہو جاے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ اپنے گھر میں ہے یا گھر سے باہر۔ وہاں سبھی سکھیوں سہیلیوں نے بسنتی رنگ کے لباس پہن کے بسنت مناییٔ ہو گی،لیکن نہ جانے کیوں یہ ساری خوشیاں میرے تن من میں آگ لگا دیتی ھیں۔ قہقہوں میں اجنبیت سی محسوس ہوتی ہے اور انسانوں سے اعتبار اٹھ سا گیاہے۔یہی بات جب مجھ سے کرن نے کہی تھی تو میں نے اسے سمجھانے کے بہت جتن کیے کہ نہیں میری دوست زیست آج بھی اتنی ہی دلکش اور رنگین ہے جتنی پہلے تھی۔ آج بھی نیلے گگن پہ سورج بدلی میں چھپتا ہے۔وہ چاندنی راتیں ابھی بھی ہیں جب اک ہلکی سی سرگوشی سے رات کا سہارا سکوت چکنا چور ہو جاتا ھیــــــــــــــــــــــــــــــــ۔ مگر اپنی ہی کہی اس بات کے بعد میں پہروں بیٹھی سوچتی رہی کہ میں کرن کو کس بات کی امید دلاؤں۔۔۔۔۔۔
میری تو اپنی آپ بیتی میری تمام امیدیں پاش پاش کرتی چلی جا رہی ھے۔
اوریٔنٹل کالج کی کینٹین پہ بیٹھے جب میں نے اک بار کہا تھا کہ کویٔ بندہ ایسا بھی تو ہونا چاہییٔ جو ہمیں حیات نو کی امید دلائے جو ُ اکتایٔ ھوییٔ زندگی میں سے بھی اچھی بات کھوجنے کا فن جانتا ہو تو پروفیسر مظہر معین نے اچانک حیرت انگیز لہجے میں پوچھا کہ وہ انسان ملے گا کہاں سے؟ اس غیر متوقع سوال کا جواب میرے پاس نہیں تھا۔
میرے پاس تھی تو فقط خاموش لمحوں کی طولانی یا پھر اجنبی سوچوں میں مستغرق اک کھوجـــــــــــ ۔۔۔۔ اس الجھی ڈور کا کویٔ سرا نہیں مل رہا تھا اور اسی بکھیڑے میں بسنت گزر گییٔ۔ نہ میں پتنگ بن کر اڑ سکی نہ میری زندگی کی ڈور کٹی۔
جب میں نے اپنی کہانی کرن کو سنایٔ تو وہ کہنے لگی کہ تیری کہانی میں کویٔ رنگ نہیں۔ میں نے پوچھا کیسا رنگ؟ تو اس نے کہا بندوں کا رنگ،انسانوں کا رنگ۔ اپنے آپ کو اپنی نظروں سے بھی دیکھو، میری نظر سے دیکھو۔جواباً میں نے کہا لوگ تو جھوٹ بولتے ہیں۔
میں اور عبداللہ بہت عرصے بعد اکٹھے لیٹے تھے کھلُے نیلے آسمان کے نیچے۔ وہ اک گرمیوں کی رات تھی جب عبداللہ نے آسمان کی جانب دیکھ کے کہا کہ آج ستارے بہت خوش ہیں۔ میں نے ستاروں کی خوشی کی وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگا کہ ستارے ہمارے ملن کا جشن منا رہے ہیں۔تمہیں کیسے پتہ چلا کہ ستارے خوش ہیں؟ میں نے وصل اور نیند کے نشے کو بمشکل روکتے ہؤے پو چھا تو اس نے کہا کہ جب آسمان پہ ڈھیر ستارے ہوں تو سمجھو کہ وہ خوش ہیں اور اگر ستارے کم ھوں یا بالکل نہ ہوں تو جان لو کہ ستارے آج اداس ہیں۔ یہ خیال آتے ہی میرا دھیان آسمان کی جانب گیا تو ستارے بہت کم تھے۔ میں جان گییٔ کہ ستارے آج بھی اداس ھیں۔
پچھلے ماہ قادرآباد کی سیر کرتے ھوے جب میں نے اسلم بلوچ سے مرغابیوں کے شکارکا کہا ، تو کہنے لگا بھیٔ یہاں مرغابیاں کہاں سے آ گیںٔ مگر مجھے تو کرن نے کہا تھا کہ قادرآباد میں جھیل ہے بڑی سی۔ میں گہری سوچ میں ڈوب گیٔ۔ یہی بات جب میں نے اپنے پاپا سے پوچھی تو وہ ہنستے ہوے کہنے لگے بیٹا وہ ہیڈ قادرآباد کی بات کرتی ہو گی۔ لیکن کویٔ بات نہیں۔ میں نے بھی قادرآباد نہر کی سیر کرتے ہوے وہاں سے ڈھیروں سیپیاں اکٹھی کیں، جنہیں میں نے اپنی سہیلیوں میں بانٹا۔ نہر سے سیپیاں چُنتے ہوے میں نے اک بار سوچا تھا کہ میں ان خالی سیپیوں کا کیا کروں گی کہ ان میں تو موتی بھی نہیں ہیں۔ اسی لمحے مجھے اک خیال نے آن گھیرا کہ یہ خالی سیپیاں تیرا انعام ہیں پھر مجھے وہ ریت کامحل یاد آیا جو میں نے چاند نے اور شاہ جی نے شب برات میں راوی کی ریت سے بنایا تھا۔کسی نے جیسے میرے کان میں ہلکے سے کہا ہو کہ یہ سیپ اس محل بنانے کی مزدوری ہیں۔
مگر یہ سب تو باتیں ھیں عہد رفتہ کی۔ قصہ پارینہ ہے یہ سب۔ آج اس لمحے کی حقیقت تو فقط ایک ہی ہے اور وہ ہے انتظار۔ شب ہجر کے ڈھلنے کا انتظار۔ رات چاہے جتنی بھی چاندنی سے روشن ہو رات ہی رھتی ہے اور اگر ایسے میں غم خوار ہم نشیں کا ساتھ بھی نہ ہو تو رات بتاِنی مشکل ہو جاتی ہے۔ جنگل کی رات میں جب گیدڑ روتے ھیں تو یوں لگتا ہے جیسے چڑیلیں چینخ رہی ہیں
دن کا ساتھ تو سبھی نبھا لیتے ھیں مگر رات کا ساتھ ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ اک بار مجھے یاد ہے جب میں نے میٔو ہسپتال کے اک ڈاکٹر صاحب سے درخواست کی تھی کہ پلیز رات کا کویٔ چارہ کریں جب کسی صدا کا بھی آسرہ دستیاب نہیں ھوتا مگر بیماری کا ماتم بہت شور مچا رہا ہوتا ہے۔جب جسم سے اٹھنے والی درد کی شدید لہر کے پاس اپنا آپ دکھانے کو بہت وقت ہوتا ہے۔
جب بندہ بیمار پڑتا ھے تو اس کی ایک ہی کوشش ہوتی ہے کے کسی طرح درد کی شدت میں کمی آئے پھر تکلیف کی عدم موجودگی میں اسے اک نئے آدرش اور اک نئے محاذ کی ضرورت ہوتی ہے جہاں وہ اپنی توجہ مرکوز کرتے ہوئے اپنی فراغت کے لمحات بتِا سکے۔
لیکن جب زندگی رات بن جاتی ہے تو اسی لیے زندگی کی تاریک رات میں چراغ کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہی امید کی لو ھی ایساآدرش ہے جو ہمیں آگے بڑھانے کے لیے کافی ہے اورہمیں اسی آدرش اور آس کا ساتھ درکار ہے۔

مناظر: 248
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جون 13, 2022

عمران خان کا یہ قصور کم نہیں تھا!


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ