ہمارے ذہنی جذ بات کی حالتیں ہی معاشرے میں ہمارے مقام کا تعین کرتی ہیں۔ ہمارے ذہنی جذ بات معاشرے میں ہمارے معاشی اور سیاسی حیثیت کا پتہ بتاتے ہیں۔ یہ جذبات ہی ہماری منزل کا راستہ متعین کرتے ہیں۔ زندگی میں ہم جو کچھ حاصل کرتے ہیں اس میں ہمارے جزبات کا بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ ہماری عقل اور ذہانت ہمارے جذ بات کی مرہون منت ہوتی ہے۔ عقل اور جذبات دونوں ایک دوسرے کو کنڑول کرتے ہیں۔ دونوں ویشیس سائیکل کے ذریعے ایک دوسرے کو متاثر کرتے ہیں۔ اگر جذبات کا ویشیس سائیکل مثبت ہے تو عقل بھی صحیح سمت کام کرتی ہے اور اگر جذبات منفی رخ اختیار کر لیں تو عقل جو بھی فیصلہ کرے وہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے اور انسان یا انسانی معاشرہ تباہی کی طرف جا سکتے ہیں۔ اس طرح اگر عقل و شعور مثبت ہے تو جذبات کا راستہ کبھی منفی نہیں ہو سکتا۔ یہ ساری منطق: فرد، قوم یا معاشرے پہ لاگو ہوتی ہے۔
اگر کوئی معاشرہ ترقی کے راستے سے بھٹک جائے تو اس پہ مایوسی کے جذبات غالب آ جاتے ہیں۔ مایوسی کے جذبات عقلی طاقتوں کو بھی کمزور کر دیتے ہیں اور قوم، دشمن قوموں کی چالوں کو سمجھنے کی عقلی صلاحیت سے محروم ہوتی جاتی ہے۔ ایسی حالت میں جب قوم پہ منفی اور مایوسی کے جذبات غالب ہوتے ہیں، ان سے صحیح فیصلوں کی توقع کرنا بے سود ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے عوام دشمن قیادت عوام کو بے وقوف بنا کے ان پہ مایوسی کے سائے اور گہرے کرتی رہتی ہے۔
ہمارے جزبات کو ہمارہ معاشرہ ، ادارے، گھر، اور ہمارے اردگرد موجود افراد متاثر کر رہے ہوتے ہیں اور ان سب کو ہمارہ سیاسی نظام ہی مثبت یا منفی ویشیس سائیکل پہ چلاتاہے۔ عوام کی انفرادی سوچ ہی سیاسی نظام کا اصل چہرہ دیکھاتی ہے۔ اگر سیاسی نظام دشمن قوموں سے مرعوب ہے تو عوام بھی مرعوبیت کے جذبات میں ڈوبی ہوگی۔ ایسی قوم کے افراد کبھی بھی دوسری قوموں کے ہاں باعزت نہیں ہوتے، بے شک انفرادی طور پہ کتنے امیر کیوں نہ ہوں اور نہ ہی قوم باوقار ہوتی ہے۔
اس مایوسی کے جذبات میں گھری قوم کو راستہ دیکھانا مشکل ضرور ہے، لیکن نا ممکن نہیں۔ مفاد اور موقع پرست رہبروں کے چنگل سے بچ نکلنا آسان کام نہیں ہوتا ہے، کیونکہ مایوس لوگ مشکل سے ہی درست فیصلہ کرتے ہیں۔ ایسے حالات میں قوم دوست افراد، جو مایوسی کی بجائے امید رکھتے ہوں، اپنی عقلی صلاحیتوں کو استعمال کرکے قوم کو درست فیصلے کرنے کی صلاحیت پیدا کر سکتے ہیں۔ البتہ ان کو صبر اور محنت سے کام لینا پڑتاہے۔