آج کے دور میں بندوق رکھنے، چلانے، یا خریدنے میں اصل طاقت نہں ہے۔ اصل طاقت بندوق بنانے اور اس کو مسلسل جدت دینے کی صلاحیت میں ہے۔ اگر بنددق یا اسلحہ سے ہٹ کر مشین پہ بات کی جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ آج کے دور میں اصل طاقت ان اقوام کے پاس ہے جو مشین بنانے اور بیچنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ بلکہ اقوام کی خود مختاری کا دارومدار ہی اسی صلاحیت پہ ہے۔ جو قوم بھی مشیں بنانے کی تمام چین پہ قابورکھتی ہے، وہ باقی اقوام پہ اثرانداز ہو سکتی ہے۔
دنیا میں مشین بنانے والی اقوام کے مزاج اور سماجی نظام غیرپیداواری اقوام کے مقابلے میں بہت مختلف ہیں۔ افریقہ اور برصیغر کی اقوام کے مزاج اور سماجی نظام بہت ملتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کی پیداواری صلاحیتیں بھی ملتی جلتی ہیں۔
سانئس کی ترقی کا اظہار مشیں بنانے سے ہوتا ہے۔ سانئس بذات خود کوئی منافع پیدا نہں کرتی، بلکہ قومیں اپنے اردگر ماحول کی ٖضرورتوں کو محسوس کرتے ہوئے، اپنے لوگوں کی سوچ اس سمت پہ لگا دیتی ہیں اور پھر ان کے لیے مشین بنانا ایسے آسان ہو جاتا ہے جیسے کسان کے لیے ہل چلانا اورنت نئے انداز میں ہل چلانا۔ اصل مسئلہ انسانی معاشرے کو وہ ذہن دینا ہوتا ہے، جو کہ مشین بنانے سے مشکل کام ہے۔
وہ قومیں جوکہ مصنوعی طور پہ اپنی جگہ کو ٹھیکے پہ دے کر پیسہ کما لیتی ہیں، عارضی امیر ہوتی ہیں، جن کا رموٹ کنڑول کہیں اور ہوتاہے۔ اصل طاقت معاشرے کو پیداواری سوچ دینا ہے۔ ہمارے سامنے دبئی کی ترقی ایک مصنوعی عمل ہے۔ کسی قوم کا سماجی نظام مظبوط ہو تو وہ ہار کے بھی کھڑی ہو جاتی ہے۔ جرمن قوم کی مثال ہمارے سامنے ہے، جو کہ کئی بار ہار کے بھی آج پورے یورپی یونین کو چلا رہی ہے۔ اس قوم کا سماجی نظام وہ سوچ پیدا کرتا ہے جو تخلیقی معاشرہ جنم دیتا ہے۔
پاکستان میں سی پیک کا جو شور مچا ہے، اس کی سیاسی اور ایشائی اہمیت سے تو انکار نہیں، لیکن اس سے پاکستانی معاشرے کی تخلیقی صلاحیتوں میں کتنا اضافہ ہوگا، وہ یہاں کا سیاسی نظام ہی طے کرے گا۔ گو کہ یہ منصوبہ ہمیں سڑکیں اور بجلی دے گا، لیکن یہ سب بنانے کی سوچ لینا زیادہ اہم ہے۔
بد قسمتی سے پاکستان کے سیاسی نظام نے ہمیں وہ سماجی اور خاندانی نظام نہیں دیا جو کہ ہماری تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشے۔ سوچنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہی تعلیمی اور سیاسی نظام کا کام ہوتا ہے۔ سوچنے کا عمل مشکل ضرور ہوتا ہے، لیکن طبیعت اس کے مطابق ڈھل جائے تو آسان لگنے لگتا ہے۔
پاکستان کا خاندانی و سماجی نظام اور افراد کی ذہن سازی زرعی دور کے طرز پہ ہوئی ہے۔ دنیا میں آنے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہمیں خود کو تبدیل کر لینا چاہئے تھا اور ادارہ جاتی تخلیقی مزاج کو اپنا لینا چاہیے تھا، لیکن اب تک ایسا ہوا نہیں۔ اور اس کی سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی نظام ہی ہے۔
لیکن اب بھی وقت نہیں گزرا۔
نئی سوچ ہی نئے راستے کھولے گی ورنہ سی پیک اور رلائے گا۔