حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل حسن نصراللہ کے 16فروری 2017ء کے بیان کے مطابق، نیتن یاہو اور ٹرمپ کی میٹنگ کے بعد یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہوگی کہ اس میں مذاکرات کی موت کا نیم سرکاری اعلان کیا گیا۔ بیشتر امریکی سیاست دانوں نے جو بات محسوس تو کی تھی مگر جعلی شائستگی اور معقولیت کی بنا پر کہنے سے اجتناب کیا تھا، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کھلے عام اس بات کا اظہار کردیا، یہ کہ اسرائیل اور فلسطین کے سلسلے میں دو ریاستی حل قابل قبول نہیں۔ اس بات سے سب ہی بخوبی واقف ہیں کہ اس جنگ میں یقینا ایک ہی فریق ہے جو طاقتور اور مختار ہے اور وہ فریق دوسرے یعنی غزہ اور مغربی کنارے کے مظلوموں کو یقیناکوئی حقوق نہیں دینا چاہتا۔
صحافیوں اور میڈیا کے سامنے اپنے مسلسل غیرمناسب اور بے ربط رویے میں ٹرمپ نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ دو ریاستی یا ایک ریاستی حل کا ساتھ دے سکتے تھے اور یہ کہ وہ دوریاستی یا ایک ریاستی حل پر غور کررہے ہیںلیکن یہ کہ انہیں وہی حل قبول ہوگا جس پر دونوں فریق متفق ہوں گے۔ انہوں نے اسی قسم کا ایک اور تبصرہ بھی کیا کہ ان کا وقتی طور پر خیال تھا کہ دوریاستی حل دونوں فریقوں کے لیے سہل دکھائی دیتا ہے لیکن ایمان داری سے کہا جائے تو وہ اسی میں خوش ہوں گے جسے یہ دونوں یعنی اسرائیل اور فلسطین پسند کریں۔
اگر اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کی اس معاملے پر عمومی ہچکچاہٹ اور اس موضوع پر فلسطینیوں کے ملے جلے موقف کو دیکھا جائے تو امریکی صدر کا یہ تبصرہ کوئی عقل مندانہ عمل نہیں۔ عمومی امریکی نقطۂ نظر یہی ہے کہ اسرائیل کی پشت پناہی کی جائے اور اصرار کیا جائے کہ دونوں فریق کسی غیر واضح انداز میں باہمی طور پر راضی ہو جائیں۔ البتہ یہ طے ہے کہ امریکہ کا لہجہ بدلتا رہا ہے، چاہے وہ کیمپ ڈیوڈ سمٹ کو دی گئی سابق امریکی صدر کلنٹن کی گائیڈ لائنز ہوں یا سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کا ایناپولس کانفرنس میں دیا گیا Road Map to Peace کا بے معنی سا خاکہ ہو۔ اوباما انتظامیہ نے بھی چند اضافوں کے ساتھ یہی سرکس جاری رکھا ہے اور ناکام رہے۔ ان بے فائدہ کوششوں کو مزید تڑکا سیکریٹری آف سٹیٹ جناب جان کیری لگاتے رہے ہیں ۔
فلسطینی مذاکرات کار اور پی ایل او کی رکن اور سکالر حنان اشروی ظاہر ہے کہ فضا کی اس تبدیلی پر بالکل حیرت زدہ رہ گئیں، اگرچہ ٹرمپ کی کامیابی سے فضا پہلے ہی بوجھل اور صورتِ حال گمبھیر ہوچکی ہے۔ حنان اشروی کا کہنا ہے کہ’’اسرائیل اور وائٹ ہائوس میں انتہائی شدت پسند اور غیر ذمے دار عناصر کو جگہ دینا، ایک ذمے دارانہ خارجہ پالیسی بنانے کا کوئی بہتر طریقہ نہیں۔‘‘
فلسطینی پارلیمنٹ کے رکن اور مغربی میڈیا میں فلسطین کے نمایاں ترجمان Saeb Erekat کے خیال میں اس سب کے نتائج زیادہ مایوس کن ہوں گے۔ ان کا حالیہ بیان ہے کہ ’’ وہ لوگ جن کا خیال ہے کہ دو ریاستی حل کو کھوکھلا اور کمزور کرکے اس کی جگہ اسے دے سکتے ہیں جسے میں ’’ایک ریاست دو نظام‘‘ کہتا ہوں۔۔۔ یعنی نسلی عصبیت۔۔۔ میرا نہیں خیال کہ وہ اکیسویں صدی میں ایسا کچھ کرسکتے ہیں۔ ایسا کرنا ناممکن ہے۔‘‘ ان کا یہ کہنا بجا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ریاستیں، قانون کے پردے میں یہ ظلم وجبر کر ہی رہی ہیں، بہ شرط یہ کہ انہیں عالمی طاقتوں کی متعلقہ پشت پناہی یا پس پردہ ساز باز حاصل ہو۔
امریکی بیانات پر خوش نیتن یاہو کو امریکی صدر ٹرمپ کے ایک اور تبصرے کا سامنا کرنا پڑا، ٹرمپ نے کہا ہے کہ اسرائیل اپنی غیرقانونی یہودی آبادکاریوں پر محتاط رویہ اپنائے۔ یہ یہودی آبادکاریاں وہ ہتھیار ہیں جو فلسطینی مسئلے پر دوریاستی حل کو غیر مؤثر اور ناکارہ بنانے میں بہت کارآمد ہے۔ ٹرمپ کے نزدیک تعمیر اور آبادکاری کی جارحانہ پالیسی شاید کوئی اچھا طریقہ کار نہیں، اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اسرائیلی ریاست کو اس سلسلے کو جاری رکھنے سے روکنے والا امریکہ سمیت کوئی نہیں ہے۔سب کچھ کے باوجود اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو اپنی قسم کے آباد کاری منصوبوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کی بار الان یونیورسٹی میں 2009ء میں کی جانے والی تقریر میں نیتن یاہو نے اسرائیل فلسطین مسئلے پر دو ریاستی حل کو قبول کیا تھا۔ 2015ء کے اسرائیلی انتخابات سے پہلے ان کی یہ سوچ بدل گئی، اور چوتھی بار انتخابات جیتنے کے بعد انہوں نے اس موقف کو بالکل نامنظور کردیا۔ ان کا حالیہ نقطۂ نظر یہ ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ گفت وشنید میں جب کبھی یہودی آبادکاریوں کی بات آتی ہے تو وہ یہودی آبادکاریوں کے اس مسئلے کو غیر متعلقہ قرار دے کر اس پر بات کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔
ایک زیادہ غیرمنصفانہ نقطہ نظر سے، یہ معاملہ ایک دوسرے معاملے سے منسلک ہے۔ یہ کہ مغربی کنارے اور غزہ کے فلسطینی اس معاملے پر باہم متفق ہونے کے قابل ہی نہیں کہ دو ریاستی حل پر کیسے آگے بڑھا جائے۔ فلسطینیوں کے اس رویے پر اسرائیلی ڈپلومیٹ اور سیاست دان Abba Ebenکا ایک تبصرہ خاصا چشم کشا ہے، ’’فلسطینی موقع کھونے کے موقعے سے کبھی محروم نہیں ہوتے۔‘‘
متصورہ Realpolitik کے ہاتھوں فلسطینی مؤثر طور پرتقسیم ہیں۔ یہ کہ اصل موقف جس پر گفت وشنید کی جائے، یہ سمجھا جائے گا کہ اسرائیل میں مقبوضہ علاقے بھی شامل ہیں، لیکن مساوی حقوق کے سیکولر انتظام پر۔ حتیٰ کہ Saeb Erekatنے بھی ’’پورے تاریخی فلسطین میں ایک واحد سیکولر اور جمہوری ریاست جس میں عیسائیوں، مسلمانوں اور یہودیوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں‘‘ کے تصور پرلکھا۔ یہ وژن اسرائیل کے ایک سپریم یہودی ریاست ہونے کو تصور کر جہاں یقینا برباد کرے گا، وہیں یہ کہنا بالکل بے جا نہیں کہ یہ ایک ایسا موقف ہے جس کا تصور بھی قریب قریب ناممکن ہے۔
ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور امریکی صدر ٹرمپ کی میٹنگ کے بعد اس پریس کانفرنس نے دو ریاستی تصور کو باعزت طریقے سے دفنایا ہے یا نہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ عمل فلسطینیوں کی مشکلات اور مصائب میں مزید اضافہ کرسکتا ہے۔