اس وقت عالمی سطح پر عورتیں لا متناہی مسائل سے دوچار ہیں۔ جن میں سے ایک خاندان اور دوسرامعاشرتی کردار ہے۔ یہ چیز ترقی یافتہ اور ترقی پزیر تمام ممالک میں ہے۔ کہیں بہت زیادہ شدت نظر آتی ہے تو کہیں کم ہے۔
پاکستانی معاشرے میں عورت گھر کے اندرعمومی طور پہ مظلوم ہے۔ یعنی شوہر گھر کے اندر واقعتاً بیویوں پر ظلم کرتے ہیں۔ اس ماحول میں گھر کے اندر عورتوں پر مردوں کا سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ مرد، عورت کو اپنی شریکہ حیات نہیں سمجھتا۔ اپنے تمام جذبات و احساسات کو عورت پر نثار نہیں کرتا۔ یہ مرد گھر کے باہر غیر اخلاقی حرکتوں، عیاشیوں، اور شہوانی مشغلوں میں مصروف ہیں، جبکہ گھر کے اندر ایک سرد مہری اور بے رخی کا انداز ہے، جو کبھی کبھار بد اخلاقی اور زور و زبردستی کی حد تک پہنچ جاتا ہے۔ سب سے اہم بات مرد اور عورت کا باہمی تعاون اور تال میل ہوتا ہے۔ انسان اپنی بیٹی کو معلوم نہیں کیسی کیسی زحمتیں گوارا کرکے پیارو محبت سے بڑا کرتا ہے۔ ماں باپ کے گھر میں جو ہنوز بچی ہی شمار کی جاتی ہے، جب شوہر کے گھر جاتی ہےتو اس سے یکبارگی یہ توقع کی جاتی ہے کہ ہر بات سمجھے، ہر کام انجام دے، اور ہر ہنر سے واقف ہو۔ اس سے ذرا سی غلطی ہوئی نہیں کہ چڑھائی کر دی جاتی ہے۔
یہ نہیں ہونا چاہئے۔
مرد نے اگر گھر میں مالکانہ اور تحکمانہ رویہ اپنایا، عورت کو خادمہ کی حیثیت سے دیکھا، تو یہ اس کے ساتھ زیادتی اور نا انصافی ہے، جو بد قسمتی سے بہت سے گھروںمیں پائی جاتی ہے۔ گھر کے باہر بھی یہی صورت حال ہے۔ اگر عورت کو تعلیم حاصل کرنے، کوئی کام انجام دینے اور بعض مواقع پہ پیسے کمانے کے لئے محفوظ ماحول میسر نہ ہو تو یہ ظلم و نا انصافی ہے۔ عورت کو اگر علم و معرفت حاصل کرنے کا موقع نہ دیا جائے تو اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ اگر حالات ایسے ہوں کہ عورت مختلف کاموں اور گوناگوں ذمہ داریوں کے باعث تہذیب و اخلاق، اپنے دین اور اپنے علم و معرفت کی جانب توجہ نہ دے سکے تو یہ اس کے ساتھ ظلم ہے۔ اگر عورت کو اس کی ذاتی اور نجی ملکیت اور اثاثے کے آزادانہ اور حسب منشاء استعمال کا موقع نہ دیا جائے تو یہ اس کے ساتھ زیادتی ہے۔ اگر شادی کے وقت عورت کے سر کسی مرد کو مڑھ دیا جائے اور اس کی خواہش اور مرضی کا خیال نہ رکھا گيا ہو تو یہ سراسر ظلم اور نا انصافی ہے۔ عورت جب (شوہر کے) گھر میں زندگی بسر کر رہی ہو یا علیحدگی کی صورت میں،بچوں کو پیار کرنے اور مامتا کے جذبے کی تسکین کا موقع نہ پائے تو یہ اس کے ساتھ زیادتی ہے۔ اگر عورت میں استعداد اور صلاحیت ہے، مثلاً علمی صلاحیت سے مالامال ہے، ایجادات اور نئی دریافتوں کی صلاحیت رکھتی ہے، سیاسی شعور رکھتی ہے، سماجی کاموں کی صلاحیت رکھتی ہے، لیکن اسے اس کی استعداد کو استعمال کرنے اور اس پر نکھار لانے کا موقع نہ دیا جائے تو یہ اس کے ساتھ ظلم ہے۔
ہمارے معاشرے کو عورت کے لیے اجتماعی آواز بلند کرنی ہوگی۔