جہاں اسلامی معاشرے میں عورت کے حقوق کی بات کی جائے تو وہاں عورت کے ساتھ پردے کو بهی لازم سمجها جائے کیونکہ ایک اسلامی معاشرہ عورت کے جو بنیادی حقوق بتاتا ہے شاید ہی کوئ دوسرہ معاشرہ ایسے بنیادی حقوق بتاتا ہو کیونکہ پردہ ہی عورت کا اصل زیور جو اسے حسن بخشتا ہے –
پردہ اسلام کا طرہ امتیاز ہے اسلام ہی کی ایک خصوصیت ہے، جو اس سے پہلے کسی دین سماوی کا ژوب نا تھا، وجہ اسکی یہ ہے کہ شریعت محمدیہ جہاں حرام کہ راہ ہموار کرنے والے افعال و اعمال سے بچنے کا بھی حکم دیتی ہے اس کی مثالیں شریعت میں بے شمار ہیں جیسے شریعت نے شراب پینے کو احرام قرار دیا ہے تو اسکی خریدوفرخت کو بھی حرام قرار دیا ہے بالکل اسی طرح زنا حرام تو زنا کا باعث بننے والی چیزیں ( بے پردگی ، بد نظری وغیرہ ) بھی حرام ہیں یہاں تک کہ پردے کے بار میں قرآن میں اللہ رب العزت نے فرمایا :
” واذاسالتموهن فاسئلواهن من وراء حجاب ” یعنی اگر تمہیں کبھی عورتوں سے کسی چیز کو طلب کرنے کی ضرورت پیش آئے تو پردے کے پیچھے سے طلب کرو اور اس کے بعد عورت کو یہ حکم ہوا “ولا تخصعن بالقول ” یعنی وہ اپنے آواز میں لوچ اور نرمی سے گریز کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ جس کے دل میں کوئی برا ارادہ ہو تو وہ علمی صورت اختیار کرے – حدیث شریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ عورت جب گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اس کو تاک لیتا ہے اور ایک دوسری حدیث میں فرمایا کہ عورتوں کو گھروں سے نکلنے میں میں نفع کا کوئی حصہ تک نہیں ( اوکما قال علیہ السلام ) –
اسی انسداد بے پردگی کی وجہ سے آج اسلامی معاشرہ زنا کے عمیق دلدلوں سے بچا ہوا ہے جن کا شکار آج یورپی معاشرہ ہے اور پوری طرح اس دلدل میں پھنس چکا ہے ، کئ زمینی اور محققانہ حقائق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یورپ کے بیہودہ اور بے پردہ معاشرے میں ہر لمحے کہیں نہ کہیں بنت حوا کی عصمت کا پردہ چاک کیا جاتا ہے جس کا شاہد جدید دور اور ماڈرن میڈیا ہے –
خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کا سب سے بڑا فتنہ عورت اور مال ہے، اگر حالات دنیا پر محض طائرانہ نظر دوڑائی جائے تو یہ بات عیاں ہوجائے گی کہ کہیں بھی کتنا بھی کیسا بھی گناہ ہو رہا ہو اسکا باعث بالواسطہ یا بلاواسطہ یہی دو عناصر ہیں –
پردے کے نفاذ میں اہل خانہ کو عمل دخل ہے جیسا کہ قرآن نے فرمایا: ” یاایها الذین آمنوا قواانفسکم واهلیکم نارا ” یعنی اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کا ایندھن بننے سے بچاو ، لیکن افسوس صد افسوس کہ آج کے زمانے میں پردہ عورت کی زینت بننے کے بجائے مردوں کی عقلوں پر پڑ گیا ہے –
اکبر الہ آبادی نے کیا خوب کہا ہے؛
بے پردہ نظر آئیں جو کل چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گر گیا
پوچھا جو میں نے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگی عقل کے مردوں کے پڑ گیا