اترپردیش اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی نمایاں کامیابی سیکولرازم کے دامن پر بد نما داغ ہے ۔اترپردیش میں سیکولر ووٹوں کی تقسیم کا پورا فائدہ بی جے پی کو ہوا ۔کانگریس ،سماجوادی پارٹی ،بہوجن سماج پارٹی اور دیگر علاقائی پارٹیوں کی ناعاقبت اندیشی کی بنیاد پر سیکولر ووٹوں کی تقسیم سیکولرازم کا کفن بن گئی ۔یا پھر یہ مان لیا جائے کہ سیکولرازم کا زور ٹھنڈا پڑتا جارہاہے اور ہندوستان میں سیکولرطبقہ بھی کیمونل طرز فکر کاحامی ہوتا جارہاہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ذات پات اورمذہب کی سیاست نے ہر طبقہ اور ہر مکتب فکر کو متاثر کیا ہے ۔مگر یہ کہنا شاید ابھی جلد بازی ہوگی کہ ہندوستان کی سیکولر روح حالت نزع میں ہے ۔کیونکہ فرقہ پرست طاقتوں کی کامیابی کے بعد فرقہ پرستی کے مخالفوں کی کمی نہیں ہے۔اترپردیش میں بی جے پی کی اتنی بڑی کامیابی کھٹکتی ضرور ہے اور کئی اہم سوال بھی ذہن میں جنم لے رہے ہیں ۔کیونکہ ہر علاقے سے بی جے پی کا اتنی صفائی کے ساتھ کامیاب ہوکر نکل جانا آسان نہیں تھا ۔پولنگ بوتھ پر موجود افسران اور ووٹنگ مشینوں کی جانچ بھی ہونی چاہئے کیونکہ اتنی نمایاں کامیابی پوری ایمانداری کے ساتھ حاصل کرنا ناممکن سا نظر آتاہے ۔مگر پھر بھی جو نتائج سامنے ہیں ابھی انہیں تسلیم کرنا ہوگاکیونکہ جانچ کی ذمہ داری الکشن کمیشن کی ہے ۔
اترپردیش میں بی جے پی کی نمایاں کامیابی کانگریس ،سماجوادی پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے لئے بڑا سیاسی سبق ہے ۔سماجوادی پارٹی اور بی ایس پی کو اپنے کمزور لائحۂ عمل اور ناعاقبت اندیشی پر غورکرنا ہوگا ۔سماجوادی پارٹی کا ووٹ بینک تو اسی دن منتشر ہوگیا تھا جب مظفرنگر فساد کے بعد انکے رہنما متاثرین کی مدد کے بجائے فرقہ پرستی کا راگ الاپ رہے تھے۔،انسانیت اپنی لاش پر آپ نوحہ پڑھ رہی تھی اور ریاست کی حکمران جماعت ملائم سنگھ کا جنم دن منانے میں مصروف تھی ۔مظلوموں کی فریاد سیفئی کے جشن طرب میں ڈوبے ہوئے عیاش رہنمائوں کے لئےصدابصحرا ثابت ہوئی ۔اکھلیش اسی دن ہار گئے تھے جب وہ دادری میں اخلاق کے قتل کی ذمہ داری مرکزی سرکار پر تھوپ رہے تھے۔اکھلیش کی شکست اسی دن یقینی ہوگئی تھی جب زنا باالجبر کی متاثرہ خاتون کا مذاق اڑایا گیا اور انکی جماعت کے سربرآوردہ لیڈر قانونی کاروائی کے بجائے ہر محاذپر تمسخر کرتے نظرآئے۔آخر عوام کس بنیاد پر ۲۰۰ سوسے زیادہ فرقہ وارانہ فسادات کو بھول کر ملّا ملائم سنگھ یادو کے بیٹے کی سیاسی غلطیوں پر آنکھیں موند کر اعتماد کرلیتی ۔کیا عوام اتنی احمق ہے کہ ہر فساد کے بعد اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرنے والی جماعت کو دوبارہ اپنے قتل کا لائسنس دیدیتی ۔بد اعتمادی کا شکار عوام سماجوادی سرکار کا دامن چھوڑکر ایسی فرقہ پرست جماعت کے ساتھ جانے پر مجبور نظرآئی جسکے دامن پر گجرات فسادکے دھبے ابھی تک موجود ہیں۔ایسی فرقہ پرست جماعت جو جانوروں کے مذہبی تقدس کے نام پر انسانوں کے قتل عام کو جائز ٹہراتی ہے ۔ایسی جماعت جو دلت مخالف اور ہندوراشٹرواد کا پرچم لہراتی ہوئی اترپردیش کے سیاسی گلیاروں میں گھومتی رہی اوربے خبر اکھلیش یادوگھریلو تنازعات کا حل تلاش کرتے رہے ۔
کیا سماجوادی پارٹی نے عوام کو اتنا احمق سمجھ لیا تھا کہ فسادات کی لمبی فہرست کے ساتھ وہ انتخابی میدان میں اترے گی اور عوام انکی تمام سیاسی غلطیوں کو بھلاکر دوبارہ انہیں منتخب کرتی ۔آدھے ادھورے کاموں کی فہرست گنواکر کس بوتے پر اکھلیش انتخابی میدان میں اترے تھے ؟آخر سماجوادی رہنمائوں کی غنڈہ گردی سے عوام کیوں چشم پوشی کرتی ؟کھلے عام جرائم پیشہ نیتائوں کی عیاشیوں،غنڈہ گردی ،من مانی اور رشوت خوری سے کیسی آنکھیں موندلیتی ؟اکھلیش یادو کی خوداعتمادی پر داد دینے کو جی چاہتا ہے کہ وہ اپنی تمام کمزورویوں کے باجود دیدہ دلیری کے ساتھ اپنی ادھوری حصول یابیاں گنواتے رہے ۔اگر اکھلیش یادو اپنی جماعت کے رہنمائوں کے ذریعہ علاقہ جاتی بنیاد پر سروے کرالیتے تو شاید ’’کام
بولتاہے ‘‘ کے نعرہ کے باجود یہ دن دیکھنا نہ پڑتے ۔انتخابی ریلیوں میں جن حصول یابیوں کا ذکر کیا جارہاتھا کیا عوام ان حصول یابیوں سے ناواقف تھی ؟اترپردیش میں کونسا ایسا دیہات ہے جہاں الکشن سے پہلے بیس گھنٹہ بجلی سپلائی ہورہی تھی ؟کیا اکھلیش یادو نے کسی ریلی میں یہ بتایا کہ کتنے دیہاتوں کو صرف الکشن کے دنوں میں ووٹ حاصل کرنے کے لئے بجلی سپلائی کی جارہی ہے اور کتنے دیہات ایسے ہیں جہاں الکشن سے پہلے دو تین گھنٹہ سے زیادہ بجلی کی سپلائ ہی نہیں ہوپارہی تھی ؟۔کتنے علاقہ ایسے ہیں جہاں آج بھی بجلی پانی اور سڑکوں جیسی عام سہولیات دستیاب نہیں ہیں ۔کتنے علاقے ایسے ہیں جہاں تعلیم کے نام پر بچوں اور ٹیچروں سے صرف اسکولوں میں حاضری لگوائی جارہی ہے ۔کیا اکھلیش یادو کے پاس کسانوں کے بنیادی مسائل کا کوئی سروے موجود تھا ۔کسانوں کی اترپردیش میں کتنی بری حالت ہے اسکا اندازہ شاید اکھلیش یادو اور انکے ہمکار رہنمائوں کو نہیں ہے ۔کسان آج بھی قرض معافی کی امید میں بی جے پی کے ساتھ کھڑا ہواہے کیونکہ اسکی معاشی حالت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ایک بار پھر اکھلیش یاد و کے جھوٹے وعدوں پر یقین کرے ۔ہوسکتا ہے نریندر مودی اس بار بھی کسانوں کی قرض معافی کو انتخابی نعرہ کی طرح استعمال کررہے ہوں مگر انکا یہ نعرہ ’’کام بولتاہے ‘‘سے زیادہ پسند کیا گیا ۔موجودہ انتخاب میں اکھلیش یادو کے پاس گنوانے کے لئے کچھ نہیں تھا ۔الکشن سے کچھ دنوں قبل ہی ایکسپریس وے ،میٹرواور لکھنؤ میں جاری ادھورے کاموں کاافتتاح انہیں پورے اترپردیش میں کیوں کر مقبول خاص و عام بناتا یہ تو اکھلیش یادو ہی بتا سکتے ہیں ۔اکھلیش یادو جی لیپ ٹا پ اور کنیاودیا دھن بانٹنے سے غریبی ختم نہیں ہوتی ۔اترپردیش کی عوام اپنے بنیادی مسائل کا حل چاہتی ہے ۔وہ غریبی اور پسماندگی سے پریشان ہے ۔اگر اسکی بنیادی ضرورتیں ہی پوری نہیں ہوتی ہیں تو پھر اسے جو ملتاہے چپ چاپ لیکر آئندہ انتخاب میں کسی دوسری پارٹی کا دامن تھام لیتی ہے ۔
مایاوتی کو بہوجن سماج پارٹی کے مستقبل پر از سر نو غور کرنا ہوگا کیونکہ انکی پارٹی کی مسلسل شکست
فاش کی وجوہات بہت واضح ہیں ۔ذات پات کی سیاست اور ترقی کے نام پر فقط لاء اینڈ آڈر کے نام کی مالا جپنا ہی کامیابی کی ضمانت نہیں ہے۔اگر مایاوتی نے حالیہ انتخابات میں سو مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا ہے تو انہیں سوچنا ہوگا کہ شکست کی اصلی وجہ کیاہے ؟کیا انہوں نے ایک بھی ایسے مسلم امیدوار کو ٹکٹ دیاجسکی علاقہ میں اچھی امیج ہو ۔ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو ٹکٹ دیکر فتح کی امیدکرنا دیوانے کے خواب جیساہے ۔دوسرے یہ کہ مایاوتی کے پاس اس الکشن میں کوئی بنیادی ایشو نہیں تھا ۔وہ بار بار یہی کہتی رہیں کہ اگر وہ کامیاب ہوتی ہیں تو مورتیاں نہیں لگوائینگی مگر وہ عوام کو یہ بارآور کرنے میں ناکام رہیں کہ اگر کامیاب ہوتی ہیں تو کس ترقی جاتی منصوبہ پر عمل کرینگی ۔انکی نگاہ میں اقلیتوں اور دیگر برادریوں کے لئے کیا لائحۂ عمل ہے ؟اگر وہ اس انتخا ب میں دلتوں اور مسلمانوں کی بنیاد پر اتری ہیں تو انکے کن بنیادی مسائل پر وہ کام کرنا چاہتی ہیں ۔مایاوتی کو علم ہونا چاہئے کہ مسلمان کسی مذہبی رہنماو مذہبی و نیم مذہبی تنظیم کا پابند نہیں ہے اور نہ وہ انکے کہنے پر ووٹ کرتاہے اس لئے مایاوتی کی شکست سے سبق لیتے ہوئے دیگر پارٹیوں کو بھی مسلم مذہبی رہنمائوں اور تنظیموں کو اتنی اہمیت نہیں دینی چاہئے بلکہ عوام کے درمیان جاکر انکا اعتماد جیتنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔مایاوتی کو غورکرنا ہوگا کہ آخر وہ کیا وجوہات ہیں جنکی بنیاد پر انکی پارٹی دلتوں اور مسلمانوں کااعتماد جیتنے میں ناکام رہی ۔کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ دلت اور مسلمان یہ سمجھ چکے تھے کہ مایاوتی صرف انکا سیاسی استحصال کرنا چاہتی ہیں اور انکا ووٹ بینک منتشر ہوگیا ۔
بی جے پی کو اپنی نمایاں کامیابی پر زیادہ خوش ہونے کے بجائے سنجیدگی کے ساتھ اترپردیش میں ہر ذات اور ہر مذہب کے لئے کام کرنا ہوگا ۔انہیں چاہئے کہ وزیر اعلیٰ کی کرسی کے لئے کسی ایسے چہرہ کا انتخا ب کریں جو متنازع نہ ہو ۔جسکے دامن پر بدعنوانیوں اور فرقہ پرستی کے داغ نہ ہو ں ۔اس لئے کہ اترپردیش کی عوام نے بی جے پی سے امیدیں وابستہ کی ہیں اور ان امیدوں پر کھرا اترنا انکے لئے بڑی
مشکل ہوگی ۔بی جے پی کی نمایاں کامیابی یہ ثابت کرتی ہے کہ اترپردیش کی سیاست کس طرف جارہی ہے ۔اترپردیش ہی نہیں پورا ہندوستان ’’ہندتوو‘‘ اور ’’راشٹرواد‘‘ کے نا م پر متحد ہوگیا ہے ۔سیکولر اور نا ن سیکولر کی تقسیم بے معنی بن کر رہ گئی ہے ۔اتنے متنازع مسائل و بیانات کے باجود بھی اگر اترپردیش میں بی جے پی کی حکومت بنتی ہے تو پھرتسلیم کرنا چاہئے سیکولرازم کا جنازہ نکل چکاہے اورنماز جنازہ پڑھانے کےلئے کسی سیکولر مولوی کو تلاش کرنا بھی مشکل ہوگا کیونکہ ہر مذہبی رہنما اب کمیونکل ہوچکاہے ۔