امام شاہ ولی اللہ دہلوی کے انتقال کے بعد آپ کے فرزند امام شاہ عبدالعزیزؒ نے پہلا کام یہ کیا کہ ہندوستان کی ایک حیثیت مقرر کرتے ہوئے اسے دارالحرب قرار دیا اور مجاہدین کی تیاری شروع کر دی انہیں اتفاق سے سید احمد جیسے صاحب صدق و شجاعت مل گئے۔
چنانچہ امام شاہ عبدالعزیز اور شاہ عبدالقادر کی ایماء پرانہوں نے عملی بنیادوں پر ایک جماعت تشکیل دی جس کے روح رواں مولانا عبد الحئی (داماد حضرت شاہ عبدالعزیز) اور مولانا محمد اسماعیل ( برادر زادہ حضرت شاہ عبدالعزیز) تھے۔
ان حضرات نے مسلمانوں میں اصلاح احوال و رسوم کی زبردست تحریک شروع کی جن کے نتائج انتہائی شاندار نکلے۔لیکن امام شاہ ولی اللہؒ دہلوی کے انتقال کے بعد تقریباً پینتیس چالیس سالوں میں مسلمانوں کا سیاسی زوال اپنی آخری منزل پر پہنچ چکا تھا۔اور مسلم دشمن طاقتوں نے سارے اسلامی ہندکو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا تھا۔برطانوی استعماریت کے پنجے پوری طرح گڑ چکے تھے۔اور اس سے نجات کے لیے ایک زبردست انقلابی اقدام کی ضرورت تھی چنانچہ سید احمد اور ان کے رفقاء کار نے حالات کا انتہائی باریک بینی سے جائزہ لیا اورکافی غور و فکر کے بعدتجدید احیاء اسلام کا رخ جہاد کی طرف موڑ دیا اور مجاھدین کی ایک جماعت تیار کر کے صوبہ سرحد کو اپنی عملی تحریک کا مرکز بنا کر احیاء ملت و دین کی سعی شروع کر دی۔
لیکن مسلمانوں کی بدقسمتی کے دن ابھی بھی باقی تھے چنانچہ یہ تحریک اپنوں کی عاقبت نا اندیشی اور غیروں کی ریشہ دوانیوں کے سبب مئی 1831 میں جنگ بالاکوٹ میں ناکام ہو گئی۔ سید احمد اور شاہ اسماعیل شہید کر دیے گئے اور مجاہدین کی یہ جماعت منتشر ہو کر رہ گئی۔
ولی اللہیٰ تحریک کے بعض جان نثار سیاسی میدان میں ناکامی کے باوجود اپنی احیا ء اسلام کی کوششوں میں لگے رہے اور مسلمانوں نے اپنی تحریک کو آگے بڑھایا جو آگے چل کر عملی میدان میں بڑی کامیاب ہوئی۔ شاہ صاحب نے ناکامی کے باوجود حالات کا نئے سرے سے جائزہ لیا اور اپنی کوششوں سے ایک بہت بڑے طبقے کو علم حدیث کی روشنی سے منور کر کے بر صغیر میں دینی علوم کی بیداری کی شروعات کیں۔
چنانچہ ان کے لائق فائق جانشینوں نے علوم و فنون کی نشرو اشاعت شروع کر دی اور غیر منقسم ہندوستان میں احیا اسلام کے لیے ایک نیا باب کھولنے کی راہ ہموار کی۔
شاہ ولی اللہ خانوادے کے ایک دوسرے چشم و چراغ شاہ محمد اسحاق دہلوی نے اپنے نانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کی مسند درس و تدریس کو آباد کر کے امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے والد بزرگوار حضرت شاہ عبدالرحیم نے جو دہلی میں بہت پہلے مسند درس بچھائی تھی مگر حالات سے مایوس ہو کر ہجرت کر گئے تھے لیکن آپ کے درس حدیث کا چرچا مجددی خاندان کے ایک بزرگ شاہ عبدالغنی سے قائم تھا جوخاندان ولی اللہی کے ہی شاگرد رشید بھی تھے۔
ان کے ہی علم وعمل کے چشمے سے ہندوستان سیراب ہوتا رہا لیکن حالات نے ان کے بھی قدم کو بھی ہلا کر رکھ دیا اور ۱۲۷۲ھ میں آپ نے بھی ہجرت کی راہ اختیار کر لی تھی۔
یہ وہ دور تھا جب سارے عالم اسلام میں علم حدیث ضعف و انحطاط کا شکار ہو چکا تھا ایسے میں علم حدیث کی اشاعت و ترویج بھی شاہ صاحب کا ایک زبردست علوم کی بیداری کے لیے انقلابی کارنامہ ہی تھا جس کا اعتراف مصر کے ایک جلیل القدر عالم سید رشید رضا نے ان الفاظ میں کیا ہے۔
,,ہمارے ہندوستانی علماء کی توجہ اس زمانے میں اگر علم حدیث کی طرف مبذول نہ ہوتی تومشرقی ممالک سے علم حدیث ختم ہو چکا ہوتا کیونکہ مصر،شام،عراق اور حجاز میں دسویں صدی ہجری سےچودھویں صدی ہجری کے اوائل تک یہ علم ضعف کی آخری منزل تک پہنچ گیا تھا،،
مزکورہ بالا ولی اللہی تحریک کی ساری انقلابی اور تعلیمی سرگرمیوں سے انگریز اس قدر خائف ہو گئے تھے کے وہ اسلام اور قرآن کو دنیا سے مٹا دینا چاہتے تھے چنانچہ برطانیہ کے وزیراعظم گلیڈ اسٹون نے کہا تھا :
جب تک یہ کتاب دنیا میں باقی ہے دنیا متمدن اور مہذب نہیں بن سکتی۔
اس کے علاوہ ھنری ہرمنگٹن تھامسن نے بھی کہا تھا :
کہ مسلمان ایسی گورنمنٹ کےجس کا مذہب دوسرا ہو،اچھی رعایا نہیں ہو سکتے اس لیے احکام قرآنی کی موجودگی میں یہ ممکن نہیں ہے۔