:سیکرلراز م کیاہے
سیکولر ریاست کا مطلب ہے کہ ریاستی معاملات سے مذہب کو الگ رکھاجائے ۔شہریوں کی ترقی کے لئے مرتب ہونے والا لائحۂ عمل بغیر کسی ذات یا مذہبی تفریق کے تیار ہو اور اس پر بغیر کسی تعصب کے مخلصانہ عمل کیاجائے ۔گویا ریاست میں ہر کسی کا پنا اختیاری مذہب یا عقیدہ ہوسکتاہے مگر ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوگا ۔سیکولر ازم کی یوں تو درجنوں تعریفیں کی گئی ہیں اور عمدا َ ان تعریفوں میں تحریف کی جاتی رہی ہے ۔یعنی سیکولر از م کی تعریف بھی فرقہ پرست طاقتیں تبدیل کرنے پر تلی ہیں یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں سیکولر ازم کی تعریف دوسرے ملکوں سے مختلف ہے ۔ وہ سیکولر جماعتیں جو ریاست میں حکمران ہوتی ہیں وہ بھی سیکولر ریاست کے بنیادی آئین کو اختیار کرنا پسند نہیں کرتیں ۔آزادی ٔاظہار اور مساوی حقوق دینے کے لئے انہیں ایوان میں گھنٹوں بحث کرنی پڑتی ہے اور بل پاس نہیں ہوپاتے ۔یعنی ایک سیکولر جماعت دوسری سیکولر جماعت کی موجودگی میں یہ ثابت کرنے میں ناکام رہتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے لئے بغیر مذہب اور ذات پات کے کام کررہی ہے ۔اسی لئے ایوان میں نام نہاد سیکولر جماعتیں سیکولر ازم کی تعریف میںترمیم کرتی ہیں اور اسے عقیدہ کی آزادی سے تعبیر کرتی ہیں۔
:فرقہ پرستی کیاہے
ایک ریاست میں مختلف مذہبوں کا وجود اور الگ الگ فرقوں کا ہوناہی فرقہ پرستی کو جنم دیتاہے کیونکہ ہر مذہب اور ہر فرقہ کے مفادات دوسرے فرقہ کے مفادات کے مخالف ہوتے ہیں ۔ایسی نان سیکولر طاقتیں جو مذہب اور فرقہ کی سیاست کی بنیاد پروجود میں آتی ہیں یا ترقی کرنا چاہتی ہیں وہ مذہبوں اور فرقوں کے جداگانہ مفادات کو موضوع بحث بناکر تفریق پیداکرتی ہیں اورریاست کو فرقہ پرستی کی طرف لے جاتی ہیں ۔فرقہ پرست طاقتوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ سیاسی و معاشی نظام سے لیکر معاشرتی و تہذیبی قدروں کو بھی مذہبی عینک لگاکر دیکھیں اور سماج کے ہر نظام کو مذہبی رنگ میں رنگ دیا جائے تاکہ ایک فرسودہ نظام بھی عوام کی عقیدتوں اور جذبات کا حصہ بن جائے ۔یہ حقیقت ہے کہ ہر حکومت میں انسان اپنے بنیادی حقوق کے لئے جد وجہد کرتاہے خواہ وہ حقوق مذہبی ہو ں یا سماجی ۔اس جد و جہد میں اخلاص شامل ہوتاہے مگر جب یہ جد و جہد جھوٹ اور فریب کا روپ دھارلیتی ہے تو فرقہ پرستی کی بدترین شکل سامنے آتی ہے ۔اس صورتحال کو فاشزم سے تعبیر کرتے ہیں۔یہ انتہا پسندانہ رویہ 1937 کے آس پاس معرض وجود میں آیا جسکے تحت یہ اعلان کردیا گیا کہ ہندواور مسلمانوں کی بھلائی ایک دوسر ے کو صفحۂ ہستی سے نابود کردینے میں ہے ۔آج بھی انتہا پسند طاقتیں اسی نظریہ کو فروغ دے رہی ہیں مگر پھر بھی سیکولر ازم کا سوانگ رچاکر عوام کو فریب دینےمیں کامیاب ہیں کیونکہ سیکولر جماعتوں کی کمزور منصوبہ بندی ،نظریاتی اختلاف اور سیاسی انتشار فرقہ پرست طاقتوں کو اقتدار میں آنے کا موقع فراہم کرتی ہیں جسکا خمیازہ سیکرلر و لبرل سماج کو بھگتنا پڑرہاہے ۔
:فرقہ پرستی کی بنیادیں
جس وقت سیاسی و سماجی حقوق کے لئے سیاسی و سماجی رہنما صرف اور صرف اپنے مذہب اور اپنے فرقہ کے لئے آواز بلند کرتے ہیں یہیںسے فرقہ پرستی کا آغاز ہوتاہے ۔یہی لوگ ایک دوسرے کو فرقہ پرست کہہ کر لعن طعن کرتے ہیں اور خود کو سیکولر کہہ کر اپنی پیٹھ آپ تھپھتاتے ہیں ۔سیکولر ریاست بھی ایسے رہنمائوں کے خلاف اقدام نہیں کرتی کیونکہ ان مختلف فرقوں کے رہنمائوں کو ساتھ لیکر چلنا اور اپنا سیاسی مفاد حاصل کرنا ہی اسکا بنیادی ہدف ہوتاہے ۔اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ سیکولر ریاست بھی فرقہ پرستی کی بنیادوں پر کھڑی ہوتی ہے اور سیکولر ہونے کا نعرہ لگانے والے بھی کسی نا کسی حدتک فرقہ پرستی کو فروغ دے رہے ہوتے ہیں ۔ہندو ہے تو وہ صر ف ہندئوںکے حقوق کی بات کرتاہے اور مسلمان ہے تو وہ مسلمانوں کے مطالبات کے دائرہ سے باہر نہیں نکل پاتا۔بات صرف یہیں تک نہیں رہتی کیونکہ ہندوئوں میں بھی الگ الگ فرقوں کے سیاسی و سماجی رہنما اپنے فرقہ کے مطالبات کو لیکر نبرد آزما ہیں ۔اسی طرح مسلمانوں کے ہر فرقہ کا رہنما اپنے فرقہ کے مطالبات کو لیکر برسرپیکار ہے ۔اگر کسی فرقہ کی حق تلفی ہوتی ہے تو اسے آواز اٹھانے کا حق حاصل ہے مگر اس آواز کی لے کتنی انتہا پسندانہ ہوگی یہ اہم ہے ۔یہی نظریاتی انتہا پسندی در اصل فرقہ پرستی کی جڑوں کو مضبوط کررہی ہے ۔
فرقہ پرستی کو لبرل ،سیکولر بلکہ ہر مکتب فکر کے لوگ فروغ دیتے ہیں ۔جو لوگ لبرل ازم یا سیکولر ہونے کی بات کرتے ہیں تو کیا یہ سماج کی نظریاتی تقسیم نہیں ہے ۔یہ حقیقت ہے کہ سماج کبھی ایک نظریہ کا پابند نہیں ہوسکتا اسلئے یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ سماج بغیر فرقہ پرستی کے بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔کیونکہ ہر مکتب فکر اور ہر نظریاتی اسکول صرف اپنے نظریہ کے فروغ کی بات کرتاہے ۔ممکن ہی نہیں ہے کہ ایک فرقہ کا انسان دوسرے فرقہ کی ترقی اور فروغ کے لئے مخلصانہ طور پر سوچے اور کام کرے ۔ہر انسان اپنے فرقہ اور اپنے نظریہ کی ترویج و اشاعت کے لئے کوشاں ہوتاہے ۔اگر فرقہ پرستی یہ ہے کہ ہم فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے خلاف ہیں تو ایسا کوئی فرقہ نہیں ہے جو فرقہ وارانہ ہم آہنگی نہ چاہتا ہو ۔ہاں یہ ممکن ہے کہ اس فرقہ کے کچھ لوگ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے خلاف ہوں مگر یہ کچھ لوگ تو از ل سے ابد تک رہیں گے ،ان چند افراد کی بنیاد پر فرقوں کے افراد کی نظریاتی ترویج اور سیاسی کوششوں کو ہم فرقہ پرستی کا نام کیونکر دے سکتے ہیں ۔
:فرقہ پرستی کا علاج
فرقہ پرست خود کو حق بجانب ثابت کرنے کے لئے مختلف توجیحات پیش کرتے ہیں کہ وہی در اصل معاشرتی و تہذیبی قدروں کے پاسدار ہیں اور ہندوستانیت کی اصل روح کی حفاظت وہی کررہے ہیں ۔اسی نظریہ کے تحت وہ سماج میں کام کرتے ہیں اور عوام کو متاثر کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔سیکولر نظریات کے لوگ عوام کو یہ بارور کرانے میں ناکام رہےہیںکہ وہ معاشرتی و تہذیبی قدروں کے محافظ ہیں اور اپنی ثقافت کی جڑوں کی مضبوطی کے لئے کام کررہے ہیں ۔آج بھی فرقہ پرستی کے خاتمہ کے لئے عوام کو یہ یقین دہانی کرانی ضروری ہے ۔ساتھ ہی عوام کو فرقہ پرستی کی حقیقت سے بھی آگاہ کرنے کی ضرورت ہے ۔کیونکہ آج تک فرقہ پرستی کے خلاف بے سروپیر کی باتیں کی گئی ہیں اسکے اصول اور طریق کار کو بے نقاب کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ۔
فرقہ پرست آ ج بھی حب الوطنی کے نام پر مہلک افکار و نظریات کو فروغ دے رہے ہیں۔یہ لوگ اپنی فرقہ پرستی کو حب الوطنی قرار دیتے ہیں اور آسانی سے عوام کو اپنے افکار کے جال میں الجھا لیتے ہیں۔فرقہ پر ستی کے خلاف لڑی جانے والی لڑائی حب الوطنی کے نام پر ہی لڑنی ہوگی ۔اسکی ڈھیروں مثالیں موجود ہیں ۔مثلا رام جنم بھومی کا مسئلہ،لو جہاد،گئو رکشا،اور ایسے ہی درجنوں ایشوز کو حب الوطنی کے نام پر عوام کے درمیان اٹھایا گیا ۔جسکا فائدہ فرقہ پرست طاقتوں نے بخوبی حاصل کیا مگر مخالف جماعتیں اور افراد اس لڑائی میں ایسی راہ پر نکل گئے جہاں انکے ساتھ عوام نہیں تھی ۔لہذا فرقہ پرستی کے خلاف میدان جنگ میں اترنے سے قبل اسکے اصول ،طریق کار اور بنیادی فکر پر از سرنو غور کرنا ہوگا اور تمام سیکولر جماعتوں اور افراد کو مل کر اسکے خلا ف محاذ کھولنا ہوگا ۔ورنہ صرف سیکولر اور لبرل ازم کے نام کا وظیفہ پڑھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔