چودھری رفیق کی اب ساتھ والے عالقوں میں بھی دھوم کافی مچ چکی تھی وہ اپنے گاوں کا امیر ترین آدمی تھا۰جس نے عرصہ دراز قبل اس گاوں میں ڈیرا ڈاال تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے بہت مربعوں کا مالک بن چکا تھا۰اسکا چھوٹا سا خاندان تھا جس میں اسکی بیوی حمیدہ بیگم اور اسکا بیٹا رشید شامل تھا۰بیٹا ابھی چھوٹا ہی تھا کہ اسے تعلیم حاصل کرنے کے لیے شہر چھوڑ دیا گیا۰اس کے باپ کی جائیداد اتنی تھی کہ اسکی سات نسلیں بھی کھاتی رہتیں تو شاید ختم نا ہوتی۰لیکن چودھری رفیق کی خواہش تھی کہ اسکا بیٹا تعلیم حاصل کرکے اپنا نام خود پیدا کرے,اکثر وہ کہا کرتا تھا کہ میری جائیداد جتنی بھی کیوں نا ہو میری کل جائیداد میرا بیٹا ہی ہے
۰بہت ناز سے وہ بتایا کرتا تھا کہ میرا بیٹا تعلیم حاصل کرنے کے لیے ہم سے جدا شہروں کا دھواں برداشت کرتا ہے۰ گاوں کے حاالت بھی اب کافی بدل چکے تھے, سکول اور ہسپتال کی سہولت موجود تھی اور لڑکیوں کے لیے اک ٹریننگ سنٹر بھی بنایا گیا تھا۰یہ سب چودھری رفیق ہی کی مرہون ِ منت تھا کہ گاوں خوشحال بن چکا تھا۰بچوں کو سکول کی تعلیم و کتابیں مفت مہیا کی جاتیں اور ا ۰سارا گاوں اک خاندان کی ُ لڑکیوں کی شادیوں کا خرچ بھی ٹھایا جاتا طرح رہنے لگا, گاوں کی گلیاں اور سڑکیں بھی کافی حد تک مظبوط بنادی گئ تھیں۰گاوں میں کسی بھی کام کو سرانجام دینے سے قبل چودھری صاحب سے مشورہ درکار ہوتا تھا کیوں کہ اسکے لیے معاوضہ ادھر سے طے پایا کرتا تھا
۰اگر کوئ جرم سرزد ہوجاتا تو اسکا فیصلہ بھی پنچائیت میں ہوتا جس کی سربراہی چودھری رفیق کیا کرتے تھے۰ اک وقت تھا کہ اک نعرہ گاوں کی فضاء میں گونجا کرتا تھا ” ہم بھوکے ہمارا مذہب روٹی” ۰ عالقے کے لوگ نہایت غریب تھے, ٹوٹی اللٹینیں اور مٹی کے دئیے جال کر اپنا گزارا کیا کرتے تھے۰دو وقت کی روٹی حاصل کرنا ہی انکا سب سے بڑا مسئلہ تھا۰کئ کئ دنوں تک گھروں میں افاقے کاٹے جاتے تھے
۰اس وقت جو گاوں میں امیر ترین سمجھا بھی جاتا تھا بسا اوقات وہ بھی ہاتھ خالی فضاء میں بلند کردیا کرتا تھا۰بہت سے لوگ گاوں چھوڑ کر شہر جا بسے تھے۰وڈیروں کا کہنا تھا کا بھوک اس گاوں کی مٹی میں رچ بس چکی ہے۰گاوں میں پڑی زمینیں کسی سخت اور سنگدل کی تھیں جو کاشت کی اجازت تک نا دیتا تھا۰لڑکیاں جوان ہوتیں اور ماں باپ کے گھر ہی مر کھپ جایا کرتی تھیں, اگر کسی کا رشتہ شہر کہیں ہوجاتا تو وہ بہت خوش قسمت سمجھی جاتی تھی۰ ِل بیان تھی کہ جرائم کی شرح نا ہونے اس گاوں کی ایک بات بہت قاب کے برابر تھی اگر کوئ غلطی کسی سے سرزد ہوجاتی تو وڈیرے ہی اسکا فیصلہ پنچائیت میں کیا کرتے تھے اگر جرم بڑا ہوتا تو اسے گاوں سے نکال دیا جاتا تھا اگر کوئ عورت جرم میں پکڑی جاتی تو اسکے شوہر یا بھائ کو سزا دی جاتی یا گاوں سے نکال دیا جاتا تھا۰جو فیصلہ وڈیرے کردیتے وہ سب کو ماننا پڑتا تھا
۰شہری عدالتوں کے بارے انکے نظریات یہ تھے کہ جو لوگ ہمیں دو وقت کی روٹی نا دے سکیں یا روزگار نا مہیا کرسکیں تو ان سے انصاف کی امید کیا رکھی جائے کیوں کہ ہمیں ہمارا روزگار نا ملنا ہی سب سے بڑی ناانصافی ہے۰ لیکن اب حاالت برعکس ہوچکے تھے چودھری رفیق کو وہ اپنا راہنماء ماننے لگے تھے۰قدم قدم پر ان سے راہنمائ لیتے اور ماحول کو خوبصورت بنائے تھے گویا شاید وہی انکے لیے بھگوان ہوں , بوڑھی عورتیں اسکے بچے ک سالمتی کی دعائیں کیا کرتی تھیں۰ رشید اب شہر کے اچھے کالج میں داخلہ لے چکا تھا۰وہ گاوں کم ہی آتا تھا لیکن چودھری کی خواہش یہی تھی کہ وہ پڑھ لکھ کر نام پیدا کرے لیکن اپنے گاوں کو ہمیشہ اسی طرح یاد رکھے جس طرح وہ خود رکھتا تھا۰رشید اک امیر باپ کا بیٹا ہونے کی حیثیت سے کھل کر خرچ کیا کرتا اور عیاشیوں میں پیسہ بہاتا تھا۰کالج میں اسکی کافی تعریفیں ہونے لگیں۰لڑکے آپس میں چہء مگوئیاں کرتے کہ دیکھو اکیال ہی کتنی ذیادہ جائیداد کا مالک ہے
۰رشید اپنی تعریف سن کر پھلے نا سماتا اور اندر ہی اندر خوشی کا اظہار تو کرتا ہی تھا اسکے ساتھ ساتھ اسکی دوستی شہر کے بڑے لوگوں کے بچوں کے ساتھ ہوچکی تھی۰احمد اور علی اسکے بہترین دوست تھے جو ہر پل اسکے ساتھ رہتے , اب وہ کالج بھی کم کم آتا اور سارا دن انھیں کے ساتھ گھومتے پھرتے عیاشی میں گزار دیا کرتا۰کبھی پارکوں میں کبھی سینماوں میں چکر لگاتے مال کرتا تھا۰ چودھری رفیق اپنے بیٹے کی حرکات پر نادم ضرور تھا کیوں کہ جن وہی اس پر تنقید یے نشتر اُ لوگوں کی وہ امداد کیا کرتا ٹھا رہے تھے لیکن کسی میں بھی جرات نا تھی کے رشید کو سمجھائے , وہ جھٹ سے بول پڑتا تھا کہ اک پورا عالقہ میرے باپ کا دیا کھآتا ہے۰
اسی طرح وقت گزرتا گیا چودھری اور اسکی بیوی اپنے بیٹے کی وجہ سے نہایت پریشان تھے وہ اسے الکھ سمجھانے کی کوشش تو کیا کرتے تھے لیکن اب بات حد سے بڑھ چکی تھی۰ رشید کے گاوں نا آنے کی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ سرے سے اک اَنم نامی لڑکی پر نگاہ رکھے تھا جو اسی کی جماعت میں پڑھا کرتی تھی۰احمد اور علی کے گھر کے نزدیک ہی اسکا گھر تھا۰ اک روز وہ سوچی سمجھی تجویز کے تحت رات کے اندھیرے میں اسکے گھر دیوار پھیالنگ کر داخل ہوا جب وہ اپنے کمرے میں لیٹی کتاب پڑھ رہی تھی۰کہنے کو تو وہ عمر میں چھوٹی تھی لیکن جسم پر ابھرے ابھار, نشیلی آنکھیں, اسکے جسم کا الگ ہی منظر پیش کررہی تھیں۰جو واقعہ اسکے ساتھ ہونے کو تھا اس سے بے خبر اپنے مطالعے میں مگن تھی۰اچانک اسکے منہ پر رکھے نشہ آور ادویات میں بگھوئے کپڑے نے اسے جسارت ِ لب کا موقع نہ دیا۰کچھ وقت گزرنے کے بعد رشید وہ سب کچھ کرچکا تھا جس کے لیے وہ بے تاب اور نجانے کتنے دنوں سے اسکا پیچھا کررہا تھا اور گھات لگائے تھا
۰ رشید ابھی واپس جانے ہی کو تھا کہ انم نے ہوش آتے ہی اک نظر سے اسکو تکا اور بے بسی کے عالم میں بستر پر پڑے خون کے قطرات کو دیکھنے لگی۰رشید اسی سوچ میں تھا کہ انم سب جان چکی ہے اب بچنے کا چارہ کوئ نہیں۰اسنے آنکھیں اک لمحہ کے لیے موندھی اور ساتھ ہی تیز دھار آلہ لے ک انم کی طرف لپکا تو کسی کے قدموں کی چال نے اسے چونکا دیا۰جونہی اسنے نظر گھمائ تو اک بلی جو تیزی سے کھڑکی کو پھیالنگتے ہوئے سامنے دیوار پر چڑھ رہی تھی۰اس سے پہلے کہ اَنم اپنی آواز بلند کرتی یا اپنا دفاع کرتی, رشید نے تیز دھار آلہ اسکی گردن پر جاری کردیا۰دھیمے دھیمے اسکی سانسیں ختم ہورہی تھیں کہ خون کی نکلتی دھاڑ میں اَنم اتنا ہی بول سکی کے ” بلی کے قدموں کی آہٹ” پھر وہ ہمیشہ کی نیند سو گئ۰بستر پر پڑے دونوں خون آپس میں مل چکے تھے۰ کافی عرصہ گزر گیا رشید کا بیاہ چودھری رفیق نے شہر کے امیر ترین گھرانے میں عائشہ نامی لڑکی سے کروادیا, جو کہ بہت ہی نخریلی اور زدی لڑکی تھی
۰بات بات پر گھر میں جھگڑا پیدا ہوجاتا۰ گھر سمیت پورے گاوں میں اک روز قہرام مچ گیا جب یہ خبر آئ کہ چودھری رفیق اور انکی بیوی ٹریفک حادثہ میں وفات پاگئے۰یہ ان پر اک عذاب کی طرح ٹوٹنے سے کم نا تھی خیر وقت تھا گزرتا چالگیا۰ اب چودھری صاحب کی ساری جائیداد کا مالک انکا بیٹا ہی تھا۰انکی وصیت کے مطابق وہ گاوں والے مکان میں شفٹ ہوچکا تھا اور گاوں والوں کے مشترکہ فیصلہ کی بنیاد پر اسے گاوں کا سربراہ بنادیا گیا تھا۰ اک روز رشید اور اسکی بیوی عائشہ کسی دوست کی شادی سے واپس آرہے تھے کہ گاڑی رستے میں خراب ہوگئ۰سنسان رستے میں آس پاس کوئ نہیں تھا, ڈرائیور گاڑی کو چالو کرنے میں مصروف تھا کہ پتوں کی سرسراہٹ سے کسی کے چلنے کی آواز آئ اور سب یکدم چونکے تو ایک بلی بھاگتی ہوئ انکے قریب سے گزر گئ۰ رشید بلی کو دیکھ کر مسکرایا اور عجب سے تاثرات اسکے چہرے پر پیدا ہوئے تو ساتھ ہی اسکی بیوی عائشہ نے وجہ پوچھی اور اسے یاد دالیا کہ اس سے دو بار قبل بھی تم بلی کو دیکھ کر مسکرا چکے ہو۰آج تیسری بار ہے اور میں وجہ جان کر ہی رہوں گی۰
وہ ٹال مٹول کرنے لگا تو عائشہ کا شک اب مزید بڑھ چکا تھا, وہ روزانہ گھر میں یہی بات دہراتی جب بھی وہ آپس میں بات چیت کرنے لگتے۰ اک روز رشید تھکا ہارا گھر آیا تو عائشہ نے وہی بات دہرائ تو اس نے طیش میں آتے ہوئے اپنی آواز کو بلند کرتے ہوئے اَنم واال سارا قصہ سنادیا, جسے گھر میں موجود عائشہ سمیت کام والی اور مالی نے بھی سنا اور یہ خبر آگ کی طرح پھیلتے ہوئے شہر تک جاپہنچی۰ اب رشید پنچائیت کی سربراہی کی بجائے شہر کی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا تھا۰اسے جیل کی سالخوں کے پیچھے گھسیٹا جارہا تھا۰اور اسکے خیاالت میں اَنم اسکے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے پکار رہی تھی” بلی کے قدموں کی آہٹ”۰