آج عوامی جمہوریہ چین کا ڈنکا پوری دنیا میں گونج رہا ہے۔ عوامی جمہوریہ چین پر کمیونسٹ پارٹی کا غلبہ ہے۔ اگرچہ جمہوریہ چین کے پاس ۱۹۴۹ کے فوراً بعد سے بین الاقوامی حمایت زیادہ تھی لیکن اب ایک حمایت عوامی جمہوریہ چین کی طرف منتقل ہو چکی ہے۔ جمہوریہ چین کے اقوام متحدہ میں موجود نمائندوں کو ۱۹۷۰ میں عوامی جمہوریہ چین کے نمائندوںسے تبدیل کر دیا گیا۔ جمہوری چین نے نہ صرف تمام چین پر اپنے دعوے کو واپس لے لیا ہے بلکہ اپنے تمام نقشے بھی تبدیل کر دیے ہیںجس کے مطابق بیرونی منگولیا اور مین لینڈ بھی ان کے نقشے سے نکل گئے ہیںاور اب اس نے اپنی شناخت تائیوان کو بنا لیا ہے۔ اب جمہوری چین کا دعویٰ مین لینڈ کی ریاستوں ، تبت یا منگولیا سے ختم ہو گیا ہے اور اب عوامی جمہوری چین یہ دعویٰ محفوظ رکھتی ہے۔ عوامی جمہوری چین نے سفارتی اور معاشی دباؤ کے ذریعے اپنی پالیسی کو ایک چین تک بڑھا دیا ہے اور اس سے متعدد بین الاقوامی اداروں میں جمہوریہ چین کا وجود خارج ہو گیا ہے جیسا کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور اولمپک کھیل وغیرہ۔
آج، اقوام متحدہ کی صرف چوبیس ریاستیں عوامی جمہوریہ چین سے تعلقات رکھتی ہیں۔
انتظامی تقسیم
عوامی جمہوریہ چین کو ۲۲ صوبوں پر انتظامی کنٹرول ہے۔ ۲۲ صوبوں کے علاوہ سر زمین چین کی انتظامی تقسیم میں پانچ خود مختار علاقے اور چار بلدیات بھی شامل ہیں۔ جب کہ ہانگ کانگ اور مکاؤ کا شمار چین کے خصوصی انتظامی علاقوں میںہوتا ہے۔ چین کے مندرجہ ذیل صوبے ہیں۔
انہوئی، فوجیان، گانسو، گوانگڈونگ، گوئیچو، ہائنان،ہیبئی، ہیلونگجیانگ، ہینان، ہوبئی، ہونان، جیانگسو، جیانگشی، جیلن، لیاؤننگ، شنگھائی، شانسی، شانڈونگ، شنسی، سیچوان
تاریخی سیاسی تقسیم
اونچے درجے کی سیاسی تقسیم نے چین اور انتظامیہ دونوں کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ اونچے درجے میں سرکٹس اور صوبے آئے ہیں۔ اس سے نیچے ریجن یعنی علاقے، سب ریجن، دیپارٹمنٹس، کمانڈریز، ضلعے اور کاؤنٹیز آتی ہیں۔ مو جودہ تقسیموں میں سب ریجن لیول شہر،کاونٹی لیول شہر،قصبے اور ٹاؤن شپ شامل ہیں۔ زیادہ تر چینی بادشاہتیں ان علاقوں پر مشتمل تھیں جو تاریخی اعتبار سے چین کے مرکز کہلاتے تھے یعنی باقاعدہ چین۔ مختلف بادشاہتوں نے اپنی سرحدوں کو نزدیکی ریاستوں تک توسیع دی جیسے منگولیا کے اندر تک ، مانچوریا، زنجیانگ اور تبت۔ مانچو کی بنائی ہوئی منگ بادشاہت اوراسے بعد آنے والوں یعنی عوامی جمہوریہ چین اور جمہوریہ چین نے ان ریاستوں کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ عمومی طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اصل چین وہی ہے جو دیوار چین سے لے کر سطح مرتفع تبت کے درمیان موجود ہے۔ مانچوریا اور منگولیا کے اندر کے حصے اگرچہ دیوارِچین کے شمال میں ہیں اور اس کو چین کے صوبے اور انر منگولیا کے درمیان سرحد سمجھا جاتا ہے۔ تاریخی اعتبار سے دوسری جنگِ عظیم کو دور میں یہ مانچو کو کی کٹھ پتلی حکومت کی سرحد تھے۔ زینیاکگ کی سرحد آج کے زینیانگ کے قبضے کو ظاہر کرتی ہے۔ تبت کی سطح مرتفع پر شروع سے تبت کا وہی قبضہ رہا ہے۔ روائتی طور پر چین کو شمالی چین اور جنوبی چین میں تقسیم مانا جاتا ہے، دونوں حصوں میں ہوائی دریا اور چنگ لنگ پہا ڑوں کو سرحد مانا جاتا ہے۔
معاشرہ/ انسانی آبادی / زبانیں
چین کی کل آبادی ایک اعشاریہ تین ارب یعنی ایک ارب تیس کروڑ کے لگ بھگ ہے جو دنیا کی کل آبادی کا پانچواں حصہ ہے۔ چین میں سو سے زائد لسانی گروہ موجود ہیں لیکن عوامی جمہوریہ چین کی حکومت ان میں سے صرف ۵۶ کو مانتی ہے۔ اب تک کا سب سے بڑا لسانی گروہ ہن ہے۔ یہ گروپ بہت ترقی یافتہ ہے اور اس کو مزید کئی چھوٹے گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
بہت سے لسانی گروہ اپنے اردگرد کے گروہوں میںمل گئے ہیں اور اب ان کا نام و نشام تک نہیں ملتا۔ ماضی کے بہت سے نمایاں گروہ اب ہن گروہ کے ساتھ مل کر چینی شکل کے حامل بن گئے ہیں، جس کے باعث ہن گروہ کی تعداد میں اچانک ڈرامائی اضافہ ہوا ہے۔ اسی دوران ہن گروہ کے درمیان موجود بہت سے چھوٹے گروہوں نے اپنی شناخت کو الگ سے برقرار رکھا ہوا ہے اور ان کی اپنی لسانی اور ثقافتی خصوصیات ہیں لیکن وہ ابھی بھی اپنے آپ کو ہن گروہ کے نام سے متعارف کراتے ہیں۔
چین کی اکثر زبانیں سینو۔تبتین نامی لسانی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں اور یہ انتیس مختلف لسانی گروہوں میں بولی جاتی ہیں۔ اسی طرح چینی زبان کے اپنے بہت سارے لہجے ہیں۔ سب سے زیادہ استعمال ہونے والا لہجہ مانڈارین جو کہ ستر فیصد آبادی استعمال کرتی ہے، وو جو کہ شنگھائی اور اس سے ملحقہ علاقوں میں بولی جاتی ہے۔
پتونگ ہوا یعنی معیاری مانڈارین یا جو عام استعمال کی بولی ہے، کو بیجنگ بولی کہا جاتا ہے اور یہ مانڈرین لوگ بولتے ہیں جو شمال اور جنوب مغربی علاقوں میں رہتے ہیں۔ معیاری مانڈرینی کو رسمی تعلیم دینے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور اسے تمام سکولوں میں پڑھایا جاتا ہے۔یہی زبان میڈیا ، سرکاری طور پر اور حکومت بھی استعمال کرتی ہے۔ غیر چینی زبانیں کچھ خودمختار علاقوں میں کو۔آفیشل یعنی دوسری سرکاری زبانوں کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔
مذاہب/ چینی ثقافت
ثقافتی انقلاب اور دیگر پالیسیوں کے نفاذ کے بعد، عوامی جمہوریہ چین کے مین لینڈ کے انسٹھ فیصد حصے یعنی سات سو سرسٹھ فیصد آبادی خود کو لادین کہتے ہیں۔ تاہم مذاہب اور رسومات ابھی بھی عوامی جمہوریہ چین کے شب و روز میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، خصوصاً بدھ ازم ، کمفیوشس ازم اور تاؤ ازم پر روایتی اعتقاد شامل ہیں۔ عوامی جمہوریہ چین کی ایک تہائی یعنی ۳۳ فیصد آبادی مختلف اعتقادات کی پیروی کرتی ہے جسے روایتی، پرانے چینی اعتقادات یا محض دیگر اعتقادات کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس جمہوریہ چین یعنی تائیوان میںمذاہب کے بہت سے پیروکار ہیں کیونکہ یہ ثقافتی انقلاب سے متاثر نہیں ہوا تھا۔ مذاہب اور پرانی چینی روایات بھی تائیوان کی روزمرہ کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ عوامی جمہوریہ چین کے بڑے مذاہب یہ ہیں:
اور اس پر عبور حاصل کئے بغیر کوئی بندہ شاہی ملازمت نہیں حاصل کر سکتا تھا۔ اسی طرح خطاطی کو ڈرامہ نویسی یا مصوری سے زیادہ اہم سمجھا جاتا تھا۔ چین کی روایات کنفیوشزم اور پرانے خیالات کا مجموعہ تھیں۔ اسی طرح قانون کی لفظی تشریح پر زور دیا جاتا تھا۔ اس طرح اکثر اوقات فلسفے ٹکرا جاتے تھے۔ امتحانات اور حق دار کی برتری کو آج بھی چین میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ حالیہ برسوں میں کنفیوشزم کے حامیوں نے جمہوری خداؤں اور انسانی حقوق کو ایک دوسرے کا ساتھ مماثل قرار دیا ہے۔ انیسویں صدی کی نصف کے بعد چینی معیشت اور فوجی طاقت میں اضافہ ہوا اور غیر چینی سماجی اور سیا سی اداروں نے چیں میں اثر بڑھایا۔ ان میں سے کچھ اصلاحات کو تو چینی ثقافت نے بالکل ہی رد کر دیا اور باقیوں نے اپنی طاقت بڑھنے کی کوشش کی تاکہ وہ چینی ثقافت کا مقابلہ کر سکیں۔ خلاصہ یہ کہ اکیسویں صدی کا چین سماجی، سیاسی اور معیشی اعتبار سے ایک نیا تجربہ ہے جو شاہی نظام کر زوال کے بعد چینی قوم کی بیداری کا سبب بنا۔
عوامی جمہوریہ چین کے پہلے رہنما پرانے معاشرے میں پیدا ہوئے تھے اور ان پر چار مئی کی تحریک اور اصلاحی رہنماؤں کا اثر تھا۔ انہوں نے چین کی ثقافت کے کچھ پہلو ؤں جیسا کہ دیہی زمین کی مزارعت، جنسیات اور کنفیوشس کی تعلیمات کو بدلا جبکہ دوسروں جیسا کہ خاندان کے ڈھانچے اور حکومت کی وفاداری کو قائم رکھا۔
چاول کو چینی ثقات میں اہم مقام حاصل ہے۔ نہ صرف یہ خوراک کا اہم جزوو ہے بلکہ اس سے بہت سے چینی قصے کہانیاں وابستہ ہیں۔ چاول چین کی سب سے اہم اور بڑی فصل ہے اور اسے زیادہ تر دریائے ینگتز کی وادی میں جنوبی چین میں اور یونن گوئی زاؤ کی سطح مرتفع میں اگایا جاتا ہے۔ چین میں دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت سب سے زیادہ چاول اگایا اور کھایا جاتا ہے۔ کچھ تاریخ دان یہ کہتے ہیں کہ چاول کی کاشت کی ابتدا چین سے ہوئی۔
فن و ادب/ کھیل اور تفریح
چینی کردار ابتدا سے لے کر اب تک بہت تبدیلیوںسے گزرے ہیں۔ دسیوں ہزار سال پرانی دستاویزات ابھی تک موجود ہیں، پرانی الوحی ہڈیوں سے لے کر چنگ قوانین تک۔ خطاطی کو چین میں فن کی بڑی شاخ گردانا جاتا ہے۔ مذہبی داستانیں جو کہ زیادہ تر کنفیوشش، تاؤسٹ اور ندھسٹ تھیں، برش اور سیاہی سے لکھی گئیں۔ بعد ازاں خطاطی کو تجارت بنا دیا گیا اور مشہور خطاطوں کے کام کو ایک قیمتی ملکیت گردانا جانے لگا۔
پرنٹ میکنگ سونگ بادشاہت کے دوران چڑھی۔ شاہی تعاون سے بنائی جانے والی اکادمیاں بنائی گئیں جو کلاسیکی چیزوں کو خطاطی اور پرنٹنگ سے لکھنے پر مباحثہ کرتی تھیں۔ شاہی خاندان بھی ان مباحثوں میں بکثرت حصہ لیتے تھے۔
چینی فلسفی، لکھاری اور شاعروں کو بہت زیادہ عزت دی جاتی تھی اور انہوں نے چین کی ثقافت کو بچانے اور ترویج دینے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ کچھ کلاسیکی سکالروں نے عام لوگوں کی زندگی کو بھی موضوع بنایا جو حکام کو ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔
چینیوں نے بہت سارے موسیقی کے آلات ایجاد کئے جن میں زہنگ، چن، شنگ، زیاو اور ارہو، پیپا شامل ہیں۔ ان میں سے بہت سارے بعد ازاں مشرقی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا خصوصاً جاپان، کوریا اور ویت نام تک پھیل گئے۔
کھیل اور تفریح
شہادت ملتی ہے کہ ایک ہزار عیسوی میں چین میں فٹ بال کی طرح کا ایک کھیل کھیلا جاتا تھا۔ کئی تاریخ دان یہ سمجھتے ہیں کہ فٹ بال کی ابتدا چین سے ہوئی۔ چین میں پروفیشنل فٹبال ابھی تک اپنی ترقی کے مراحل طے کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ مارشل آرٹس، ٹیبل ٹینس، بیڈ منٹن اور گولف بھی مشہور کھیل ہیں۔ باسکٹ بال کو بھی شہری نوجوانوں میں مقبولیت حاصل ہے ۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی روایتیں کھیلیں ہیں۔چینی ڈریگن بوٹ کی ریس ڈوان وو کے میلے میں ہوتی ہے۔ اندرونی منگولیا میں منگولی انداز کی کشتی اور گھڑ دور مقبول ہیں۔ تبت میں میلوں ٹھیلوں میں تیراندازی اور گھڑ سواری سے متعلق کھیلوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔
چین اس وقت ایشیا اور دنیا میں ایک سپورٹس کی طاقت مانا جاتا ہے۔ ۱۹۸۲ ء سے اب تک چین ہر ایشیائی کھیل میں تمغوں کی دوڑ میں سب سے آگے رہا ہے۔