دین اسلام کی اصل شناخت انبیا علیہم السلام کی سیرت و کردار بالخصوص رسول اکرمؐ کے اُسوۂ حسنہ سے ہے۔ آپؐ نے ایسے معاشرے میں، جہاں بات بات پر جنگ و جدل ایک معمول کی بات تھی، اپنی سیرت و کردار سے امن کے لیے سازگار ماحول قائم کرنے کی نتیجہ خیز کوشش کی۔ قبل از بعثت حجر اسود کی تنصیب کا مرحلہ درپیش ہوا تو مکہ کے قبائل اس مذہبی سعادت کے حصول کے لیے آپس میں تناؤ کا شکار تھے۔ ہر قبیلے نے اس کو اپنی اَنا کا مسئلہ بنایا ہوا تھا۔ اور یہ اندیشے سر اُٹھانے لگے کہ مکہ کے قبائل ایک بار پھر برسرِ پیکار ہوجائیں گے اور معلوم نہیں کہ یہ جنگ و جدل کب تک جاری رہے۔ کیوں کہ ان کے ہاں پُرامن مفاہمت کا تصور کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔ ایسے ماحول میں رسول اکرمؐ نے حجراسود کی تنصیب کے لیے ایسا طریقہ اختیار کیا کہ قبائل کے مابین پُرامن بقائے باہمی کے اصول نے اپنی جگہ بنائی اور ایک چادر میں حجرِاسود رکھ کر تمام قبائل کو اس کے پکڑنے میں حصہ دار بنایا۔ یوں کسی کی اَنا کو ٹھیس بھی نہ پہنچی اور ماحول کا کھنچاؤ ختم ہوکر رہ گیا۔ آپؐ کا یہی وہ طرزِ عمل تھا جس کو بعد ازاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطورِ مشن آپؐ کے سپرد کردیا گیا۔ یوں آپؐ ’’رسولِ امن‘‘ قرار پائے۔
آپؐ نے یثرب میں جس معاشرے کی داغ بیل ڈالی، اس میں مختلف نسلی قبائل اور اہل مذہب کو پُرامن بقائے باہمی کے اصول پر یکجا کردیا۔ تہذیبی شناخت کو باہمی منافرت کا ذریعہ نہیں بننے دیا۔ میثاقِ جمہوریت ِمدینہ اور مواخات کے سنہری اصولوں کے تحت بکھرے ہوئے معاشرے کو یک جہتی عطا کی اور وحدتِ انسانیت کے اصول پر تہذیبوں کے مابین مفاہمت کے تصور کو جنگ زدہ ماحول میں پروان چڑھایا۔ چناںچہ اسلام نے جہاد کا محور کسی قوم یا مذہب کو قرار نہیں دیا بلکہ ’’فتنہ‘‘ کو قرار دیا ہے۔ جو معاشرے میں ایک طبقے کی طاقت کے ذریعے اظہارِ حق کے فطری حق کو سلب کر کے ظلم و جبر کا نظام مسلط کردیتا ہے۔ رسول اللہؐ نے ختم نبوت کے منصب پر فائز ہونے کے باوجود دیگر تہذیبوں یا مذاہب کے قلع قمع کا حکم نہیں دیا۔ بلکہ آپؐ کے ذریعے دنیا اس اصول سے آشنا ہوئی کہ قبولیت دین کے لیے کسی جبر اور دباؤ کی گنجائش نہیں۔ ایسا نہیں کہ یہ بات مکہ مکرمہ کے جبرزدہ ماحول میں کہی گئی ہو کہ مسلمان کم زور تھے، بلکہ یہ اصول مدینہ منورہ میں ریاستی بالادستی کے دور میں متعارف ہوا۔ چناںچہ مسلمانوں نے ہمیشہ دیگر مذاہب کے تہذیبی علاقوں کی حفاظت کی۔ انھوں نے گرجا گھروں، مندروں اور دیگر عبادت گاہوں کو گرا کر اپنا تہذیبی غلبہ قائم نہیں کیا۔ بلکہ ان کی حفاظت کر کے پُرامن بقائے باہمی اور تہذیبوں کے مابین مفاہمت کے سماجی خدوخال واضح کیے۔ اسلام جس خطے میں بھی پہنچا، اس نے وہاں کی تہذیب کو ملیا میٹ کرنے کے بجائے اس کے صالح پہلوؤں کی نہ صرف حفاظت کی، بلکہ ان کو مزید پروان چڑھایا۔ اسلام عالمِ انسانیت کی ہر سطح پر تقسیم کا شدید مخالف ہے، بلکہ کل انسانیت کی فلاح و بہبود کا ضامن ہے۔
آپؐ نے عدل و انصاف کے آفاقی اصول پر مبنی جو معاشرہ اور تہذیب قائم کی، اس میں کسی کو اس کے مذہب اور تہذیب کی بنیاد پر اچھوت بنانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ آپؐ کی سیرت کے ایسے کئی واقعات تاریخ میں رقم ہیں، جن میں آپؐ کی سیرت نے مسلم و غیرمسلم تنازعات میں کسی مذہبی یا تہذیبی وابستگی کو عدل و انصاف کے راستے میں رُکاوٹ نہ بننے دیا۔ موجود ہ دور میں جب محاذ آرائی عروج پر ہے اور تہذیبی تصادم اور تقسیم انسانیت کے نظریات بحث و مباحثے کے میدان میں ہی نہیں بلکہ میدانِ جنگ میں بُری طرح کارفرما ہیں اور مغرب کی استحصالی تہذیب نے دنیا کو جہنم زار بنا دیا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں رسول اللہؐ کی حسن سیرت کا یہ پیغام ہے کہ وحدتِ انسانیت کی اَساس پر پُرامن بقائے باہمی کے لیے عدل و انصاف کا قومی اور بین الاقوامی معاشرہ قائم کیا جائے، جس میں کسی ظالم قوت کو من مانی کا موقع نہ مل سکے اور کوئی قوم اپنی بے چارگی کے سبب حقوق سے محروم نہ کی جاسکے۔