انسان کی رشد وہدایت، رہنمائی اور فلاح وبہبود ہر زمانے میں دوہی ذرائع سے عمل میں آئی ہے۔ ایک اللہ کا کلام،دوسرے انبیاء علیہم السلام کی شخصیتیں، جن کواللہ تعالیٰ نے نہ صرف اپنے کلام کی تبلیغ وتعلیم اور تفہیم کا واسطہ بنایا، بلکہ اس کے ساتھ عملی قیادت ورہنمائی کے منصب پر مامورکیا، تاکہ وہ کلام اللہ کا ٹھیک ٹھیک منشا پورا کرنے کے لیے انسانی افراد اور معاشرے کا تزکیہ کریں اور انسانی زندگی کے بگڑے ہوئے نظام کو سنوار کر اس کی بہتر تعمیر کریں۔
قدیم زمانے کی طرح اب اس جدید دور میں بھی انسان کی ہدایت ورہنمائی کے وہی دو ذرائع ہیں جوازل سے چلے آرہے ہیں۔ ایک خدا کا کلام، جواب صرف قرآن پاک کی صورت میں مل سکتا ہے۔ دوسرے اسوہ رسول اللہﷺ جواب صرف محمد عربیﷺ کی سیرت پاک میں محفوظ ہے۔
قرآن تو اصول وقوانین کا مجموعہ اور ضابطہ حیات ہے، جب کہ محمد عربیﷺ کا اسوہ حسنہ اس کی عملی تصویر ہے، اس لیے حضورﷺ کی حیات طیبہ بہترین اور کمال ترین نمونہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی بات کو قرآن مجید میں واضح کردیا کہ:’’لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ‘‘(سورۃ الاحزاب آیت۲۱:)
بقول سید سلیمان ندویؓ:
’’ایک شخصی زندگی ،جو ہر طائفہ انسانی اور ہرحالت انسانی کے مختلف مظاہر اور ہر قسم کے صحیح جذبات اور مکمل اخلاق کا مجموعہ ہو، صرف محمد رسول اللہﷺ کی شخصیت ہے‘‘
(خطبات مدراس،ص۱۰۷)۔
حضورﷺ کی شخصیت جامع صفات وکمال ہے۔ آپﷺ اگرروحانی وباطنی پہلو کے اعتبار سے انسانی تصور سے بھی بالا مقام پر ہیں، تو آپﷺ نے عرفان الٰہی اورقرب ذات کے نقطہ معراج پر کھڑے ہوکر مادی وسیاسی زندگی کی تنظیم وتربیت بھی فرمائی۔ اس سے آپﷺ کی نیاببت الٰہی کی جھلک نمایاں ہے۔ اس لیے ایک مومن زندگی کے ہر موڑ پر ہر لحظ آپﷺ کا محتاج ہے۔ لہٰذا ایک اسلامی معاشرے میں وحی والہام کی رہنمائی اورپیغمبر اسلامﷺ کی قیادت سے انسانی زندگی کا کوئی گوشہ باہر نہیں رہ سکتا۔ جو پیغمبرﷺ طہارت وتیمم سے لے کر نکاح وطلاق کے معاملات میں انسانوں کی رہنمائی کرتا ہے، وہی پیغمبرﷺ ان کو سفارت کے طور طریقے اور سیاست کے اصول بھی سکھاتا ہے۔
اگر بغور دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس ہستی نے کتنی تک ودو کرکے مدینہ کے مختلف عناصر کو چند ماہ کے اندر اندر دستوری معاہدہ کے تحت جمع کیا، جس عرق ریزی سے اردگرد کے قبائل سے حلیفانہ تعلقات قائم کیے، کس مہارت سے مٹھی بھر مسلمانوں کے بل پر ایک مضبوط فوجی نظام قائم کیا، کس کاوش سے قریش کی تجارتی شاہراہ کی ناکہ بندی کرلی، کس عزیمت کے ساتھ قریش کے خنجر براں کا مقابلہ کیا، کس زیر کی سے یہود اور منافقین کی سازشوں کی کاٹ کی، کس مہارت سے صلح حدیبیہ کا معاہدہ باندھا، کس ہمت سے یہود کے مراکز فتنہ کی بیخ کنی کی، کس بیدار مغزی کے ساتھ بے شمار شرپسند قبائل کی علاقائی شورشوں کی سرکوبی کی اور کس عظمت وشوکت کے ساتھ شابان عرب وعجم کو اسلامی سلطنت ومملکت کے ساتھ تعلقات اسوار کرنے اور اس کے زیر نگیں آنے کی نہ صرف دعوت دی، بلکہ پورے یقین واعتماد کے ساتھ ان سے یہ بھی منوالیا کہ مستقبل میں اگر کوئی تحفظ وامان کی جگہ ہے تو وہ صرف ریاست مدینہ کی اطاعت وفرماں برداری میں مضمر ہے۔
جناب نبی اکرمﷺ کے سفارتی پہلو کی اسلامی ودینی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ ایک غیر جانبدار مورخ اس حقیقت سے یقینا اتفاق کرے گا کہ رسول اللہﷺ انسانی تاریخ کی وہ پہلی بین الاقوامی شخصیت ہیں، جنہوںنے بین الملی، بین الریاستی اور بین الاقوامی تعلقات کو مرتب ومنضبط کرنے کے لئے نہ صرف جامع اصول دئیے بلکہ ان اصولوں کی بنیاد پر خود بھی اس زمانے کی معاصر ریاستوں سے بین الاقوامی سطح پر تعلقات بھی رکھے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جناب محمد رسول اللہﷺ کی ذات اقدس کائنات کی سب سے بڑی ہستی تھی اور آپﷺ میں کونین کی سعادتیں جمع کردی گئی تھیں۔ صحابہ کرامؓ کے عہد سے لے کر اب تک نہ معلوم کتنی کتابیں سیرت طیبہ کے موضوع پر ان سعادتوں کو اجاگر کرنے کے لئے لکھی جاچکی ہیں اور قیامت تک نہ معلوم کتنی اورکتابیں لکھی جائیں گی مگربایں ہمہ جس طرح ہم آج تک قدرت خداوندی کے اسرار اور رموز نئے نئے انداز میں اجاگر کرنے میں کوشاں رہے ہیں۔ اسی طرح محمد رسول اللہﷺ کی ، کونین کی سعادتوں کی حد کو اجاگر کرنے میں ہمارے ذہن وقلم جانفشانی کررہے ہیں۔ اس لیے کہ قدرت آپﷺ کی ہر پیش کردہ سعادت پر نئی ئنی حقیقتوں کی رونمائی کرکے صداقت کی نئی نئی مہر لگارہی ہے اور آنے والا ہر دن اپنی نئی نئی کرنوں سے آنے والے مصنف اور سیرت نگار کے لیے نئی روشنی بخش رہا ہے اور ان کو آگے بڑھارہا ہے۔
اس عاجزانہ مضمون کا تعلق جناب محمدﷺ کی سیرت طیبہ کے صرف اس پہلو سے ہے کہ:
1۔حضورﷺ کی بعثت عمومی تھی اور آپﷺ کے ذمہ عالمی مشن کی عالمی دعوت کا فریضہ تھا۔
2۔ اور اس فریضہ کو آپﷺ نے اپنی رسالت کی زندگی کی اولین فرصت میں ایک دن کی بھی تاخیر کیے بغیر یا فرصت کے ایک لمحہ کو ضائع کیے بغیر کس خوبی اور احسن طریق سے انجام دیا۔ یعنی عالمی مشن کی عالمی دعوت کے لئے سلاطین کے نام آپﷺ نے خطوط لکھے اور سفراء روانہ کیے اور ایک مثالی عالمی نظام ترتیب دیا۔
چونکہ رسول اللہﷺ اور اسلامی نظام سفارت کا بنیادی مقصد صرف اسلامی تحریک کا فروغ اور اعلائے کلمۃ اللہ تھا، اس لیے حضورﷺ نے بہ نفس نفیس اور آپﷺ کے سفراء نے بلا خوف وخطر اور بلاتامل پورے وثوق اورکامل یقین کے ساتھ تحریک اسلامی کے داعی کی حیثیت سے فرائض سفارت انجام دئیے تھے۔ سفارت کا فریضہ انجام دینے میں تو کسی قسم کی کوتاہی کی اور نہ کسی قسم کی تنگی محسوس کی اور نہ ہی اس بات کی پرواہ کی کہ مخالفین اس کا کیسا استقبال کریں گے۔ وہ بگڑتے ہیں، مذاق اڑاتے ہیں، رخنہ اندازی کرتے ہیں یا دشمنی میں اور زیادہ سخت ہوتے ہیں، انہوں نے کسی بات کی پروا کیے بغیر پورے خلوص ،لگن اور محبت کے ساتھ اپنے مشن کی تکمیل اور اپنے مقصد کے حصول کے لئے کسی قسم کی سستی یا کمزوری کا اظہار نہیں ہونے دیا، بلکہ صحیح اور دو ٹوک بات کہہ کر اپنے موقف پر سختی سے عمل پیرا ہوئے۔ ان کی اس جرات ودلیری اور بے باکی پر اکثر اوقات دیگر حکومتیں حیران وشسدررہ جاتی تھیں۔ انہوںنے نہ تو کبھی بے جا خوشامدوچاپلوسی کی اور نہ ہی تحفے تحائف کا سہارا لے کر پر فریب عہد وپیمان کیے۔ بات مختصر مگر جامع ومانع ، انداز بیان ایسا جس میں صداقت و راست بازی کا بھرپور مظاہرہ ، طرز تکلم پروقار، متانت اور سنجیدگی کا عمدہ نمونہ گفتگو صاف اور واضح، ریا سے بالکل پاک اور منزہ، تاثیر ایسی کہ سیدھی دل پر اثر کرے۔
حضور اکرمﷺ نے سلاطین کے نام جو خطوط اور مکتوبات لکھے، ان سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ نے دنیا میں کس طرح کا ذہنی وفکری اور عملی انقلاب برپا کیا، انسانیت کی فلاح وبہبود کے لئے کیا کیا اصول وضع کیے، تمدن ومعاشرت کو کن راہوں پر ڈالا اور انسانیت کے فطری تقاضوں کی کس انداز سے تکمیل فرمائی۔ اس تعلیم کی بدولت دنیا کی ایک جاہل وپسماندہ عملی ، روحانی، اخلاقی اور سیاسی اعتبار سے سب سے زیادہ بالیدہ اور بالغ نظر قوم بن گئی اور ایک ایسا معاشرہ وجود میں آگیا جس میں خدا پرستی وحقوق شناسی، تقوی وپرہیز گاری اور نیکی وہمدردی کے جملہ اوصاف حسنہ بدرجہ اتم پائے جاتے تھے۔
چشم فلک نے انسانی تاریخ میں یہ حیرت انگیز انقلاب صرف ایک مرتبہ دیکھا ہے۔لیکن رسول اللہﷺ کی تعلیمات پر ،جن کی جھلک ان خطوط وفرامین میں بھی ملتی ہے، عالم انسانیت اگر صدق دل سے عمل پیرا ہوجائے تو یہ انقلاب بار دیگر بھی جلوہ گر ہوسکتا ہے۔ یہ خطوط انفرادی اور اجتماعی دونوں لحاظ سے اپنے اندر بڑی اہمیت اور ہمہ گیر افادیت رکھتے ہیں اورہرزمانے میں ہر فرد وبشر کے لئے مشعل راہ اور شمع ہدایت ہیں۔ یہ خطوط فصاحت وبلاغت کا انتہائی کمال ہیں کہ اتنے کم الفاظ سے اتنے وسیع معانی حاصل ہوں۔
سفراء کا انتخاب کرتے ہوئے رسول اکرمﷺ نے یہ احتیاط کی کہ ہر حکمران کی طرف اس کی زبان جاننے والا سفیر نامزد کرکے روانہ کیا اورہر حکمران کو مخاطب کرتے وقت اس کے مذہب اور اس کے مخصوص حالات کو پیش نظر رکھ کرمختلف عبارتیں تحریر کروائیں، آپﷺ کی تحریرات میں کمال درجے کا ایجاز ہے جو حضورﷺ کی سیاسی، بصیرت اور ذہنی برتری کی ایک اعلیٰ ترین دلیل ہے۔ آپﷺ نے جدید ڈپلومیسی سے کام لیتے ہوئے ایسے جچے تلے الفاظ استعمال کیے جن میں مدعا بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی اہمیت اورحیثیت کا اظہار بھی کردیا تاکہ ان فرماں روائوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ انکار اور اہمیت نہ دینے کی صورت میں کیا کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
اگرچہ حضورﷺ کے ہر پہلو پر تحقیق نگاروں اور مورخین کی لاتعداد تصنیفات وتالیفات کا ذخیرہ موجود ہے۔ جس میں محمد عربیﷺ(امی وابی فداہ) کی زندگی کے ہر گوشہ کو آفتاب وماہتاب کی طرح روشن کرکے رکھ دیا ہے۔ اس طرح سیرت طیبہ کے بین الاقوامی پہلو پر بھی دوسری صدی ہجری ہی سے الگ الگ کتابیں آنے لگی تھیں تاہم واقدی کی کتاب’’المغازی‘‘ کو اس سلسلہ کتب میں بلاخوف تردید اولیت کا مقام دیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے مختلف غزوات نبویﷺ کے سیاسی پس منظر اوران کے زیر اثر پیش آنے والے بین الاقوامی تعلقات کے بارے میں مفید اور قابل قدر معلومات جمع کی ہیں، بعد میں ہر زمانے کے اہل علم، سیرت کے اس پہلو سے بحث کرتے رہے ہیں۔ زمانہ حال کے مصنفین میں محترم جناب ڈاکٹر حمید اللہ نے جہاں سیرت نبویﷺ کے بہت سے گوشے بے نقاب کیے ہیں۔ وہاں انہوں نے سیرت کے بین الاقوامی پہلو کو بھی اپنی تحقیقات کا موضوع بنایا ہے۔