شہرکے عقبی حصہ میں مزدوروں کی بستی تھی اور اس بستی کے ایک تنگ و تاریک مکان میں شاکر علی اپنے چار بچوں اور بیوی کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ شہر کی ایک ٹکسٹائل مل میں کام کرتا تھا وہ بہت ہی سیدھا سادا، ایماندار اور شریف آدمی تھا۔ اسے شاہ تراب سے بڑی والہانہ عقیدت تھی۔ شاہ تراب کا مزار شہر کے آخری سرے پر تھا۔ وہ ان کے مزار پر ہر اتوار کو حاضری دینے جاتا تھا۔ جہاں اسے دلی مسرت اور روحانی سکون ملتا تھا۔ ایک چھوٹا سا مقفل صندوق ہمیشہ مزار کے قریب رکھا رہتا تھا جس میں وہ نذرانہ¿ عقیدت کے طور پر کچھ نہ کچھ ریز گاری ڈالنا نہ بھولتا ۔ اس جیسے کئی اور عقیدت مند اس میں پیسے ڈالا کرتے تھے۔ شاکر علی اپنے چھوٹے سے کنبہ کے ساتھ قناعت کی زندگی گزار رہا تھا۔ اس کی تین لڑکیاں اور ایک لڑکا تھا۔ سب سے بڑی لڑکی اپنی عمر کے سولہویں سال میں قدم رکھ رہی تھی اور سب سے چھوٹے لڑکے کی عمر پانچ سال تھی۔ تین لڑکیوں کے بعد جب اس کے گھر لڑکا پیدا ہوا تو وہ دن اس کی زندگی کا سب سے قیمتی دن تھا۔ وہ خوشی سے جھوم اٹھا اور والہانہ انداز ميں دوڑ کر شاہ تراب کے مزار پر جا کر سربسجود ہو گیا۔کيونکہ لڑکے کے لئے اس نے شاہ تراب کے مزار پر بڑی منتيں اور مراديں مانگی تھیں۔ وہ بیٹے کی پیدائش پر بہت ہی خوش تھا جسے وہ شاہ تراب کی ہی دین سمجھتا تھا۔ اب تو ان پر اس کا عقیدہ جم گیا تھا اور اپنی اس عقیدت سے مغلوب ہو کر اس نے اپنے بیٹے کا نام بھی تراب علی رکھ دیا۔ وہ بیٹے کی خوشی میں اپنے آپ کو بھی بھول چکا تھا کیونکہ وہ اس کی تمام تر خوشیوں کا مرکز جو تھا۔ لیکن ایک دن بلقیس نے اسے اس کی خوشیوں کے خول سے يہ کہ کر باہر نکلنے پر مجبور کر دیا۔
”جمیلہ! اپنی بلقيس بيٹی اب سیانی ہو گئی ہے۔ کچھ سوچا تم نے؟“
”یہی ایک فکر تو مجھے کھائے جا رہی ہے۔ گھر میں ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں۔ جمیلہ نے فکر مند لہجے میں کہا۔
”تو کیوں فکر کرتی ہے۔ شاہ تراب ہيں نا! ہمارے لئے کوئی نہ کوئی راستہ نکال ہی لیں گے۔“
اس نے جمیلہ کو تسلی دیتے ہوئے کہا اور پھر خاموشی سے لیٹ گیا۔
جمیلہ نے پر امید نظروں سے اس کی طرف دیکھا اور اندر ہی اندر مسکرا کر رہ گئی اورشاکر علی اپنے دل پر اعتماد اور عقیدت کا غلاف لپیٹ کر سو گیا ۔
اُدھرلیبر یونین اور مل کی انتظامیہ کے درمیان مزدوروں کے مطالبات پر ایک ماہ سے جاری بات چیت کا سلسلہ بالآخر ٹوٹ گيا اور اس کے نتیجے میں مل کی انتظامیہ نے تالہ بندی کا اعلان کر دیا۔ جس سے ساری مزدور بستی میں ہل چل مچ گئی کیونکہ یہ ان کے لئے ایک چیلنج تھا۔ شاکر علی بوجھل قدموں سے گھر میں داخل ہوا تو اس کی بیوی نے پریشان کن لہجے میں اس سے پوچھا۔
”اب کیا ہو گا؟“
”ہونا کیا ہے جمیلہ! مزدوروں کی زندگی میں تو ایسے مرحلے آتے رہتے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔“
”لیکن کون جانے یہ تالہ بندی کب تک چلے ۔ اگر ایک دو مہینے یہی حال رہا تو ہمارے لئے جینا اورمشكل ہو جائے گا۔“
جمیلہ کے لہجے میں گہری تشویش اور تردد تھا۔
”شاہ تراب سے کیوں مایوس ہوتی ہے پگلی! وہ ہمارے لئے کوئی نہ کوئی بندوبست کر ہی دیں گے۔“
اس نے اپنی بیوی کو شاہ تراب کا نام لے کر ايک بار پھر تسلی دی۔
مل میں تالہ بندی کے بعد شاہ تراب کے مزار پر روزانہ حاضری دینا اس کا معمول بن گیا تھا۔ شام ہوتے ہی وہ مزار پر پہنچ جاتا اور صبح گھر واپس آتا۔ وہ ان سے دل کی گہرائیوں سے التجائیں کرتا کہ تالہ بندی جلد ختم ہو اور ان کو پریشانی سے نجات ملے لیکن تالہ بندی کا سلسلہ طول پکڑ گےا۔اب زندگی کی تیز دھوپ میں پتھریلی زمین پر دوڑنا اس کے لئے ناممکن ہوتا جا رہا تھا۔ اسے محسوس ہونے لگا کہ زندہ رہنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا اور پھر اس نے شہر کی دوسری ملوں کے چکر کاٹنے شروع کر دیے لیکن اس کی تمام تر کوششیں بے کار ثابت ہوئیں۔ وہ تھک ہار کر لوٹتا اور خاموشی سے لیٹ جاتا اور اس کی بیوی آہستہ سے کوئی چیز اٹھاکر بازار چلی جاتی اور وہ ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے وہ بیوی کوصرف دیکھتا رہتا۔ ایک دن یہ سلسلہ بھی بند ہو گیا۔ کیونکہ گھراب ہر چیز سے بے نیاز ہو چکا تھا۔ بڑی کوشش کے بعد جمیلہ کو ایک بڑے گھر میں نوکری مل گئی۔ اس سے ان کو تھوڑا بہت سہارا نصیب ہوا لیکن یہ سلسلہ بھی کچھ زیادہ عرصہ نہیں چل سکا۔ اب تو زندگی ان کے لئے بوجھ بنتی جا رہی تھی۔ بھوک اور فاقہ کشی کی آگ تيز سے تیز تر ہوتی جا رہی تھی۔ مزدوری کی تلاش میں دن بھر بھٹکنے کے بعد لڑکھڑاتا ہوا وہ گھر داخل ہوا تو اس کا سر چکرا کے رہ گیا۔ اس کے بچوں کے سامنے ڈھیر سارے روٹی کے ٹکڑے پڑے ہوئے تھے اور وہ ان پر اس طرح ٹوٹ پڑے تھے جیسے کئی بھوکے کتے روٹی کے ایک ٹکڑے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ وہ اس دلخراش منظر کو دیکھ کرزمین پر بیٹھ گیا۔ اس کی بیوی آنچل میں منہ چھپا کر رونے لگی۔ کیا یہی دن دیکھنا رہ گیا تھا جمیلہ! اس نے کراہ کر کہا اورپھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ بچے بھی کھانا چھوڑ کر رونے لگے۔
”رو نہیں! بیٹا رو نہیں! کھاﺅ! روٹی کھاﺅ! تم بھوکے ہو نا! تم بھوکے ہو نا! “
اس نے بچوں کو بھینچ لیا اور ان کے آنسو پونچھتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے انھیں کھلانے لگا۔
اس رات جب وہ شاہ تراب کے مزار پر پہنچا تو بے اختیار اس کے آنسو نکل پڑے۔ رات کی خاموشی میں اس کے رونے کی آواز دور دور تک سنائی دے رہی تھی۔ آنسوﺅں سے اس کا دامن بھیگ گیا۔ بجلی کی تیز روشنی کے باوجود اسے مزار دھندلا دھندلا سا دکھائی دے رہا تھا۔
”شاہ بابا بتاﺅ! اب میں کیا کروں۔ میرے معصوم بچے بھیک مانگنے لگے ہیں۔“
اس کے حلق میں کانٹے پڑ گئے اور زبان خشک ہو گئی۔ وہ کچھ دیر تک ٹکٹکی باندھے مزار کو چپ چاپ دیکھتا رہا۔ چاروں طرف قبرستان کی سی خاموشی تھی۔ وہ احاطہ مزار میںبہت دیر تک اسی طرح کھڑا رہا۔ خاموش ساکت و جامد۔ پھر اچانک اس کی نظر مزار کے سرہانے رکھے ہوئے اس صندوق پر پڑی جس میں اس نے اپنی کمائی کے نہ جانے کتنے پیسے ڈالے تھے۔