پاکستان کی سیاست کے اپنے ہی ڈھنگ ہیں۔ فوجی حکومت ہو یا سول حکومت، اس میں عوام کی سیاست کی بجائے اقتدار کی سیاست کا ہی راج ہوتا ہے۔ گو سول حکومتیں جمہوریت کے ادوار میں عوام کا ذکر اپنے بیانات اور خطابات میں بڑے زور سے کرتی ہیں، لیکن عملاً سول حکومتیں بھی اقتدار میں داخل ہونے اور رہنے کے لیے عوام پر انحصار کم اور ’’طاقت کے مراکز‘‘ کی سرپرستی کے ہی خواہاں رہتی ہیں، طاقت کے مراکز مقامی ہوں یا بیرونی۔ سیاست کے ان تضادات کو جس قدر آصف علی زرداری سمجھے ہیں، شاید ہی کوئی اور قومی رہنما اس قدر سمجھ پایا۔ وہ یہ راز جان گئے ہیں کہ اقتدار میں آنا کیسے ہے اور پھر اقتدار میں رہنا کیسے ہے۔ اور اُن کو یہ فن بھی آتا ہے کہ آج کیا کہنا ہے اور کیا نہیں کہنا۔ چند سال قبل جب ان کی پارٹی کی حکومت کے بعد میاں نواز شریف اقتدار کے سنگھاسن پر سجے تو انہوں نے شعوری طور پر یہ بیان دیا کہ بلاّ آئے گا اور دودھ پی جائے گا۔ مقصد، سیاست کے بحر میں لہروں کی شدت کو دیکھنا تھا کہ اس بیان کا ردِعمل کیا ہوگا۔ انہوں نے ردِعمل دیکھا اور تقریباً تین سال آرام سے بیرون ملک گزار دئیے۔ لوگ باتیں کرتے رہے، پارٹی ختم ہوگئی، یہ ہوگیا وہ ہوگیا، لیکن خوش نصیب آصف علی زرداری کی سرپرستی میں پاکستان کے دوسرے بڑے صوبے سندھ میں حکومت چلتی رہی، ایوانِ بالا میں اکثریت اور قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی تمام ’’اقتداری سہولیات‘‘ سے بھی مستفید ہوتے رہے۔ اس دوران عمران خان مظاہرے، احتجاج اور دھرنے برپا کرتے رہے جبکہ شریف برادران حکومت اور حکومتی کارکردگیاں دکھانے میں مصروف رہے۔ سیاست میں ذرا سا مختلف ٹچ دینے کے لیے انہوں نے اپنے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کو کچھ عرصے کے لیے فری ہینڈ دیا اور یوں پارٹی کے اندر جدوجہد، نظریہ، فکر اور عوامی سیاست کا خواب دیکھنے والے اس نوجوان کے اندر لوگ بے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو تلاش کرنے لگے۔ لیکن گزشتہ دسمبر میں انہوں نے گڑھی خدا بخش بھٹو میں بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر تقریر کرکے اس سارے منظرنامے کو بدل ڈالا کہ پارٹی دوبارہ عوامی جدوجہد کی بنیاد پر سیاسی اور اقتدار کی طاقت حاصل کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ میں آپ کو خوش خبری دینا چاہتا ہوں کہ آئندہ بلاول اور میں اسمبلی میں ہوں گے۔ کیا یہ خوش خبری تھی؟ یقینا عوامی جدوجہد کرنے والوں کے لیے خبر بلکہ وارننگ تھی۔ اس میں خبر صرف یہ تھی کہ میں اب قومی اسمبلی میں جائوں گا۔ اور پھر تصور کریں کہ آصف علی زرداری کا بیٹا بھلا وہاں کچھ کرنے کی جرأت کرسکے گا جہاں اُن کے والد لیڈ کررہے ہوں گے۔ یہ تقریر پارٹی لائن تھی اور اس پر انہوں نے عمل شروع کردیا۔ وہ اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہونے کے لیے عوامی جدوجہد سے زیادہ ’’محلات سے تعلقات‘‘ پر یقین رکھتے ہیں۔
تین روز قبل جب میں نے پی پی پی کے ایک اہم رہنما کو یہ تجزیہ سنایا تو وہ میرے بیان پر سوالیہ انداز میں مسکرائے اور کہا، تو وہ محلاتی سازشوں کے ذریعے اقتدار میں آنے کی تیاریاں کررہے ہیں۔ جی ہاں!میں نے کہا۔ لاہور میں دو روز قبل پارٹی کے ایک رہنما کے ہاں آصف علی زرداری نے اپنی اس سیاست کی تصدیق کردی ہے جو راقم کا تجزیہ ہے اور اس حوالے سے 31جنوری 2017ء کو انہی صفحات پر شائع شدہ میرا کالم’’2018ء کے انتخابات، کون لے گا بازی؟‘‘ دوبارہ پڑھا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ کیسے اقتدار میں آنے کے لیے مصروفِ عمل ہوگئے ہیں۔ عمران خان کریں احتجاج اور شریف برادران کی حکومتی کارکردگیاں دکھلائیں، سابق صدرکے نزدیک یہ دونوں کام غیراہم ہیں۔ اُن کو واشنگٹن اور راولپنڈی کی فیصلہ کن طاقت کا علم ہے۔ اور وہ دوسرے قومی رہنمائوں سے کہیں زیادہ وفادار ثابت ہوسکتے ہیں اور طاقت کے مراکز اُن کی وفاداری پر زیادہ یقین کریں گے بلکہ تابعداری پر۔ ہاں یہ ممکن نہیں کہ آپ فاروق لغاری کی ملت پارٹی یا ڈاکٹر طاہرالقادری کی پاکستان عوامی تحریک کے پلیٹ فارم سے قومی اسمبلی کی ایک دو نشستیں لے کر ایسا خواب دیکھیں۔ آصف علی زرداری کے خواب کے لیے پی پی پی جیسی جماعت ہی اقتدار کے در کھول سکتی ہے۔ اسی مقصد کے لیے انہوں نے پنجاب میں Electable سیاست کا پرچم بلند کردیا ہے۔ راقم کی اطلاعات کے مطابق وہ قومی اسمبلی میں 70 سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے کی تگ ودو میں ہیں جوکہ پی پی پی کے لیے مشکل نہیں۔ سندھ میں مکمل کامیابی، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں Electables کو اپنی پارٹی کا پلیٹ فارم دے کر وہ اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔
انہوں نے لاہور کے پارٹی رہنما کے گھر لاہور اور پنجاب میں آئندہ انتخابات کے دوران بہتر نتائج حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے اور اس تقریب کے بعد انہوں نے لاہور ہی میں ڈویژن کی سطح پر ٹکٹ ہولڈرز اور دیگر رہنمائوں سے مسلسل ایک ہفتہ میٹنگز کرنی ہیں۔ فیصل صالح حیات، خالد کھرل اور ایسے دیگر لوگوں کی پارٹی میں واپسی کو نظریاتی سیاست کی واپسی قرار دینے والے کتنے بھولے ہیں۔ ایسے لوگوں کی واپسی دراصل انتخابات جیتنے والوں کی واپسی ہے اور ہم دیکھیں گے کہ اگلے انتخابات تک آصف علی زرداری ایسے کئی انتخابی رہنمائوں کو پارٹی میں شامل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ بس پھر ذرا تصور کریں قومی اسمبلی میں 70 سے زیادہ سیٹوں پر بیٹھنے والوں کے قائد آصف علی زرداری کیا کریں گے۔ کیا وہ اپوزیشن میں بیٹھیں گے؟ کیا آصف علی زرداری لیڈر آف اپوزیشن بننے کے لیے یہ ساری تگ ودو کررہے ہیں۔ ہرگزنہیں! میں پچھلے کئی ماہ سے مستقبل کے اس Scenarioکو پیش کررہا ہوں۔ میرے تجزیہ نگار دوست حیران ہوجاتے ہیں، جبکہ پی پی پی کے ہمدردان خوش اور کئی لوگ میرے تجزیے کو پی پی پی کی طرف جھکائو قرار دیتے ہیں۔ میرا اخبار مجھے میرے الفاظ کی اجرت دیتا ہے اور میرا قلم میرے تجزیے کو کاغذ پر مرتب کرتا ہے۔ اور معذرت کے ساتھ تجزیہ وہ ہے جو مستقبل کے بارے میں کیا جائے۔ برپا ہوئے واقعات یہ تجزیے نہیں درحقیقت رپوتاژ لکھے جاتے ہیں۔ بس راقم یہ عرض کرنا چاہتا ہے ، عمران خان اور شریف برادران اس سیاست کا مقابلہ کر پائیں گے اور کیا وہ آصف علی زرداری کے خوابوں اور منصوبوں کو نابود کرنے میں کامیاب ہو پائیں گے۔ راقم کا تجزیہ ہے کہ شاید نہیں۔ 2018ء کے انتخابات کا سب سے بڑا Beneficiary آصف علی زرداری ہوگا۔ اور پھر دیکھیں کیا ہوگا۔