آپ ریشم کے کیڑے سے ریشم لے بھی لیں تو اس سے وہ ہنر نہیں لے سکتے جس سے وہ ریشم بناتا ہے۔ آپ ریشم لینے کے بعد بھی اس کے محتاج ہیں۔ یہ محتاجی ہی آپ کی کمزوری اور اس کی طاقت ہے۔ کیڑے سے ریشم چھیننے، خریدنے یا ادھار لینے سے بہتر ہے آپ اس کا مشاہدہ کریں اور اس سے وہ فن لیں جس سے وہ ریشم بناتا ہے، تو یہ آپ کی محتاجی ہمیشہ کے لیے ختم کردےگا۔ کیڑے سے فن لینے کے بعد آپ اپنے بہت سارے بچوں کو ریشم بنانے پہ لگا سکتے ہیں اور اگر آپ کے بچے فارغ پھر رہے تھے تو یہ ہنر سیکھنے اور ریشم بنانے سے ان کی فرسٹریشن ختم ہو جائے گی۔ اگر آپ نے ریشم سے کمائی دولت سب میں عادلانہ بنیادوں پہ تقسیم کر دی تو پھر آپ کی لیڈرشپ کو بھی کوئی چیلنج نہیں کرے گا۔
اگر اس مثال کو ہم اچھی طرح سے سمجھ لیں تو بین الاقوامی پراڈکٹس کی پیداواری صلاحیتوں کو حاصل کرکے اپنے سماج کے انتشار کو ختم کر سکتے ہیں۔
معاشرتی انتشار دولت یا وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہی شروع ہوتا ہے، خاص طور پہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں بنیادی مذہبی سوچ ایک ہے وہاں وسائل کی عدم دستیابی اور موجود وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم عدم اعتماد کو جنم دیتی ہے۔
موجودہ قومی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم تو بلاشبہ ہو رہی ہے اور ہمارے بہت سارے دانشور اس پہ پریشان ہیں اور بحث و مباحثہ بھی چل رہا ہے۔ لیکن میرے نزدیک اس سے بھی سخت اور پریشان کن بات یہ ہے کہ ہم زمانے کی بدلتی چال کے حساب سے نئے وسائل کو تلاش بھی نہیں کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے موجود وسائل کی ویلیو کم ہوتی جاتی جا رہی ہے۔
مثلاً الیکڑانک اور باقی جدید کیجٹ آنے کے بعد بین الاقوامی سطح پہ زراعت کے شعبے سے لوگوں کو ہٹانے اور جدید شعبہ جات میں ڈالنے کے لیے زراعت کی پراڈکس کی قیمت کم کر دی جاتی ہے۔ اب پاکستان جیسے ملک پہ بھی وہ اثر پڑتا ہے جہاں پہ اکثریت کسانوں کی ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی قیادت ان تبدیلیوں کے برپا ہونے سے پہلے ان کو بھانپتی اور اس کے مطابق اپنا ایکشن پلان بناتی، جس سے جدید پراڈکس بھی ہمارے ملک میں بننا شروع ہو جاتیں اور ہمارہ کسان اور کنزیومر بھی متاثر نہ ہوتے۔
اب ہمارے حکمران مارے مارے پھرتے ہیں اور کوئی بین الاقوامی کمپنی ملک میں بزنس نہیں کھولنا چاہتی، جس سے جدید پراڈکس لوکل لیول پہ بننا شروع ہو جائیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہےِ کہ بین الاقوامی کمپنیاں پاکستان میں اپنے پلانٹ نہیں لگاتی ہیں جب کہ چین جو کہ امریکہ کا اندر سے دشمن ہے، پھر بھی سرمایہ دار اور مغربی مملالک کی کمپنیاں وہاں پلانٹ لگاتی ہیں؟
اگرچہ کمپنیاں اپنے ملکوں کے سیاسی نظام کے تابع ہی کام کرتی ہیں، لیکن اگر کسی ملک پہ معاشی پابندیاں نہیں تو پھر بھی کمپنیاں اس ملک میں نہیں آتی، تو اس کی وجوہات کحچھ اور ہیں۔ کمپنی کی ہجرت یا انویسٹمنٹ کی مثال ایک شخص کی ہجرت جیسی ہے۔ مثلاً ایک پڑھا لکھا امن پسند نوجوان ان معاشروں میں جا کر رہنا پسند کرتا ہے جہاں اس کو امن، رہنے کے جگہ اور ذہنی تحفظ ملتا ہے۔ بے شک اس سے کام زیادہ ہی کیوں نہ لیا جائے۔ کمپنیاں بھی اپنا پیسہ اور ٹیکنالوجی وہاں لگاتی ہیں جہاں ان کو تحفظ ملتا ہے۔
قومی امن، سکون،اعتماد، اخلاق، اور معاشرتی آسانیوں کی مثال ایسے ہے جیسے شہد کا چھتہ۔ جب تک چھتہ نہیں بنے گا، شہد نہیں بنے گا۔ اب اگر سیاسی نظام امن، سکون، اخلاق، اور معاشرتی آسانیاں پیدا نہیں کرتا تو پھر یہاں کے پڑھے لکھے نوجوان یہاں سے بھاگ جائیں گے، بجائے اس کے کہ دوسرے کلچر کی کمپنی یہاں آئے اور ہمیں کما کردئے۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں یہ مشہور کر دیا گیا ہے کہ ہمارے مسلمان ہونے کی وجہ سے لوگ ہم سے تجارت اور ہمارے ملک میں ٹکنالوجی نہیں لگانا چاہتے، یہ الزام کسی حد تک تو صحیح ہے، لیکن یہ کوئی بڑا فیکڑ نہیں ہماری معاشی پسماندگی میں، اصل رکاوٹ ہمارہے حکمرانوں کی سوچ ہے جس کی وجہ سے یہاں انتشار پھیلا ہوا ہے، اور ہمارے اپنے نوجوان بھی چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں بجائے اس کے کوئی اور یہاں آکر کام کرے۔