ہماراجرم یہ نہیں کہ ہم مسلمان ہیں، ہماراجرم فقط ’’جرم ضعیفی‘‘ہےاس لیے ستائے جارہے ہیں
کمزوری ،ناتوانی اورضعیفی سب سے بڑی سزاہے ،یہ بیماریاں قومی سطح پرلاحق ہوجائیں توپوری قوم اس کی سزاجھیلتی ہے ۔ہم مسلمان آج اسی جرم ضعیفی کی سزاکے شکارہیں۔ہم پرہونے والے حملے ،قتل و غار ت گری ،ناانصافیاں اورظلم وتشدداس کے عام مظاہرہیں ۔ابھی چنددنوں قبل راجستھان کےالورنامی ضلع میں ایک بزرگ مسلمان کومارمارکرہلاک کر دیا گیا ۔نام ہنادگئورکشک ا س کے دیگر ساتھیوں کوزندہ جلانے والے تھے مگروہ کسی طرح وہاں سے نکل بھاگے۔آج وہ زخمی ہیں اوراسپتال میں زیرعلاج ہیں ۔اس بزرگ مسلمان کی ہول ناک پٹائی کی ویڈیونے پورے ملک میں کہرام مچارکھاہے مگر حکومت پرجوں نہیں رینگ رہی ہے اوررینگ بھی نہیں سکتی کیوں کہ کمزوراورضعیفی کی شکارقوم کچھ نہیں کرسکتی۔ ہم ملک میں محض ۲۰فیصدہیں اوربرادران وطن ۸۰فیصد۔حکومتیں ہماری وجہ سے انہیں ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتیں ۔ہمارے احتجاجوں اورمظاہروں سے بھی کوئی فائدہ نہیں ،ہاں طاقت ور مظاہروں سے وقتی طورپرتوتھوڑی بہت روک لگ سکتی ہے۔ہم نے چوں کہ اب تک ملک میں باعزت طریقے سے رہنے کاہنرجاناہی نہیں اس لیے اب یہ یقین کرلیناچاہیے اس طرح کے واقعات رکنے والے نہیں ہیں،یہ ہوتے رہیں گے اورہم ہمیشہ وقتی طورپراحتجاج کرکے کُڑ ھتے رہیں گے ۔ہمیں اس فطری اصول کو جاننا چاہیے کہ مظلومی ،ضعیفی اورکمزوری بہت بڑی سزا ہےاوراس کاانجام موت ہے ۔یہ جوکچھ ہورہاہے یہ ہماری کمزوری کی سزا ہے اوریہ اس وقت تک ہوتارہے گاجب تک ہم کمزوربنیں رہیں گے کیوں کہ کمزوری اور ضعیفی کی سزاسوائے موت کے کچھ اورنہیں ہوتی ۔ اقبال برسوں پہلے ہی کہہ گئے ہیں
تقدیرکے قاضی کا فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
ہماراکوئی اورجرم نہیں بس یہی ضعیفی کا جرم ہے جس نے ہمیں یہاں تک پہنچایاہے اورآگے نہ جانے کہاں تک پہنچائے گامگربدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے ابھی تک اپنامزاج نہیں بدلاہے ۔برسوں سے نہ جانے کتنے دردمندافرادقوم کو جگاتے جگاتے خودہمیشہ کی نیندسوگئے مگرہم نہ جاگے اورشایداب بھی ہمارے جاگنے کاوقت نہیں آیا۔اب شایدہمیںکسی بڑے طوفان کاانتظارہے ۔مسئلہ یہ نہیں کہ عوام نہیں چاہتے۔عوام چاہتے ہیں کہ وہ ان حالات کے جبرسے نکلیںاور امن وامان کی فضامیں سانس لیں مگرہمارے بڑے نہیں چاہتے۔وہی متحدنہیں ہیں ،سب کی اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجدہے ،اپنے اپنے حلقے ہیں ،اپنے اپنے گروپ ہیں ۔ یہ ان کوہی عزت واحترام دیتے ہیں جوان کے گروپ کاہوتاہے اورجوان کے گروپ کانہ ہوپھروہ چاہے کیسی بھی بلندی پرفائزہو،عزت واحترام سے محروم رہتاہے ۔اس لیے یہ نوٹ کرلیجیے کہ جب تک بڑوں کا مزاج نہیں بدلے گا تب تک کچھ بھی نہیں بدلے گا۔ہمارے نوجوانوں پرحملے ہوتے رہیں گے ،ہم جیلوں میں ٹھونسے جاتے رہیں گے ،فسادات کرائے جاتے رہیں گے اورہم کچھ دنچیخ و پکار کرکے خاموش بیٹھ جائیں گے ۔
میرے احباب مجھ پرالزام لگاتے ہیں کہ میں اپنی تحریروں میںمسلمانوںاورمولویوں کوبہت کوستاہوں۔مجھے سمجھ میں نہیں آتاکہ کروںتوکیاکرو ؟ ایک دردمندانسان اپنوں سے شکوہ نہ کرے توکس کرے ،اپنے دل کی بِپتا انہیں نہ سنائے توکسے سنائے ۔حالات نے اس رخ پرہمیں لاپھینکاہے کہ کوسناپڑرہاہے۔ ہمارے مسلمان بھائی تخریب کاربرادران وطن کی شدت پسندیوں اوراذیت رسانیوں پرشکوہ کناںہیں ۔شکوہ بجاہے مگراب اطمینا ن رکھیے کہ وہ اب یہی کریں گے کیو ںکہ آرایس ایس ۱۹۲۴سے لگاتاران کی ذہنی تربیت کرتی آرہی ہے ، نصاب تعلیم کے ذریعے ان کے بچوں کومسلمانوں سے نفرت ہی سکھائی جارہی ہے ۔ ممبئی کے کئی اسکولوں میں آرایس ایس کے ارکان بچوں کی بغیرفیس کے تربیت کرتے ہیں ۔ اسکولوں کی انتظامیہ نے اسکولوں میں باقاعدہ طورپرایک کلاس شروع کردی ہے جس میں آر ایس ایس کے ارکان کے ذریعے بچوں کی تربیت کرائی جاتی ہے۔ ممبئی ہی کیابلکہ پورے ملک میں آج یہی ہورہاہے ،بچوںکے اذہان مسموم کیے جارہے ہیں اس لیے مستقبل میں اس طرح کےحملوںمیں کمی کی توقع بالکل مت رکھیے اوریہ بھی ذہن سے نکال ہی دیجیے کہ آپ کو ہر معاملے میں آئین ہندکے مطابق انصاف دیاجائے گا۔
ایک طرف یہ تشویش ناک صورت حال ہے اوردوسری طرف مسلمان ہرجگہ سے ہزیمت اٹھانے کے باوجودابھی تک مسلکوں میں ہی بٹے ہوئے ہیں ۔ہمارامرشدہی ہمارے لیے سب کچھ ہے ۔اسلام کی تعلیمات سے زیادہ معاذاللہ ہمیں اپنے پیروں کی تعلیمات سے محبت ہے ۔کم ازکم عملاًتوہم یہی ثابت کرتے آرہے ہیںاوربے توفیق پیرومرشدکوبھی یہ توفیق نہیں ہوتی کہ وہ اپنے مریدوں اورعقیدت مندوں کوصحیح راستہ دکھائے ۔ وہ وہی راستہ دکھاتاہے جواس کے مفادکی راہ سے ہوکرگزرتاہے، الاماشاء اللہ ۔ایک اوربڑی اہم بات،ہمارے مقررین ،محررین ومصنفین خوش ہیں کہ وہ تقریریںکرکے اور تحریریں لکھ کراپنی ذمے داری پوری کر رہے ہیں ۔وہ کبھی غورہی نہیں کرتے کہ ان تقریروں کا اثر کتنا ہوا۔سامنے بیٹھی بھیڑسے اندازہ لگالیناکہ سب ان کے عقیدت مندہیں سوائے حماقت کے کچھ اورنہیں۔ ہمارے محررین ومصنفین خودہی لکھتے ہیں ،خودہی چھاپتے ہیں ،خودہی پڑھتے ہیں اورخودہی خوش ہو جاتے ہیں اوراتنی گہری خوش فہمی میں گرتے چلے جاتے ہیں کہ لگتاہے سارازمانہ ان کے جھنڈے تلے اکھٹا ہو چکا ہے اوروہ نہایت ہی معروف ومقبول ہوچکے ہیں۔کیاانہوںنے کبھی سروے کیاکہ جس کے لیے لکھاجارہاہے وہ ان کاپیغام پڑھ رہے ہیںیانہیں،اثرقبول کررہے ہیںیانہیں؟زمینی کام نہ کرکے محض لفاظی کے سہارے اپنی دوکان چمکاناشایدآج ہماراقومی مزاج بن چکاہے اس لیے چاہے ہم بڑے ہوںیاچھوٹے ہمیں اعتراف کرناچاہیے کہ ہم احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں ۔جب کہ دوسری طرف دیکھیے ،ان کے یہاں زمینی سطح پرکام کرنے والوں کی زبردست بھیڑہے ،جونام ونمودکے بغیرعوام الناس کی ذہن سازی کرتےہیں،زمین پراترکرکام کرتے ہیں اوراس کانتیجہ بھی حاصل کرتےہیں۔اس کی سب سے بڑی مثال یوپی کاالیکشن اورآج کی یوگی حکومت ہے ۔
ہم بہت جذباتی قوم ہیں ،ماناکہ ہماری جذباتیت کے پیچھے گہرے حقائق ہیں مگریادرکھیے جذباتیت کام بگاڑتی ہے۔ہم سوچتے ہیں کہ ہندوستان ہماراملک ہے ہمارےآبانے یہا ںآٹھ سوسالوں تک حکمرانی کی ہے،یہا ںہمارے آبادفن ہیں اس لیے ہم جوچاہیں گے کریں گے ۔غیرقانونی سلاٹرہائوسوں کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ لاقانونیت کے نام پرصرف ہم پرہی کیوں کارروائی ہورہی ہے ،اوربھی تولوگ غیرقانونی کام کرتے ہیں،بہت سارے شعبوں میں بدعنوانیاں ہورہی ہیں اورغیرقانونی کام کیے جارہے ہیں ،حکومت کوصرف مسلمان ہی کیوں نظرآتے ہیں؟اس معاملے میں ہمارےبعض مسلمان بھائی ضدپکڑلیتے ہیں مگروہ یہ نہیں دیکھتے کہ ان کاسب سے بڑاجرم صرف اورصرف ضعیفی ہے ۔ہماراجرم یہ نہیں کہ ہم مسلمان ہیں ہماراجرم صرف اورصرف ضعیفی ،کمزوری ہے ،ناتوانی ہے ۔جب تک اس ’’جرم ضعیفی ‘‘سے نہیں نکلیں گے تب تک’’مرگ مفاجات‘‘کی تلوارہم پرلٹکتی رہے گی۔ہم اس وقت ماضی میں نہیں حال میں جی رہے ہیںاس لیے ہمیں ماضی کاحوالہ دینے کے بجائے اب حال کے مطابق قدم آگے بڑھاناہوگا۔ ماضی میں ہم ’’جرم ضعیفی ‘‘کے شکارنہیں تھے لیکن اب ہیں ،یہ حقیقت ہمیں تسلیم کرنی ہی ہوگی۔
معاف کیجیے گا،میں مسلمانو ںکوڈرانہیں رہاہوں بلکہ ایک تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کررہاہوں ۔ اعدادودشمارنکال کردیکھ لیجیے ،جوں جوں وقت گزرتاجارہاہے مسلمانوں سے نفرت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ،نہ وہ پہلے جیسی یک جہتی رہی،نہ ہی محبت ۔ہم یہ سوچ کراکثرمطمئن ہوجاتے ہیں کہ ملک کے ۸۰فیصدہندوآج بھی امن وامان کوپسندکرتے ہیں اورہم سے ہمدردی رکھتےہیں صرف ۲۰فیصدہندوہی ملک میں فرقہ وارنہ ماحول پیداکرتے ہیں ۔یقیناً بات یہی ہے مگریہ بھی سچ ہے کہ وہ لوگ بھی محض افسوس کرکے رہ جاتے ہیں لیکن ووٹ فرقہ پرستوں کوہی دیتے ہیں تویہ کیسی ہمدردی ہے اورکیسی یک جہتی ۔اس لیے یہ سوچ کرمطمئن مت بیٹھیےبلکہ اب اپنے مستقبل کی فکرکیجیے ۔اپنی لڑائی خودلڑیے ،دوسروں پرتکیہ مت کیجیے ۔جب تک ہم مضبوط نہیں ہوجاتے تب تک اسی طرح کے حملوں اورواقعات کے لیے پہلے سے تیار رہنا چاہیے ۔اگرہم ان حالات سے نکلنے کے لیے ابھی سے کوئی مضبوط منصوبہ بندی کرلیتے ہیں توکم ازکم پچیس سال کے بعدہمیںراحت کی سانس لینی نصیب ہوسکتی ہے مگراس کامطلب یہ بھی نہیں ہم ظلم سہتے رہیں ،روتے رہیں ،مرتے رہیں ،نہیں،ہرگزنہیں ۔وقتی طورپرہمیںاپنے دفاع کے لیے احتجاج اور مظاہرے بھی کرنے ہوں گے ،اپنے حقوق کی آوازبھی بلندکرنی ہوگی ،اوربھی جوکچھ کرسکتےہیں کرناہوگالیکن یہ خیال رہے کہ یہ احتجاج ،مظاہرے ،جلوس ،نعرے بازی ،دائمی حل نہیں ہیں ،یہ وقتی حل ہیں، جب ان کااثرختم ہوجائے گاتوپھرپوری شدت کے ساتھ حملہ آورہم پرآدھمکیںگے ۔تجربات نے ہم پریہ بھی واضح کر دیاہے کہ قائدین کے پاس ہمارے لیے وقت نہیں ہے ،اس لیے اب ہم انفرادی طورپرحسب بساط چھوٹے چھوٹے کام کریں۔اپنی گلی ،اپنے محلوں ، قصبوں اورشہروںمیں اپنے ہم خیال دردمندلوگوں کوایک ساتھ لیں ،چھوٹی چھوٹی منصوبہ بندی کریں ،تعلیمی اورقانونی طورپرلیس ہونے کی تیاری کریں اورباقی کاکام اللہ پرچھوڑدیں۔اگرہم اپنی منصوبہ بندیوںکے اثرات نہیں دیکھ سکے توہمارے بچے ضرور ان شاء اللہ اس سے مستفیدہوں گے ۔