“ِاس ٹوک سَے مَنا آٹھ بندے کااٹے ایں”
ٹوکے کے دستے پر سے جمے ہوئے خون کی تہہ کو ناخنوں سے کھرچتے ہوئے اس نے کہا۔
“آٹھ!!”
غلام محمد نے خوف سے جھرجھری لی۔
“ہاں، آٹھ”
“آج والّے کی تو بس لاتاں ای کاٹی، مَنا تو چودھری صاب سَے کیہا تھا کہ اس کا بِی قصہ کھتم کردو۔ پر چودھری صاب نَے پتا نی کیوں ترَس کھا لَیا سَورے پے، مجا نی آیا کُھدا کی قسم”
آخری جملہ اس نے قدرے بیزاری سے کہا تھا۔
غلام محمد نے حیرت اور خوف کی ملی جلی کیفیت سے اس کی طرف دیکھا۔ اپنے “اوزار” صافے میں لپیٹ کر ایک طرف رکھنے کے بعد وہ اب وہ اپنی قمیض کی طرف متوجہ تھا ، شدید گرمی کے موسم کے باعث موٹی کھدر کا کُرتا اس کی کمر سے چپکا ہوا تھا، جسے وہ وقفے وقفے سے کمر سے کھینچ کر الگ کر کررہا تھا۔ مسلسل یہ عمل کرتے رہنے سے تنگ آکر کرتا اتارنے کے ارادے سے اس کا ہاتھ کمر کی طرف بڑھا ہی تھا کہ پنکھے کی مخصوص گڑگڑاہٹ اس کے کانوں میں گونجی۔
“اِب آ گی سالّی ، مارے واسطے تو یَو بجلی عذاب بنّ گی اے”
اکتاہٹ اس کے لہجے سے صاف عیاں تھی۔
چھت پر لگا گہرے سبز رنگ کا پنکھا کچھ دیر گڑگڑانے اور ہچکولے کھانے کے بعد اب قدرے غیر متزلزل انداز میں چل رہا تھا۔ غلام محمد بھی کھڑکی کی طرف سے اٹھ کر پنکھے کے نیچے موجود چارپائی پر آ بیٹھا تھا، لیکن اس کا تجسس ابھی تک قائم تھا۔
“اچھا چودھری صاب نے دتّے کی صرف لاتیں کیوں کٹوائی؟”
“اِب مَنا کیا پتا گامے، چودھری صاب نَے کیہا کہ لاتاں کاٹنی ، مَنا کاٹ دی، باجُو کہتے وہ کاٹ دیتے۔ اپنا تو ایک اصول ہے گامے، بڑے لوگاں کے کاماں میں ٹانگ نی اڑائوپ بس۔”
“دِتّا بچ تو جائے گا؟”
غلام محمد نے پھر سوال کیا۔۔
“منا لاتاں کاٹی ایں اُس کی، گردن نیئ کاٹی، کیا فضول باتاں کرے ہے گامے۔۔”
غلام محمد کی ابھی بھی تشفی نہیں ہوئی۔
“ویسے دِتے کا چودھری صاب سے معاملہ کیا تھا نذیرے؟”
نذیرے کو اس کی باتوں سے الجھن ہونے لگی تھی۔ غلام محمد کی بات کا جواب دینے کی بجائے اس نے اپنی پنڈلی کھجانے کو ترجیح دی، اس کو متوجہ نہ پا کر غلام محمد نے دوبارہ سوال داغا۔
“ہیں نذیرے ؟ چودھری صاب کی دِتے۔۔۔۔۔۔”
“تیری ماں کی۔۔۔۔۔۔۔ ، دِتّا، دِتّا،دِتا۔۔تیں سالا لگے دِتے کا !”
نذیرے نے اسے گردن سے دبوچا تھا۔غلام محمد اس کی گرفت سے نکلنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا اور اسے اپنے قابو میں کرنے کے لیے نذیرامسلسل اس کی گردن پر بوجھ بڑھا رہا تھا۔
“اِب کرے گا سوال؟”
“نیئ کروں گا”
غلام محمد کے حلق سے گٹھی گھٹی آواز برآمد ہوئی۔
“نیئتیں کر سوال۔ تَنا پتا نی ابی، تیرے سے پہلے جو بندہ تھا یاں، او بِی یونہی سوال کَرے تھا، یونہی گردن تڑوائی تھی چودھری صاب نے اس کی۔”
“اب نیئ کروں گا”
غلام محمد نےسانس کھینچتے ہوئے کہا۔
نذیرے نے اسے ایک طرف کو دھکا دیا اور قمیض جھاڑ کر کہیں جانے کی تیاری کرنے لگا۔ دم گھٹنے سے غلام محمد کی آنکھیں باہر کو نکل آئیں تھیں اور وہ ہانپ رہا تھا۔
“دماخ کھا لِیا سالے نے، یَو باتاں جا کہ چودھری سَے پوچھ، جات کا مراثی اور باتاں یوں پوچَھے جیسَے تھانیدار کی کرسی سَے اٹھ کے آیا او۔”
نذیرا بدستور غصہ میں تھا۔
“جا ، جا کے چودھری سے کہہ، منا تھوڑے پیسے چاہیے کل صبح، تے چودھری سے کہہ دیویں، دِتّے کا کام سوہنا ہو گیا، ار جے تَنا ایندہ کے بعد اس طراں کی باتاں پوچھیں ، اِسی ٹوکے سَے تیری جِیب کاٹوں گا۔۔”
سافے میں لپٹے ہوئے ٹوکے سے غلام محمد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ دروازے سے باہر نکل گیا۔
نذیرے کا اصل نام تو نذیر تھا لیکن سب اسے نذیرا اوڈو کے نام سے ہی جانتے تھے۔اوسط قدو قامت کا انسان ہونے کے باوجود لوگ اس سے خوف کھاتے تھے۔ درمیانہ قد، شانوں اور جبڑوں کی ہڈیاں باہر کو نکلی ہوئی، اندر کو پچکے ہوئے گال، باہر کو نکلے ہوئے اس کے لمبے لمبے ہونٹ، جنہیں چھپانے کے لیے اس نے سندھ کے باسیوں کی طرز کی ڈاڑھی اور مونچھیں رکھی ہوئی تھی۔ گرمی ہو یا سردی، موٹی کھدر کا کرتا اس کا پسندیدہ لباس تھا۔ اپنی شباہت اور قد کاٹھ سے وہ کہیں سے بھی خوفناک اور بارعب نہیں لگتا تھا مگر اس کے باجود اس کا دبدبہ لوگوں پر قائم تھا۔
چودھری کے ڈیرے سے نکلتے ہوئے اس نے اردگرد کا مکمل جائزہ لینے کے بعد اپنے گھر جانے کا فیصلہ کیا۔۔
نذیرے کا گھر چودھری کے ڈیرے سے قریباً دو میل کے فاصلے پر تھا، فوجی چھاؤنی کی بغل میں بڑے پل کے نیچے خانہ بدوشوں کی بستی آج سے 40 سال پہلے قائم ہوئی تھی ، جو کہ شروع میں چند کپڑے کی جھونپڑیوں پر مشتمل تھی۔ اب یہ بستی ایک مکمل آبادی میں تبدیل ہو چکی تھی، جھونپڑیوں کی جگہ اب کچے پکے مکانوں نے لے لی تھی۔ چند معزیزینِ شہر کی چاکری کی وساطت سے اب وہاں باقاعدہ بجلی کے کھمبے لگ چکے تھے اور کچی گلیوں کی جگہ پکی گلیوں اور پکی نالیوں نے لے لی تھی۔ان معززین کے اس بستی میں مسلسل چکر لگتے رہتے تھے کیوں کہ یہ بستی اوراس کے مکین شہر میں ان معززین کی آسودگی کا باقاعدہ زریعہ تھے۔بستی کی زمین اب بھی ریلوے کی ہی ملکیت تھی۔ ریلوے لائن کے بالکل کنارے پر واقع ہونے کی وجہ سے رات کو گزرنے والی ریل گاڑیوں کی تھرتھراہٹ اور چنگھاڑ سے پوری بستی لرزنے لگتی اور بستی کے لوگ جنجھلاتے ہوئے اٹھتے، گاڑی کو چند غلیظ گالیاں بکتے اور اگلی گاڑی کے آنے تک پھر سو رہتے ۔۔ بستی کے زیادہ تر لوگوں کا پیشہ اب بھی گداگری ہی تھا مگر چند گھرانوں میں بیٹیوں کی کثرت نے ان گھرانوں اور بستی پر آسانی کے در کھول دیے تھے۔ ،نذیرے کا باپ بڑے چودھری صاب کا ملازم تھا، مگر وہ بھی ہمیشہ رات کی تاریکی میں ہی گھر آیا کرتا تھا۔ اپنے بچپن کے دس سالوں میں نذیرے نے اسے دن میں کبھی گھر آتے نہیں دیکھا تھا، اس کا باپ چودھری صاب کے ڈیرے پر کیا کام کرتا تھا، یہ کسی کو معلوم نہ تھا۔
پھر ایک شام جب اس کے باپ کی لاش بڑے اصطبل کے پاس کے کھیتوں سے ملی تو شاید اس بستی میں نذیرے کا وہ آخری دن تھا۔ باپ کی موت کا نذیرے پر کوئی خاص اثرنہیںہوا تھا، کیونکہ باپ کی اہمیت اس کے لیے رات کے اندھیرے میں بستی میں آنے والے دوسرے اجنبی لوگوں سے کچھ زیادہ نہ تھی۔ باپ کی موت کے بعد بڑے چودھری صاب نے نذیرے اور اس کی والدہ کو اپنے ڈیرے پر رکھ لیا۔ بڑے چودھری صاب کچھ عرصے بعد انتقال کر گئے تو ان کی جگہ ان کے بیٹے نے سنبھال لی، اب چھوٹے صاب علاقے کے نئے چودھری کے طور پر جانے جاتے تھے۔۔
چودھراہٹ سنبھالنے کے کچھ عرصہ بعد نئے چودھری صاب نے نذیرے کو اپنے پاس بلایا۔ تب نذیرے کی عمر کوئی سولہ سال کے لگ بھگ ہوگی ۔ دیگی لوہے کے بنا ہوا ایک ٹوکہ نذیرے کو دکھاتے ہوئے چودھری صاب نے اس سے پوچھا تھا:
“نذیرے معلوم ہے اس سے کیا کرتے ہیں؟”
جی چودھری صاب، گوست بناویں اس سے”
نذیرے نے گھبراتے ہوئے جواب دیا تھا
“گوست!! “
چودھری صاب نے ایک فلک شگاف قہقہہ لگایا۔
“گوست ہی تو بنانا ہے نذیرے! جیسے تیرا باپ بناتا تھا،اب تُو بنائے گا، بندہ تو بڑے کام کا تھا پر حرام خور نکلا، مارنا پڑ گیا۔ اب اس کا کام تُو نے کرنا ہے”
اس کے ہاتھ میں ٹوکہ تھماتے ہوئے چودھری صاب نے کہا ۔
اس دن نذیرے کو معلوم ہوا کہ اس کا باپ بڑے چودھری صاب کے لیے کیا کام کرتا تھا، اور وہ کیوں مارا گیا تھا، مگر اسے اس چیز قطعاً کوئی پرواہ نہ تھی ۔
اب اُسے چودھری صاب کے ساتھ کام کرتے ہوئے بارہ سال ہو چکے تھے۔ اس دوران اس نے آٹھ لوگ اس ٹوکے سے قتل کیے تھے اور نہ جانے کتنے ہی لوگوں کو ان کے ہاتھوں، بازؤوں اور ٹانگوں سے محروم کر چکا تھا۔
چودھری صاب علاقے کے جاگیردار ہونے کے ساتھ ساتھ اسمبلی کے ممبر بھی تھے۔ لہٰذا جب کبھی نذیرا اندر ہوا، چودھری صاب کے تعلقات کی بدولت کچھ ہی عرصے بعدوہ دوبارہ اپنے کام پر آ موجود ہوتا۔ مگر پچھلے قتل کے بعد سے نذیرا روپوش تھا۔ چودھری صاب کے تعلقات کے سبب اسے یقین تھا کہ اسے زیادہ عرصہ جیل میں نہیں رہنا پڑے گا۔ اسی اعتماد کے تحت اس نے دن دہاڑے چودھری صاب کے ایک مخالف کو ٹھکانے لگایا تو چودھری صاب نے اسے روپوش ہونے کا حکم دیا اور عوامی طور پر نذیرے سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا۔
نذیرا تب سے روپوش تھا لیکن اس روپوشی کی حالت میں بھی وہ چودھری صاب کے لیے ہی کام کر رہا تھا۔
اب اسے ڈیرے سے اپنے گھر تک جانے کا چیلنج درپیش تھا، کیونکہ کسی بھی حالت میں اسے ڈیرے سے باہر نہ نکلنے کی سخت ہدایات تھیں۔
نذیرے کی شادی چودھری صاب نے اپنے ہی ایک ملازم کی بیٹی سے کر دی تھی اور تب نذیرا واپس اپنے باپ کے مکان میں منتقل ہو گیا تھا ۔ اپنے والد کی طرح اس کا بھی ایک ہی بیٹا تھا جو کہ عمر کے ساتویں سال میں تھا لیکن اپنے والد کے برعکس اسے اپنے بیٹے سے بہت زیادہ لگاؤ تھا اور اس کی خواہش تھی کہ وہ بڑا ہو کر نذیرا نہ بنے ۔ اسی وجہ سے وہ اسے ڈیرے پر لے جانے سے گریز کرتا تھا۔
پچھلے قتل کے بعد سے اب تک اسے اپنے گھر گئے کئی مہینے بیت چکے تھے۔بالآخر بیٹے اور بیوی کی محبت سے مجبور ہو کر اس نے چودھری صاب کے حکم کی خلاف ورزی کر کے اپنے گھر جانے کا خطرہ مول لیا ۔
باہر نکل کر اس نے ادھر ادھر دیکھا اور کسی کو موجود نہ پا کر ڈیرے کی دیوار کے ساتھ ساتھ چلنا شروع کر دیا۔
سہہ پہر ڈھلتے ہی گرمی کا زور کافی حد تک ٹوٹ گیا تھا اور غلام محمد شام کی بیٹھک کے لیے ڈیرے میں پانی کا چھڑکاؤ کرنے کے بعد چارپائیوں پر تکیے درست کر رہا تھا کہ اسے حویلی سے چودھری صاب آتے دکھائی دیے۔
“نذیرا نظر نہیں آ رہا”
چودھری صاب نے آتے ہی پوچھا۔
“وہ تو دوپہر سے باہر نکلا ہے چودھری صاب، ابھی واپس نہیں آیا”
“باہر۔۔۔۔؟”
چودھری صاب کی تیوری پر بل نمودار ہوئے۔
“باہر کہاں۔۔۔۔؟”
“پتا نہیں چودھری صاب، مجھے تو کچھ بتا کر نہیں گیا”
“میں نے اسے منع کیا تھا باہر نکلنے سے، اسے سمجھ نہیں آتی میری بات؟”
چودھری صاب اب سخت غصہ میں تھے۔
“پتا نئی چودھری صاب!”
“حرام خور! لگتا ہے اُسے سمجھ نہیں آئی میری بات۔ اس سے پہلے کہ اس کی حرام خوریاں بڑھیں، اس کا علاج کرنا پڑے گا ۔”
“چودھری صاب وہ پیسوں کا کہہ رہا تھا۔”
ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے گالوں پر پڑا۔
“بھونک حرام خور، دوبارہ بھونک یہ۔”
چودھری صاب باقاعدہ دھاڑے۔۔
“اس کا تو بندوبست کرتا ہوں میں آج۔۔”
چودھری صاب نے ایک ٹھڈا غلام محمد کو مارا اور غصے سے بڑبڑاتے ہوئے اندر چلے گئے۔
شام ڈھلتے ہی نذیرے نے واپس ڈیرے پر جانے کی تیاری پکڑی اور تیز تیز قدموں سے ڈیرے کہ طرف چلنے لگا۔ ابھی اس نے گلی سے نکل کر ڈیرے کی طرف جانے والی پگڈنڈی پر پاؤں رکھا ہی تھا کہ سامنے موجود کیکر کے درخت کے نیچے اسےغلام محمد کھڑا دکھائی دیا۔ وہ تیز قدموں سے اس کی طرف بڑھا، شام تقریبا پھیل چکی تھی اور شام کی سرخی اب تاریکی میں تبدیل ہو رہی تھی۔
“تیں کِس واسطے آیا یاں؟”
نذیرے نے آتے ہی اسے گریبان سے پکڑ لیا۔
“جاسوسی کر را تھا میری؟۔۔۔ہیں؟”
نذیرے نے اسے جنجھوڑتے ہو کہا۔
“نہیں تو!
مجے تو چودھری صاب نے بھیجا ہے کہ نذیرے کو پغارم دے کہ بڑے پُل کے نیچے اللہ رکھا تیرا انتظار کر رہاہے۔ اُس سے اَبی جا کے مل، بڑا ضروری کام ہے۔”
“بڑے پل کے نیچے؟ “
نذیرا بڑبڑایا۔
“ہاں بڑے پل کے نیچے،”
“اچھا ٹھیک اے ، تیں مَنا یَو بتا کہ میرا پغام دیا تھا چودھری صاب کو؟”
“ہاں دے دیا تھا”
غلام محمد نے کپڑے جھاڑتے ہوئے کہا
“چل ٹھیک اے، ٹھیک اے، چودھری صاب سَے کہہ دیئیں کہ چھورے واسطے سائیکل لینی ای۔ سَورے نَے آج بھی سائکل سائکل کی رٹ لگا رکھی تھی۔”
“ٹھیک ہے کہہ دوں گا۔”
نذیرا واپس مڑا اور دوبارہ گلی میں داخل ہو گیا۔ پل کے اوپر سے گزرتی ہوئی گاڑیوں کی روشنیاں دور سے بڑی بھلی معلوم ہو رہی تھیں۔ گلی میں کھیلتے چند بچوں کے سوا کوئی نہ تھا۔ گلی آرام سے پار کرنے کے بعد وہ اب بستی کے باہر کھڑا تھا۔ بستی کے اختتام پر جنگلی سرکنڈوں کا بڑا سا جھنڈ تھا جس کے اندر اور اردگرد بستی کی نالیوں کا پانی جمع رہتا تھا جو کہ ان سرکنڈوں کی نشونما کا واحد ذریعہ بھی تھا۔ سرکنڈوں سے پرے شہر کا بڑا پُل تھا اور پُل سے پرے فوجی چھاؤنی کی باڑتھی جہاں سے مٹی کے دو بڑے بڑے ٹیلے صاف نظر آتے تھے، جہاں اکرں اوقات فوجی جوان اپنی ٹریننگ کرتے نظر آتے تھے۔۔
پل کے نیچے کافی اندھیرا تھا، مگر چھاؤنی کی باڑ کے ساتھ لگی لائٹوں کی ہلکی ہلکی روشنی وہاں تک پہنچ رہی تھی جس سے پل کے نیچے کا منظر کچھ کچھ واضح ہو رہا تھا، رکّھے (اللہ رکھا )کا ابھی تک وہاں کوئی نام و نشان نہیں تھا ۔
“یَو سورّا کہاں رہ گیا!”
پل کے نیچے پڑے ہوئے سیمنٹ کے سلیپر پر بیٹھ کر وہ بڑبڑایا ۔
اچانک اسے محسوس ہوا کہ اس کے علاوہ بھی وہاں کوئی موجود ہے، سلیپر پر بیٹھے بیٹھے اس نے پھر سے آواز لگائی،
“رکّھے۔۔۔۔۔؟ “
کوئی جواب نہ پا کر وہ اٹھنے ہی لگا تھا کہ پُل کے ستونوں کی اوٹ سے دو بندوقیں اس کی طرف لپکیں ۔ وہ ابھی ٹھیک سےکھڑا بھی نہیں ہوا تھا کہ آن کی آن میں بندوقوں سے نکلتی گولیوں نے اسے کھڑا ہونے کا موقع بھی نہ دیا۔ خون میں لَت پَت جسم اور رُکتی سانسوں کے ساتھ اُس نے نظر اٹھا کر دیکھا ۔ پُل کے بڑے بڑے ستون اسے ہلتے نظر آ رہے تھے، ویسے ہی جیسے پل کے نیچے سے گزرنے والی ریل گاڑی کی تھرتھراہٹ سے اُس کے گھر کی دیواریں ہلا کرتی تھیں۔ درد کی شدت سے اس نے آنکھیں بند کر لیں۔
اچانک سے چودھری کا ہنستا ہوا چہرہ اس کے سامنے آگیا اور چودھری کے الفاظ اس کے کانوں میں گونجنے لگے۔
“بندہ تو بڑا کام کا تھا ، پر حرام خور نکلا، مارنا پڑ گیا۔”
اس نے ایک طویل ہچکی لی۔
“حرام خور ، حرام خور ، حرام خور”
درد کی شدت سے اس کی سانس اٹکنے لگی تھی، خون کا فوارہ کھانسی کی صورت میں اس کے منہ سے برآمد ہوا اور اس کے ہونٹوں اور داڑھی کو رنگین کرتا اس کے کرتے میں جذب ہو گیا۔
اس کی آنکھوں کے سامنے خون آلود ، کٹے پھٹے جسموں کی بھرمار تھی اور انہی جسموں کے درمیان اس کے باپ کا کٹا پھٹا جسم بھی موجود تھا۔
“حرام خور، حرام خور، حرام خور۔۔”
اس نے آنکھیں کھول لیں،خون رالوں کی صورت میں اس کے ہونٹوں کے کونوں سے بہہ رہا تھا، ایک گھٹی گُھٹی ہچکی اس کے حلق سے برآمد ہوئی،
“حرام خور۔۔۔۔۔ چودھری ۔۔۔۔۔سالا مادر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!”
اگلے دن پورے شہر میں نذیرے کے پولیس مقابلے میں مارے جانے کی خبر کا چرچا تھا، چودھری صاب نے نذیرے کے مارے جانے پر پولیس ٹیم کے لیے انعام کا اعلان کیا اور نذیرے کے بیٹے کی کفالت کا ذمہ لیتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ نذیرے کےبرعکس جدید تعلیم کے ذریعے نذیرے کے بیٹے کو ایک معزز شہری بنائیں گے، اس کے ساتھ ساتھ نذیرے کی بیوہ کی کفالت کا بھی اعلان کیا گیا۔
“چودھری صاب، یہ سادی تلیم اور جدید تلیم میں کیا فرق ہے؟”
اُسی شام غلام محمد نے چودھری صاب کے پاؤں دباتے ہوئے ان سے پوچھا۔
چودھری صاب کا قہقہ فضا میں بلند ہوا، اور ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوتے ہوئے وہ بولے۔
“گامے! تُو بھی اللہ میاں کی مجّ ہے
سن!
نذیرے کے باپ نے ٹوکہ چلایا!
پھر نذیرے نے ٹوکہ چلایا!۔۔۔۔۔۔
وہ تھی سادی تعلیم ،
اب ہے نیا زمانہ!
اب نذیرے کا پُتر صرف ٹوکا تو نہیں چلائے گا نا”
دور کہیں کوئل کی کوک چودھری صاب کے قہقہوں میں دب گئی تھی