• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
حکمران طبقات کا تصادم اور جمود — تحریر: فرخ سہیل گوئندیحکمران طبقات کا تصادم اور جمود — تحریر: فرخ سہیل گوئندیحکمران طبقات کا تصادم اور جمود — تحریر: فرخ سہیل گوئندیحکمران طبقات کا تصادم اور جمود — تحریر: فرخ سہیل گوئندی
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

حکمران طبقات کا تصادم اور جمود — تحریر: فرخ سہیل گوئندی

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • حکمران طبقات کا تصادم اور جمود — تحریر: فرخ سہیل گوئندی
توہم پرستی — تحریر: رضوان غنی
مئی 4, 2017
دورِ حاضر اور ذہنی غلامی
مئی 6, 2017
Show all

حکمران طبقات کا تصادم اور جمود — تحریر: فرخ سہیل گوئندی

پوری قوم پانامہ کیس کے فیصلے کے انتظار میں تھی۔ خصوصاً وہ لوگ جنہوں نے 2013ء میں پہلی مرتبہ ایک سیاسی جماعت کے طور پر قومی اسمبلی میں اتنی بڑی تعداد میں منتخب ہونے کا اعزاز حاصل کیا، یعنی پاکستان تحریک انصاف، اس کے ووٹرز، اس جماعت کی قیادت اور اس جماعت سے وابستہ عام لوگ۔ اس جماعت سے وابستہ ہونے والے لوگوں نے اس جماعت کو ’’تبدیلی آگئی ہے‘‘ کے لیے ووٹ دیا۔ یعنی اُن کی جماعت شان دار فتح لینے پر یقین رکھتی ہے۔ پاکستان کی سیاست میں خوش نصیب کہلائی جانے والی یہ جماعت جب ووٹوں کے ذریعے اسمبلیوں میں پہنچ گئی تو اس کا تضاد اس وقت کھل کر سامنے آگیا جب انہوں نے ووٹوں سے تبدیلی کی بجائے احتجاج کے ذریعے نظام کو پلٹنا چاہا۔ دھرنے اسی حکمت عملی کا سرفہرست منصوبہ تھا اور دھرنوں کے نتیجے میں ’’ایمپائر کی انگلی کے اشارے‘‘سے امیدیں۔ جب اس منصوبہ بندی میں کامیابی نہ ہوئی تو مزید احتجاجی حکمت عملی کا آغاز ہوا اور آخرکار گیند سپریم کورٹ میں داخل کرکے کہاگیا کہ ہم سپریم کورٹ کے فیصلے پر اعتماد کریں گے۔ سپریم کورٹ سے پاکستان کی تبدیلی کی خواہش رکھنے والے عوام، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے پانامہ کیس کو انقلاب سے تعبیر کرنا شروع کردیا۔ کہ اگر میاں نوازشریف اور اُن کے بچوں کے خلاف فیصلہ آگیا تو قانونی انصاف اور سماجی انصاف کی ندیاں بہ جائیں گی۔ سپریم کورٹ نے بھی فیصلہ پاکستان کے تضاداتی مزاج کے عین مطابق دیا جس میں عدالت سے امیدیں لگانے والے دونوں طبقات کی تسلی کے سامان پیدا ہوئے، کہ جائو! اپنے اپنے حق کا فیصلہ قبول کرلو۔ عمران خان کے لوگوں نے بھی مٹھائی تقسیم کی اور کھائی اور نوازشریف کے لوگوں نے بھی۔
یہاں قارئین سے عرض ہے ۔ اسے کہتے ہیں حکمران طبقات کی لڑائی، جس کے کچھ اصول اور حدود ہوتے ہیں۔ وہ اس سطح تک ہی جاتے ہیں، جہاں عوام کے مفادات حاصل ہونے کے امکانات پیدا ہوجانے کا اندیشہ ہو۔ دنیا کی تاریخ بھری پڑی ہے کہ حکمران طبقات کی باہم لڑائیوں سے ، اسی لیے اس کی حدود ہوتی ہیں، وہ ان کو کبھی پار نہیں کرتے۔ اگر اُن کا تصادم حتمی یا فیصلہ کن ہوجائے تو عوامی طبقات کا مفاد شروع ہو جاتا ہے۔ اسی لیے مجھ جیسے ہوا کے مخالف چلنے والے لوگ کبھی حکمران طبقات کی باہم لڑائی سے عوامی طبقات کے ثمرات کے منتظر نہیں ہوتے۔ سپریم کورٹ جیسے ادارے انہی طبقات کا مجموعی طور پر تحفظ کرتے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ سپریم کورٹ اور دیگر عدالتی نظام پاکستان کے 67فیصد کسانوں کے آئین میں طے کردہ حقوق پر خوداختیار کردہ حق استعمال کرکے ان کے حق میں فیصلہ دے دے؟ اگر ایسا ہوجائے تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ دریائے کابل کا گدلا پانی اور دریائے سندھ کا نیلا پانی اٹک کے مقام پر کس طرح گھل مل جاتا ہے۔ دو مختلف رنگوں کا پانی اس مقام پر واضح طور پر علیحدہ علیحدہ نظر آتا ہے اور پھر باہم مل جاتا ہے۔ایسے ہی ہمارے حکمران طبقات اور حکمرانی کے ریاستی ادارے فیصلہ کن مقام پر گھل مل جاتے ہیں۔ کبھی عمران خان، آصف علی زرداری یا نوازشریف کو آپ نے پاکستان کے محنت کشوں، کسانوں کے لیے ایک دوسرے کے خلاف گندی زبان استعمال کرتے دیکھا؟ نہیں۔ لڑائی حکمرانی کی ہے، عوام کی نہیں۔ اسے ایک طبقہ گڈ گورننس کہتا ہے تو دوسرا بری گورننس۔ سپریم کورٹ نے کیا دلچسپ فیصلہ سنایا ہے۔ یہ فیصلہ پاکستان کی سیاست، حکمرانی اور ریاست کی Dynamics کو سمجھنے میں صدیوں یاد رکھا جائے گا۔ وزیراعظم مجرم بھی ہے اور ملزم بھی۔ وزیراعظم بری بھی ہوگیا اور مجرم بھی ٹھہرا۔ یہ بات اگر عمران خان کے حامیوں کی سمجھ میں آجائے تو انقلاب ہے، مگر وہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ پاکستان کی وہ اکثریت جو اس انتخابی عمل میں شامل ہوتی ہے، وہ ان انتخابات سے یورپ بلکہ سکینڈے نیوین جمہوریت جیسے ثمرات کی امیدیں رکھتی ہے۔ اس جمہوریت کی بُنت ہی مختلف ہے، یورپی اور سکینڈے نیوین جمہوریت کی بنیاد اور اساس ہی مختلف ہے۔ اگر ان لوگوں کو مثال دیکھنی ہے تو بھارتی جمہوریت سے لیں۔ اور یہ دونوں ریاستیں، پاکستان اور بھارت، ایک ہی جمہوری بطن سے نکلی ہیں۔ لارڈ کرزن کی ایک کلونیل ریاست ، جو عوام کو ایک طے کردہ جمہوری ڈھانچے میں Concession دیتی ہیں۔ دونوں ریاستیں آج بھی اسی 1935ء کے ایکٹ کے تحت چل رہی ہیں۔ آقا بھی نہیں بدلے، یہ بھی ایک تصور ہی ہے کہ آقا بدل گئے۔ وہی آقا ہیں جو 1947ء سے پہلے تھے۔ درحقیقت آقائوں کے بڑے آقا چلے گئے۔ بھارتی جمہوریت جسے مغرب کے حکمران Largest Democracy قرار دیتے ہیں، وہ حقیقت میں Largest Poverty of the World ہے، جہاں اسمبلیوں سے حکمرانی کے ایوانوں تک قاتل، ڈاکو اور مافیا کا راج ہے۔ وہ جمہوریت جو ’’تسلسل‘‘ کے باوجود بھارت کی عوام کی قسمت نہیں بدل سکی۔ آج بھی بھارتی جمہوریت یا ریاست، دنیا کی سب سے بڑی غربت، جہالت اور بیماری کا گڑھ ہے۔
ہمارے ہاں جو آج کل ’’جمہوریت کے تسلسل‘‘ کی دانش عام کررہے ہیں، دو دہائیاں قبل وہ فوجی آمروں کو اسلام کی نشاۃِ ثانیہ قرار دیتے تھے۔ اس لیے کہ آج ان کو یہ ’’جمہوری تسلسل‘‘ سوٹ کرتا ہے۔ ذرا ٹھنڈے دل سے موازنہ کریں پاکستان کا بھارت سے جہاں جمہوریت کا تسلسل ہے، جو دنیا کی بڑی معیشت تو بن گیا، G20 میں اہم رکن، BRICKS جیسی معیشت رکھنے والی ریاست، ٹیکنالوجی میں بھی آگے۔سوال یہ ہے کہ پھر عوام کیوں نہیں بدلے۔ حالاںکہ وہاں جمہوریت کا مسلسل تسلسل ہے۔ ہم برطانوی کلونیل جمہوریت اور کلونیل ریاستی ڈھانچے میں جی رہے ہیں جوکہ بنا ہی حکمران طبقات کے لیے ہے، اوراس میں یورپ جیسی جمہوریتوں کی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ پاکستان کا یہ سماج اور ریاست کبھی بھی عوام کی زندگیاں نہیں بدل سکتے۔ حکمرانی کے تصادم میں انہی حکمران طبقات میں سے لوگ برآمد ہوں گے۔ ممکن ہے کہ آپ مجھے آئیڈیلسٹ قرار دیں، لیکن زمینی حقائق یہی ہیں۔ ایک شخص ذوالفقار علی بھٹو نے بدلنا چاہا، اسے سولی پر لٹکا دیا گیا، اس کا جرم یہ تھا کہ وہ پیدا حکمران طبقے میں ہوا اور سیاسی اتحاد عوامی طبقات سے کرلیا۔ پھر اس پر تضاد یہ کہ اپنی ہی جماعت، جس کے بَل پر وہ سماج اور ریاست کو عوامی بنانا چاہتا تھا، اسی میں اُس نے اُن طبقات کو فیصلہ کن قائدانہ کردار دے دیا جن کے خلاف اس نے جدوجہد کا اعلان کر رکھا تھا۔ اور پھر اس تجربے میں اسے تختہ دار پر چڑھا دیا گیا کہ اس نے اپنے طبقے سے بغاوت کی تھی۔ خود انہوں نے اپنی کتاب میں اس تجربے کی ناکامی کا اعتراف کیا۔
تو ذرا غور کریں، نوازشریف، شہبازشریف، عمران خان اور اس کے رفیق کار، آصف علی زرداری، اسفند یار ولی اور ایسے دیگر لوگ بھلا اپنے طبقے کے خلاف حتمی بغاوت کے لیے کبھی لڑیں گے؟ نہیں! لڑائی کی حدود طے ہیں۔ اگر لڑائی بڑھی تو بھلا عوام کا ہوگا۔ اسی لیے ’’جمہوریت کا تسلسل‘‘ رہنا چاہیے، یہ اس جمہوریت اور حکمران طبقات کا عنوانِ سیاست ہے۔

مناظر: 222
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جون 13, 2022

عمران خان کا یہ قصور کم نہیں تھا!


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ