انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کے خطاب سے نوازا اور باقی مخلوقات سے زیادہ عزت حضرت انسان کو دی ۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’و لقد کرمنا بنی آدم‘‘ ترجمہ اور ہم نے بنی آدم (انسان) کو عزت دی۔ اور زمین کو انسان کے لیے مسخر کر دیا اور اس کے وسائل و ذخائر کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے کے لیے انسان کو عقل و شعور جیسی نعمت عطاء کی اور یہی وہ بنیادی وصف ہے جو انسان کو باقی مخلوقات سے ممتاز کرتا ہے اور اسی بناء پر انسان کو شریعت کا مکلف بنا دیا۔ چنانچہ انسان نے اپنی عقل اور شعور کی بنیاد پر کافی ترقی کی ، بہت ساری ایجادات کیں، اور باقی لوگوں نے ان ایجادات سے فائدہ اٹھایا۔ لیکن انسانوں کاایک گروہ ایسا پیدا ہوا جس نے عقل جیسی نعمت کو غلط مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کردیاجس کا نتیجہ ظلم اور استبداد نکلا۔ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ انسان نے انسان پر جتنے ظلم کیے ہیں ان میں سب سے بڑا ظلم انسان کو غلام بنانے کا ہے۔ دور قدیم ہی سے انسان کو غلام بنانے کا رواج رہا ہے۔
غلامی کیا چیز ہے؟ غلامی ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جس انسان کے پاس زندگی کے زیادہ ترامورسرانجام دینے میں یا مختلف فیصلہ جات کرنے میں خود مختار نہ ہو، بلکہ یہ اختیار کسی اور کے ہاتھ میں ہو، اور اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارتا ہو۔
بنیادی طور پر غلامی کی دو اقسام ہیں ۔ 1 جسمانی غلامی ۔ 2 ۔ ذہنی غلامی
جسمانی غلامی میں ایک انسان یا ایک گروہ مختلف ذرائع سے دوسرے انسانوں کے جسم پر کنٹرول حاصل کر کے اسے اپنا قیدی بنا لے تو یہ جسمانی غلامی کہلاتی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کوئی کسی کو اغوا کر کے یا جنگ میں قید کر کے اپنا غلام بنا لے۔ اس کے برعکس جب کوئی شخص /گروہ /قوم نفسیاتی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے دوسرے انسانوں کو اپنے ہی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے ذہنی غلام کہا جاتا ہے۔ قدیم زمانے میں غلاموں کے ساتھ جانوروں جیسا یا جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا تھا اور غلاموں کی گردنوں میں زنجیروں کے طوق ڈال کر باندھ دیے جاتے تھے ( اٹالین فلم گوڈبائی انکل ٹوم میں جسمانی غلامی کو ، اور غلاموں کے ساتھ کیے گئے مظالم کو کافی وضاحت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے)۔ ابتدائی ادوار میں جسمانی غلاموں سے مختلف کام کروائے جاتے مثلاً گھر کے کام کاج، زراعت و کھیتی باڑی، کان کنی وغیرہ ۔ صنعتی دور شروع ہونے کے بعد انسان کو بھی مشین کی طرح استعمال کیا۔
صنعتی دور میں مشین سے پیدا ہونے والی مصنوعات کو دوسرے ممالک میں فروحت کرنے اور وہاں پر مستقل مارکیٹس قائم کرنے کے لیے طاغوتی قوتوں نے تیسری دنیا کے ممالک پر قبضہ کرنا شروع کیا اور وہاں پر اپنی کالونیاں بنا کر غریب اقوام کو غلام بنا لیا۔ پھر اپنے کارخانوں کو خام مال مہیا کرنے کے لیے ان ممالک کے وسائل کو لوٹنا شروع کیا اور وہاں کے لوگوں پر ٹیکسوں کے بوجھ ڈال کر لاغر کر دیا۔ ان کی ایک مثال ہندوستان کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی ہے ۔ 78 -1876 جنوبی ہندوستان میں قحط کی وجہ سے لگ بھگ 70 لاکھ لوگ مر گئے تھے لیکن انگریز اس زمانے میں بھی ہندوستان سے غلہ برآمد کرتے رہے۔ بنگال جو ہندوستان کا خوشحال ترین علاقہ تھا، میں قحط کی وجہ سے ایک کروڑ لوگ لقمہ اجل بن گئے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد اُس دور کے سامراج ، برطانیہ نے غلام ممالک کو علامتی آزادی دی اور وہاں کے آلہ کار لوگوں کو سرمایہ دار اور جاگیردار بنا کر حکومتیں ان کے حوالے کر دیں،اور ان ممالک میں غلامی کے ایک نئے دور کا آغاز شروع کر دیا اس غلامی کو ذہنی یا نفسیاتی غلامی کہتے ہیں ۔ غلامی کے اس دور میں عام انسان کو یہ سمجھ نہیں آتا کہ آ یا وہ آزاد ہے یا غلام ؟ بظاہر وہ انگریز کے تسلط سے آزاد دیکھائی دیتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ ذہنی غلام ہوتے ہیں۔ ان ممالک میں ملکی نظام سامراج کا ہی چلتا ہے ۔
غلامی کی بنیادی طور پر تین وجوہات ہوا کرتی ہیں: غربت، جنگ، اور جہالت۔ پہلے ادوار میں لوگوں کو زیادہ تر جسمانی غلام بنا یا جاتا تھا لیکن موجودہ دور میں ذہنی غلامی کے ذریعے غریب اقوام کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ ذہنی غلامی مسلط کرنے کے لیے طاغوتی قوتوں کا سب سے مؤثر حربہ یہ ہے کہ غریب ممالک کو غریب ہی رکھا جائے ۔ غربت کو اگر غلامی کی ماں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ غربت کے باعث بہت سے انسانوں کو بنیادی ضروریات کے حصول کے لئے دوسروں کا محتاج ہونا پڑتا ہے۔ غربت میں گھرے ہوئے لوگوں کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ ذہنی غلامی سے نجات حاصل کریں۔ آلڈس ہکسلے نے اپنی کتاب ’’بریونیو ورلڈ ‘‘ میں لکھا ہے کہ’’اب حکومتیں عوام کو جبر کے ذریعے نہیں بلکہ ان کی اپنی رضامندی کے ذریعے کنٹرول کریں گی ‘‘ کیونکہ وہ ذہنی لحاظ سے اتنے پسماندہ ہونگے کہ ان کے لیے آزادی اور غلامی میں تمیز کرنا مشکل ہوجائے گا۔
آزادی انسان کا بنیادی حق ہے اور انسان کی سب سے بڑی قوت اس کی ذہنی و فکری آزادی ہے ۔ جب انسان ذہنی طور پر آزاد ہو تو وہ ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ جو قوم جسمانی طور پر غلام اور ذہنی طور پر آزاد ہو، وہ بہت جلد جسمانی آزادی حاصل کر لیتی ہے ۔ذہنی غلامی میں مبتلا قوم اپنے آپ کو غلام نہیں سمجھتی۔ اس لیے آزادی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ہم جسمانی طور پر اگرچہ آزاد ہیں مگرمغرب کے ذہنی غلام ہیں اس لیے جب تک ہم اپنے آپ کو ذہنی طور پر آزاد نہیں کرتے اس وقت تک آزادی کی منزل بہت دور ہے۔
نبوت ملنے کے بعد رسول اللہ ﷺ کا سب سے پہلا مشن انسانوں کو ذہنی اور فکری غلامی سے نجات دلانا تھا۔ اور حضورﷺ بعثت کے 10سال تک اپنی جماعت کو ذہنی غلامی سے نکالنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ باقی احکامات دسویں نبوی سے نازل ہونا شروع ہوئی۔ آج بھی انسانیت ذہنی طور پر غلام ہے، چنانچہ انسانیت کو ذہنی غلامی سے نکالنا آج سب سے بڑی ضرورت ہے۔ ذہنی ارتقاء کے بغیر موجودہ دور میں حالات کا مقابلہ انتہائی مشکل ہے۔ ذہنی غلامی سے نکلنے کے لیے وہی طریقہ کار استعمال کیا جائے جو حضورﷺ نے اختیار کیا تھا۔ ذہنی غلامی کے دور میں یہ انتہائی مشکل کام ہے کہ لوگوں کو ذہنی غلامی سے نکالا جائے، چنانچہ اس کے لیے نبوی ﷺطریقہ یہ ہے کہ سوسائٹی کے وہ لوگ جو ذہنی لحاظ سے اتنے مفلوج نہیں ہیں اور ذہنی غلامی کے دور میں انہوں نے اپنی فکر کی حفاظت کی ہے ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ سوسائٹی کے باصلاحیت لوگوں کو ذہنی غلامی سے نکالنے کے لیے جدوجہد کریں اور جب سوسائٹی میں ایک جماعت ایسی پیدا ہوجائے جو ذہنی لحاظ سے آزاد ہو ، تو وہ اپنا قومی نظام رائج کرکے باقی لوگوں کو بھی ذہنی غلامی سے نجات دلاسکتے ہیں اور پھر بین الاقومیت میں قدم رکھ کر پوری انسانیت کو ذہنی غلامی سے آزاد کرواسکتےہیں۔