ہم نے ماضی میں دنیا کو معاشرت سکھائی ہے ہماری تاریخ روشن ہے جس نے ہمیشہ کُل انسانیت کی ترقی کی بات کی ہے پھر جب موجودہ دور میں حالت زار دیکھتا ہوں کہ گھر کے باہر گھوڑے کی نعل لٹکائی ہے کہ شیطان نہیں گُھسے گا،گاڑی کے ساتھ جوتا لٹکانے سے ایکسیڈ نٹ نہیں ہو گا،ہاتھ میں کھجلی ہو تو پیسہ آ رہا یا جا رہا ہے،شیشہ ٹوٹ جائے تو قسمت خراب،دودھ گِر جائے تو منحوس عمل۔ غرض آٹا،نمک،مرچ کچھ بھی گِر جائے تو کوئی نہ کوئی بات ضرور منسوب کی ہو گی۔
چونکہ ہر طبقہ توہم پرستی سے اثر انداز ہےاور نظر لگنا ایک فطری عمل ہے اس پر ایک سائنسی تحقیق بھی کی گئی ہے کہ انسانی جسم سے خاص قسم کے مثبت اور منفی چارج خارج ہوتے ہیں جو اپنی شدت سے کسی پر پڑتے ہیں تو اپنا اثر چھوڑتے ہیں اسکو روکنے کا کوئی طریقہ سمجھ میں نہیں آتا تو ہم غیر ضروری خرافات(mythes) اپنا لیتے ہیں۔کچھ غیر ضروری توہمات کی اقسام کا تذکرہ میں ضروری سمجھتا ہوں۔
شادی کی توہمات
شادی کی تاریخ طے ہونے کے بعد ہی معمولات میں تبدیلی ہونا شروع ہو جاتی ہے کہ باہر اکیلے نہیں جانا،گاڑی نہیں چلانی پھر شادی کی رسومات میں سر پر لوٹا پھیرنا نظر سے بچنے کے لیے کالا ٹیکہ لگانا وغیرہ۔
پیدائش کی توہمات
پیدائش کے دورانیہ میں حاملہ خواتین کی خاص حفاظت کی جاتی ہے،چاند گرہن کو دیکھ لے تو بچہ اچھا نہیں ہو گا،چھری کانٹے سے کام کرے تو بچہ معذور پیدا ہو گا،اگر لڑکا پیدا ہو تو اس کو لڑکی کی فراق پہنائی جاتی ہے کہ نظر نہ لگے وغیرہ۔
انتقال پر توہمات
نبیﷺ نے دو چیزوں کو آسان بنایا ایک شادی اور دوسرا مرگ لیکن ہم نے دونوں کو مشکل بنا دیا اور توہمات کی نظر کر دیا۔ایک شخص سے سنا کہ قبر کےکونے پر ایک کانا لگانے سے قبر تنگ یا کشادہ نہیں ہوتی۔ کچھ طبقات عِدت کے دورانیہ میں عورت کو بھی مردہ بنا دیا جاتا ہے۔
صَفر کے مہینہ کی توہمات
توہمات کے حوالے سے صفر کے مہینہ میں بہت سی باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ اس مہینہ میں شادی نہیں ہو سکتی ،ہو گی تو کامیاب نہیں ہو گی، لمبا سفر نہیں کرنا ،کاروبار شروع نہیں کرناوغیرہ۔اس کائنات کے خالق نے کوئی بھی چیز یا کوئی بھی مہینہ منحوس نہیں بنایا۔اسی مہینہ میں حضرت عمربن عبدالعزیز رضی اللہ کو فتح نصیب ہوئی۔پاکستان ایٹمی طاقت بھی اسی ماہ بنا۔قرادادِ پاکستان اسی ماہ پیش کی گئی وغیرہ۔
سورج گرہن چاند گرہن
قدیم چائنہ میں چاند گرہن پر لوگ شور مچاتے تھے کہ کوئی آنے والی آفت ٹَل جائے گی۔نبیﷺ کے بیٹے حضرت ابراہیم کی وفات کے دن سورج گرہن ہوا تو لوگوں نے اسے منحوس مان لیا اور اس کو حضرت ابراہیم کی وفات کے غم سے منسوب کر لیا، نبیﷺ نے لوگوں کو اکھٹا کر کے خطبہ ارشاد فرمایا’’سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں ہیں ان کو گرہن کسی کی موت یا زندگی سے نہیں لگتا پس جب تم دیکھو تو اللہ کو پکارو اور اسکی تکبیر کرو سلام بھیجو صدقہ کرو۔‘‘ ایک اور جگہ نبیﷺنے فرمایا:
« لاَ طِيَرَةَ وَخَيْرُهَا الْفَأْلُ» قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا الْفَأْلُ قَالَ « الْكَلِمَةُ الصَّالِحَةُ يَسْمَعُهَا أَحَدُكُمْ» (مسند أحمد: 9262)
’’ كوئی بد فالی نہیں، اس سے اچھی بات نیک شگون ہے۔ صحابہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسولﷺ یہ نیک شگون کیا ہے؟ نبیﷺ نے فرمایا صالح کلمہ جس کو تم میں سے کوئی ایک سنتا ہے۔‘‘
قدیم توہمات
زمانہ جاہلیت میں عورت کو توہمات کا نشانہ بنایا جاتا تھااس کو مرد سے ہمیشہ کم تر سمجھا جاتا تھا اس کی قربانی دے کر دیوتاؤں کو خوش کیا جاتا تھااس کو زندہ درگور کیا جاتا تھا۔نبیﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اس نحوست کو ختم کرنے کے لیے بھیجا ،آپﷺ نے عورت کو ماں ،بہن ،بیٹی اور بیوی کے روپ میں عزت دی اور معاشرے میں عورت کے کردار کو توہمات سے نکال کر عملی کردار کے حوالے سے اصلاح کی۔ایک اور واقع ہے کہ دریائے نیل میں بودنہ(قدیم زمانہ سے) سال کے ایک مہینے میں ایک جوان لڑکی کو اس میں بہا دیا جاتا تھا اور وہم یہ تھا کہ اس سے پانی رواں رہتا ہے، گورنر مصرعَمر بن العاص رضی اللہ نے اس کو جاہلانہ فعل قرار دیا اور توہم کوروک دیا، نیل میں پانی کم ہو گیا اور لوگوں نے ہجرت کرنا شروع کر دی کہ اب یہاں عذاب آنے والا ہے، یہ بات خلیفہء وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ تک پہنچی تو آپ نے فرمایا کہ تم نے ٹھیک کیا اسلام ایسے جہالت کی باتوں کا انکار کرتا ہے اور ایک خط لکھ بھیجا کہ اس کو دریا کی نظر کر دو اس کی تحریر یوں تھی ’’اے نیل اگر تو اپنی مرضی سے چلتا ہے تو نہ چل اور اگر تجھے اللہ چلاتا ہے تو چل پڑ‘‘ نیل چل پڑااور آج تک نہیں رُکا۔اگر اس وقت اِس جاہلانہ رسم کا خاتمہ نہ کیا جاتا تو کتنی جانیں بے فضول اس عقیدہ کی بھینٹ چڑھ جاتیں اور لوگ اس کو عقیدے کو زندگی کا حصہ بنا لیتے۔
فرمانِ رسولﷺ ’’جس شخص کو کسی بدشگونی نے کوئی کام کرنے سے روک دیا اس نے یقیناً شرک کیاگویا اس نے حقیر چیزوں کو اللہ کے ساتھ جوڑا۔‘‘یہ انسان کی انفرادی سوچ ہی ہے کہ وہ اپنے معمولات کو کسی بدشگونی سے منسوب کر دیتا ہے، آج کا نوجوان بھی عملی کردار اور اجتماعیت کو سمجھنے سے عاری نظر آتا ہے۔سرمایہ دارانہ نظام نے اسے کولہوں کا بیل بنا دیا ہے وہ بیچارہ ان خرافات کے حل کے تلاش میں نااہل حکمرانوں کے ہاتھ استعمال ہو جاتا ہے۔میری سوچ سے تویہ باتیں بالاتر ہیں کہ کوّا کیسے مہمان کے آنے کا بتا سکتا ہے؟کالی بلی کو کیا پتہ آپ کس کام سے جا رہے ہیں؟ دائیں یا بائیں آنکھ کیسے اچھے بُرے وقت کا پتہ دے سکتی ہیں؟ہاتھ پہ کھجلی کیسے بتا سکتی ہے کہ پیسہ آ رہا یا جا رہا ہے؟ڈکار یا چھینک ایک طبعی عمل ہے اس کے آنے سے کیسے کوئی یاد کر سکتا؟13 کاہندسہ آپکا کیا بگاڑ سکتا ہے؟ سکندرِ اعظم کو کسی نے کہا کہ تمہارے ہاتھ میں فتح کی لکیر نہیں ہے اس نے خنجر سے ہاتھ پہ لکیر کھینچی اور دنیا فتح کرنے نکل پڑا۔