ڈان لیکس کا معاملہ وزیراعظم نوازشریف اور آرمی چیف جنرل باجوہ کی ڈیڑھ گھنٹہ پر مبنی ملاقات کے بعد اپنے انجام کو پہنچا۔ اس کے ساتھ ہی آئی ایس پی آر کی متنازع ٹویٹ بھی واپس لے لی گئی۔ اس معاملے کے منطقی انجام کے بعد ملک بھر میں نوازشریف حکومت کے مخالف لوگوں نے جو ردِعمل دیا، وہ مناسب نہیں۔ ان لوگوں نے آرمی چیف اور ملٹری بیوروکریسی کو منفی انداز میں تنقید کرتے ہوئے غیرت اور بے غیرتی کا مسئلہ بنا کر پیش کیا ہے۔ وہ لوگ جو مسلح افواج کو پاکستان میں جمہوریت کا نگہبان تصور کرتے ہیں، اُن کے لیے فوجی قیادت کا یہ فیصلہ بے غیرتی، کمزوری اور شکست کے زمرے میں آتا ہے۔ میرے نزدیک فوجی قیادت کا یہ فیصلہ تاریخ کا سبق ہے جو مسلح افواج نے اپنے تجربات سے سیکھا۔ فوج کا کام جمہوریت کا تحفظ کرنا نہیں، سرحدوں کا دفاع کرنا ہے۔ جمہوریت کا تحفظ اور فروغ، سیاسی، جمہوری اور دانشور حلقوں کا فریضہ ہے۔ جو لوگ پاکستان میں مسلح افواج سے جمہوریت کے تحفظ کی توقعات لگائے بیٹھے ہیں، اُنہیں عوام کی طاقت پر یقین نہیں، جو سب سے بڑی طاقت ہے۔ اگر مسلح افواج کی اعلیٰ ترین قیادت نے معاملے کو وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کے بعد طے کرلیا تو اسے فوج کی شکست اور بے غیرتی قرار دینے والے درحقیقت ریاست، حکومتی اختیارات اور اقتدار کی سرحدوں کا ادراک ہی نہیں رکھتے۔اگر کوئی سول حکمران، اعلیٰ سرکاری عہدے دار، ریاست کے رازوں کو عام کرنے یا غداری کا مرتکب ہوتا ہے تو اس حوالے سے پورا ایک نظام ہے۔ مسلح افواج کو آئین یہ اختیارات نہیں دیتا کہ وہ سول حکمرانوں، سول بیوروکریسی اور دیگر ریاستی حکام کی سرزنش کرے۔ اور اگر سول حکمران، نااہل، ناکام اور کرپٹ ہیں تب بھی یہ فیصلے سیاسی، جمہوری اور عدالتوں کے تحت ہی طے ہوتے ہیں۔ اگر عدلیہ جانب دار، نااہل یا کسی غیرشفافیت کا شکار ہوتی ہے اور اس کے فیصلوں پر انگلی اٹھے تو تب بھی کسی جمہوری نظام میں مسلح افواج اداروں، حکومتوں اور عدلیہ کو ’’درست‘‘ یا ’’ٹھیک‘‘ کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔ جو لوگ مسلح افواج کو بالواسطہ یا بلاواسطہ سیاسی معاملات میں گھسیٹتے ہیں، اُن کو جہاں عوام کی طاقت پر یقین نہیں، وہیں وہ لوگ پاکستان کی مسلح افواج کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ جو لوگ پچھلے چیف آف آرمی سٹاف میں ’’سیاسی مسیحا‘‘ ڈھونڈنے کے درپے تھے، اُن کے ہوش اس وقت ٹھکانے آگئے جب وہ ریٹائر ہوگئے، تفصیلات زبان زدِعام ہیں۔
اگر وزیراعظم یا حکومت، غدار اور سیکیورٹی رسک ہے تو احتساب کے اختیارات، عوام اور جمہوری اداروں کے پاس ہوتے ہیں۔ یہ لوگوں کا حق ہے کہ وہ ڈان لیکس کی تفصیلات جانیں۔ اور میں یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ سرحدوں کا تحفظ اور جنگ کا حق فوج کو ایک سول حکومت ہی تفویض کرتی ہے۔ جو مسلح گروہ پاکستان کے اندر اور باہر مسلح عمل سے کشمیر کی آزادی کے لیے بندوق اٹھائے دھمکا چوکڑی کررہے ہیں، اُن کو اس کا حق نہیں، یہ کام مسلح افواج کا ہی ہے۔ Privatization of War نے ہماری ریاست کو جس قدر برباد کیا ہے، اس قدر اپنے کسی دشمن کو نہیں، بشمول بھارت، سابق سوویت یونین (موجودہ روسی فیڈریشن)۔ اگر گروہوں کو بندوقیں دینی ہیں تو پھر اتنی بڑی فوج کو ایٹمی طاقت بنانے کا مکمل سہرا بھی سول قیادت کے سر ہی ہے۔ جب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو نیوکلیئر طاقت بنانے کا فیصلہ اور آغاز کیا، اس وقت مسلح افواج کے چیف کو یقینا اس کا علم بھی نہیں ہوگا اور پھر وہ اس جہد میں سامراج کی طرف سے بقول سابق امریکی وزیرخارجہ ڈاکٹر ہنری کسنجر ’’تیسری دنیا کے لیے نشانِ عبرت‘‘ بنا دئیے گئے، کہ وہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے سے باز نہ آئے۔ لہٰذا سول لیڈروں کو سیکیورٹی رسک قرار دینے والوں کو یقینا اس تاریخ سے آگاہی ہوگی۔
پاکستان کی مسلح افواج ہمارا قومی سرمایہ ہیں۔ انہوں نے پچھلے دس پندرہ سالوں میں ملک وقوم کے لیے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف لڑتے ہوئے بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ اس جنگ میں ماضی میں لڑی جانے والی جنگوں سے زیادہ مسلح افواج کے جوانوں اور افسروں نے جامِ شہادت نوش کیے ہیں اور یہ شہدا ہمارا فخر ہیں، اُن کی شہادتوں سے ہی ان فتنہ گروں کے راستے مسدود ہوئے ہیں۔ مسلح افواج نے جس طرح پورے ملک میں اس اندھی جنگ کا مقابلہ کیا ہے، اس پر پوری دنیا حیرت کا اظہار کرتی ہے۔ اس سارے تناظر میں جو محافظوں کو ایمپائر بنانا چاہتا ہے یا عوامی ریفارمر، وہ ملک، قوم اور فوج کو آگ میں دھکیلنے کے درپے ہے ۔ اگر وزیراعظم نوازشریف غدار ہیں، نااہل ہیں، غیرذمہ دارہیں تو یہ حق عوام کا ہے کہ وہ اُن کو کسی بھی جمہوری عمل سے نکال باہر کریں کیوں کہ وہ انہی کے ووٹوں سے وزیراعظم بنے ہیں۔ یہ حق اُن کو عوام نے تفویض کیا ہے۔ اگر اُن کی سیاست جمہوری نہیں، اُن کی جماعت جمہوری نہیں، اُن کی حکمرانی جمہوری نہیں، اُن کی حکومت سے غلطیاں سرزد ہورہی ہیں تو عوام کے بازو بہت طاقتور ہیں، اُن کو مضبوط کریں۔ عوام میں سیاسی شعور کو طاقتور کریں کہ وہ ایسے حکمران نہ لائیں جو اُن کے لیے کچھ نہ کرسکے یا وہ غیرذمہ دار اور کرپٹ ثابت ہوئے۔
اگر اس سارے سیاسی منظرنامے کو غیرجانب داری سے دیکھیں تو حقیقت میں پاکستان میں 1971ء سے 1977ء، 1985ء سے 1988ء، 1988ء سے 1990ء، 1993ء سے 1997ء، 1997ء سے 1999ء اور اب 2008ء سے آج تک ریاستی اداروں کے اختیارات کی جنگ ہے۔ چوں کہ تمام اداروں کو 1973ء کے آئین کے تحت لمبے عرصے تک تجربہ کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ اور فوج سب ہی اپنے اپنے اختیارات سے تجاوز کرگئے۔ لہٰذا ڈان لیکس کا معاملہ میرے نزدیک فوج کی قیادت نے دانش مندی سے حل کرلیا، یہ اُن کی فتح ہے، شکست نہیں۔ اُن کو اپنے اختیارات کا ادراک ہوا، اس طرح مسلح افواج مزید پروفیشنل ہوں گی۔ پاکستان میں سول حکمرانی کو عوامی جمہور سے عبارت ہونا چاہیے نہ کہ فوجی حکمرانی یا خاندانی حکمرانی سے۔ جمہور کو مضبوط کیے بغیر کبھی بھی جمہوریت مضبوط نہیں ہوسکتی۔ جمہوریت کی مضبوطی کے لیے معاشی جمہوریت ، سیاسی جمہوریت، ثقافتی جمہوریت، سب لازم ہے۔ اگر فوجی حکمرانی کی روایت ٹوٹنا لازمی ہے تو خاندانی سیاست کو بھی توڑنا لازمی ہے، اور یہ فریضہ بھی عوام اور دانشوروں کے ذمے ہے۔ میں اس حوالے سے یہ یقین رکھتا ہوں، ’’انقلاب انڈے سے چٹان توڑنے کو کہتے ہیں۔‘‘