کوریا کی ترقی کو سمجھنے کے لیے ہمیں ۱۹۶۰ء کے دوران کوریا کی قومی، علاقائی اور بین الاقوامی سیاست اور اس وقت کی عالمی طاقتوں کو سمجھنا ہوگا۔ خاص طور پہ کورین سیاست پہ چھائے ہوئے سیاسی خاندان، ان کی تاریخی حیثیت، ان کا علم وحکمت، بین الاقوامی ٹیکنالوجیزکا علم و مستقبل کی سمت، ان کی ذاتی ترجیحات اور اخلاص؛ سبھی مل کر سمجھیں تو کوریا کی ترقی سمجھنا آسان ہو گا۔ اس ترقی میں عوام، فوج اور سیاسی و سماجی تحریکات کا کردار سمجھنا بھی بہت ضروری ہے، انہی تحریکات نے کورین قوم کا مزاج نئے رخ پہ ڈالا۔
میں نے پچھلے (قسط نمبر۱۴) مضمون میں بتایا تھا کہ جاپان نے کوریا کو ۱۹۱۰ء میں کالونی بنایا تھا، لیکن جاپان نے کوریا کے معاشرے کو نظریاتی طور پہ توڑا نہیں، نہ ہی کسی نئے مذہب کا پرچار کیا اور نہ ہی برطانیہ کی طرح ہر فیکٹری جاپان میں لگائی اور کوریا کو صرف خریدار اور منڈی بنایابلکہ کافی حد تک کوریا پہلے ہی صنعتی ٹیکنالوجی حاصل کر چکا تھا۔ لیکن صنعتی ٹیکنالوجی کا پورے جی۔ ڈی۔ پی میں حصہ کم تھا۔ کورین قوم کا ادارہ جاتی مزاج آج بھی جاپانیوں کی کاپی ہے اور وہ اسی کالونیل دور میں کورین قوم نے خود کو ان کے مطابق ڈھالا تھا۔
جنگ عظیم دوم کے خاتمے سے لے کر ۱۹۴۸ ء تک قانونی طور پہ جنوبی کوریا کو امریکہ کی ملٹری چلاتی رہی۔ اس کے بعد مسٹر سینگمن ری صدر (۱۹۴۸۔۱۹۶۰) بنے تو اس نے کوریا میں طاغوت کے ایجنٹ کا کردار ہی ادا کیا۔ اپنی ذاتی حکومت کو دوام دینے میں لگا رہا اور کوریابھوک کی دلدل میں دھنستا چلا گیا۔ اس دوران اس نے اتنے کرنسی نوٹ چھاپے کہ کوریا کی ۱۹۵۵ء میں کرنسی کی حالت ۱۹۹۲ء کے افغان کرنسی جیسی تھی۔ (آج بھی کوریا کا ۱۰۰۰ پاکستان کے ۱۰۰ کے برابر ہے، لیکن اب کوریا میں فی کس آمدن زیادہ ہے) اور اس کے بعد فوجی حکومتوں نے آ کر کرنسی کو چھاپنا بند کیا اور معاشی سرگرمیوں کو بڑھایا۔ کوریا کے جی۔ ڈی۔ پی کی بلند ترین گروتھ ۱۹۶۱ سے ۱۹۷۹ء کے دوران ہوئی ہے (ٹیبل نمبر ۱)۔ اس عرصے کے دوران جنرل پارک۔ چنگ۔ ہی (۱۹۷۰۔۱۹۶۱) نے کوریا کی ترقیات کو اپنی ترجیحات بنایا۔ دفاع کی ذمہ داری امریکہ کو دی، اپنی فوج کو کم کیا، وقت کی رفتار کو سمجھتے ہوئے جی۔ ڈی۔ پی میں صنعت، بجلی، ٹرانسپورٹ، اور بزنس کا حصہ بڑھایا اور زراعت کو کم کیا (ٹیبل نمبر ۲)۔ لوکل پیداواری عمل کو بڑھایا اور ان سارے کاموں کو اپنی ذاتی ترجیحات بنایا۔ کسی بین الاقوامی تنازعے کا حصہ نہیں بنے۔ دنیا میں اپنی حیثیت اور مقام کے مطابق اپنی سمت کا تعین کیا۔
ٹیبل نمبر ا: یہ ٹیبل ۱۹۶۰-۱۹۴۸ء اور پھر ۱۹۶۱-۱۹۷۹ء کے دوران سب سے بلند ترین جی۔ ڈی۔ پی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ ٹیبل صدر ری اور صدر چنگ۔ ہی کی نیت اور نتائج کی بھی عکاسی کرتا ہے۔(1)
سال جی۔ ڈی۔ پی
1959 7.6
1963 9.1
1966 12.7
1969 13.8
1973 14
1978 11
ٹیبل نمبر ۲ : مختلف شعبہ جات کی ترجیحات اور ان کو مسلسل بڑھانے کی پالیساں درج ذیل ڈیٹا سے ثابت ہوتی ہیں۔
( تمام ڈیٹا فیصد میں ہے)
شعبہ ۱۹۷۰ ۱۹۸۰ ۱۹۹۰
زراعت ۲۶ ۱۴.۹ ۸.۷
مینوفیکچرنگ ۲۱.۲ ۲۹.۷ ۲۹.۲
کمیونیکیشن اور ٹرانسپورٹ ۶.۷ ۱۱ ۱۴.۹
بجلی ۱.۵ ۲ ۲.۲
اس دوران امریکہ نے فوجی حکومت پہ تنقید تو ضرور کی، لیکن وہ تنقید سرسری تھی، جیسے سعودی حکمرانوں کی ہوتی ہے، کیونکہ امریکہ کا سیاسی کردار کبھی بھی کورین نے چیلنج نہیں کیا اور امریکہ کے ساتھ الجھنا حقیقت پسندی اور زمینی حقائق کے مترادف تھا۔ انہوں نے ایک ہی ایجنڈے پہ کام کیا اور وہ تھا اپنی معاشی حالت جدید ٹیکنالوجیز کے ذریعے بہتر بنانا۔ دفاع اور خارجہ ۱۹۹۰ء تک امریکہ کے زیر اثر رہا۔ ۱۹۹۰ء کے بعد جنوبی کوریا تھوڑا سا بڑا ہوا تو چین اور روس کے ساتھ بھی قدم ملایا۔ یہ کسی حد تک حقیقت پسندی تھی۔ ابھی چند دن پہلے کوریا میں انتخاب ہوئے تو جو آدمی صدر بنا ہے، اس نے صرف اتنا کہا ہے: کوریا کو اب امریکہ کو نو(No) کرنا سیکھ لینا چاہیے۔ کورین قوم ایک انتہائی محتاط اور قدم سوچ کر رکھنے والی قوم ہے اور میرا یہ قوی خیال ہے کہ امریکہ کے کمزور ہوتے ہی یہ ایشیاء کی طرف کھل کر قدم بڑھائیں گے، لیکن جہاں تک سرمایہ داری سوچ کا تعلق ہے اب جنوبی کوریا اس سے جان نہیں چھڑا سکتا۔ یہ سوچ ان کے اداروں اور افراد کے اندر چلی گئی ہے اور جب کوئی سوچ اختیار کر لی جاتی ہے تو وہ بیرونی بھی ہو تو ایک مقام پہ پہنچ کر بیگانی نہیں رہتی۔ البتہ کورین قوم کا سرمایہ داری نظام امریکہ یا مغربی یورپ سے کہیں بہتر اور سرمایہ کی گردش نچلے لیول تک کرواتا ہے۔ اس کے لیے ایسی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں کہ پیسہ عام دکاندار، تنخواہ دار طبقے اور کسانوں تک پہنچے۔ اس کے علاوہ کوریا کے قومی اداروں میں عدل و احسان اور رحم کا مادہ ہے۔ سینئر سخت ضرور ہوتے ہیں لیکن اداروں کو چلانے کے لیے سب ملازم ایک فیملی یونٹ کی طرح کام کرتے ہیں۔
کورین قوم کا یہ مزاج بھی ترقی کے عمل میں بہت مددگار رہا۔ یہ مزاج سماج کی اپنی سوچ اور کام کو اپنی پہلی ترجیح بنانے کی بدولت ہے۔ کوریا کی ترقی امریکہ کی بدولت نہیں بلکہ کورین قیادت کی محنت، نیک نیتی، وقت کی رفتار اور بین الاقوامی رجحانات کو صحیح سمجھنے کی بدولت ہے۔
اس کے علاوہ کوریا کی اپر کلاس کی نظر بین الاقوامی ترقیات اور نئی ریسرچ کے ذریعے پیدا ہونے والے مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی رہی، اسی لیے وہ سام سنگ جیسے برانڈ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ اب یہ سمجھنا کہ سام سنگ کے موبائل کی ٹیکنالوجی کورین قوم کے اپنے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے نکلی ہے، احمقانہ ہے۔ سام سنگ پہ بین الاقوامی پیٹنٹ چرانے کا الزام بھی ہے۔
یہ سارا عمل یہ بتاتا ہے کہ جب دنیا میں نئی تبدیلیاں آرہی ہوں تو جو قومیں جاگ رہے ہوتی ہیں وہ حصہ بٹور لیتی ہیں اور جو جہاد فی سبیل الطاغوت (فساد) کرنے میں مصروف ہوں وہ ہمیشہ ڈالر کے لیے بخشو بنے رہتے ہیں۔
حوالہ جات:
Oh, J. K.-c, Korean politics: The quest for democratization and economic development. Cornell University Press: 1999.