ملکِ عزیز کے حالات میں خرابئ بسیار پھر اس بات کی طرف متوجہ کیے دیتی ہے کہ ہمارا مرض عارضی نہیں، بلکہ دائمی ہے۔ جس نے قوم کے مزاج تک کو بگاڑ دیا ہے کہ وہ اس ملک کے لیے سب سے بڑے خطرے، یعنی نام نہاد سیاسی و مذہبی پارٹیوں کے بارے میں ابھی بھی خوش گمانی کا شکار نظر آتی ہے۔ اور کسی نئے مستقل اور پائیدار حل کی طرف متوجہ نہیں ہے۔
ہم اکثر و بیش تر ملک میں موجود سیاسی و مذہبی قوتوں کا جائزہ پیش کرتے رہتے ہیں۔ آج کل کی تازہ فضا میں ایک بار پھر ضرورت پیش آ رہی ہے کہ ہم ان جماعتوں کو درپیش چیلنجز کے تناظر میں دیکھیں کہ یہ کس طرح نئے حالات میں بے بس نظر آرہی ہیں۔ اور قوم، ملک، معاشرے کے مسائل کو حل کرنے کا ان کے پاس کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔ اور اس نازک مرحلے پر یہ اپنی ناکامی کا اعتراف کرنے کے بجائے قوم کو نئے کنفیوژن میں اُلجھا رہی ہیں۔ اور کوئی ایک پارٹی مسائل کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں تو نہ سہی، لیکن اس زمانی حقیقت کو تو کوئی نہیں جھٹلا سکتا کہ یہ ساری پارٹیاں ہی موجودہ مسائل کی ذمہ دار ہیں۔ کیوں کہ اب ہم پر برٹش راج نہیں کر رہے، بلکہ گزشتہ ستر سالوں سے یہی پارٹیاں ہمارے سیاہ سفید کی مالک رہی ہیں۔ اس ملک کے لیے اگر مہلک اور خطرناک چیزوں کی کوئی فہرست مرتب کی جائے تو اس میں سرِ فہرست ہمارے ملک کی سیاسی و مذہبی پارٹیوں کا نام ہوگا، جس سے ملکِ عزیز کو سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں۔
پاکستان میں قیادت کے نام پر ایک مافیا قابض ہے، جو سرتاپا کرپشن میں غرق ہے۔ اور پھر اس پر مستزاد یہ کہ پارٹیاں رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے اپنے افراد کو سزا سے بچانے کے لیے ہر حد تک جانے کو تیار ہیں، خواہ ان ملزموں کو پارٹی عہدے دینے پڑیں۔ تاکہ اگر ان پر ہاتھ ڈالا جائے تو اسے پارٹی پر حملہ تصور کیا جائے۔ دنیا میں الزامات کے بعد ملزموں کو سیاسی اور انتظامی عہدوں سے الگ کیا جاتا ہے، تاکہ تفتیش کا عمل بغیر کسی دباؤ کے سرانجام دیا جاسکے۔ لیکن ہمارے ہاں ایک سیاسی پارٹی اپنے دورِ حکومت کے وزیر پیٹرولیم جو کہ کرپشن کے سنگین الزامات میں ماخوذ ہیں، کو کراچی جیسے بڑے شہر کی پارٹی کا صدر بنا کر ایک ملزم کو سیاسی طاقت فراہم کرتی ہے۔ اور ایک دوسرے وزیر انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی کو منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کے باوجود ملک میں واپس لوٹنے پر سونے کا تاج پہناکر شان دار اِستقبال کیا جاتا ہے۔
دوسری طرف حکومت پر فائز پارٹی کی قیادت پاناما جیسے بدنامِ زمانہ کیس میں عدالت سے پیشیاں بھگت کر ایسے لوٹتی رہی ہے، جیسے کسی محاذ سے فتح یاب فوج لوٹتی ہے۔ اور جب ایک محفوظ فیصلے کو غیرمحفوظ قوم کے سامنے لاتے ہوئے انھیں ایک نئے ’’ٹرک کی بتی‘‘ کے پیچھے لگایا جاتا ہے تو جہاں قوم اس بتی کے پیچھے دوڑنا شروع کرتی ہے تو ایک ہی سسٹم کی چہیتی اور منظورِ نظر بہ ظاہر متحارب و متصادم جماعتیں مٹھائی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے قوم کی سادگی اور بے شعوری پر مسکراتے ہوئے ہمارے فاضل ججوں کی کمالِ مہارت کو داد دے رہی ہیں۔ اب ہمارے منصف بھی یہ گُر سیکھ گئے ہیں کہ جاری نظام کو نقصان پہنچا ئے بغیر کس طرح کے فیصلے کرنے ہیں۔ جس چھت کے نیچے وہ بیٹھے ہیں، آخر اس چھت کو وہ کیوں کر گرا ئیں گے۔
اب قوم کو پُرانی جماعتوں کی شاطرانہ چالوں کے ساتھ ساتھ نئی جماعتوں کی سادگی کو بھی سمجھنا چاہیے، جو عدالتی کارروائی کے بعد اَخلاقی بنیادوں پر استعفیٰ مانگنے چلے ہیں۔ کیا یہ ملزم قیادت پہلے کسی اَخلاقی جواز کے تحت حکومت کررہی تھی؟ اور یہ صرف دو فاضل ججز کے ریمارکس کے نتیجے میں صادق و امین کی فہرست سے قابل اخراج قرار پائی ہے؟ اور ملک میں سیاست دانوں کی جو مخلوق اس کے علاوہ بہ شمول مدعی پارٹی کے پائی جاتی ہے، ان کا نام کس صحیفے کے کس صفحے پر صادق و امین کی لسٹ میں پایا جاتا ہے؟ نوجوان ذہنوں کواب اس نکتے پر ضرور سوچنا چاہیے کہ اس پارٹی کا تبدیلی کا کیا ویژن ہوگا، جو کئی دہائیوں سے جاری نظام کے عدالتی فیصلوں سے انقلاب لاکر نیا پاکستان بنانا چاہتی ہے۔ اب ہمارے عوام کو دنیا میں آنے والے انقلابات کی تاریخ کو پھر سے پڑھنا چاہیے، تاکہ انھیں معلوم ہوسکے کہ انقلابی لیڈروں کے ویژن کی کیا شناخت ہوتی ہے۔ اور انھیں اپنی قوموں کو حقیقی انقلاب کی منزل تک پہنچانے کے لیے کن جان جوکھوں سے گزرنا پڑتا ہے۔
تیسری سمت میں ہماری وہ مذہبی پارٹیاں کھڑی ہیں، جو کبھی قوم کو ’’سبیلنا سبیلنا الجہاد الجہاد‘‘ (ہمارا راستہ، ہمارا راستہ؛ الجہاد، الجہاد) کے فلک شگاف نعروں سے گرما چکی ہیں، لیکن اب ان مذہبی قوتوں کو باور کروایا جاچکا ہے کہ آپ کی بقا کا واحد راستہ غیرمسلح ہوکر جاری نظام میں حصہ بہ قدر جثہ کے مطابق اپنے حصے پر قناعت ہی میں ہے۔ اس لیے اب ہمیں ’’الجہاد ماض إلیٰ یوم القیامہ‘‘ (جہاد قیامت تک جاری رہے گا۔) کے بجائے ان کے سٹیجوں سے امن و آشتی اور عدمِ تشدد کے بھاشن ملنے لگے ہیں۔ لیکن اصل مسئلہ اعلان نہیں، بلکہ ان کے اندر سے شدت پسندی نکالنے کا ہے۔
آج بھی ملک کے طول و عرض میں شدت پسندی اور دہشت گردی کے ہونے والے مظاہر میں یہ قوتیں ایک عجیب مخمصے سے دوچار ہیں۔ اور ان واقعات پر کوئی واضح رائے دینے کے بجائے کنی کترا کر نکل جاتی ہیں۔ جیسے یہ کل تک دہشت گردانہ حملوں میں ذمہ دار عناصر کے بارے میں زبان مروڑ کر بات کرتے رہے ہیں، اسی طرح آج بھی ان کا ’’نہ جائے ماندن، نہ پائے رفتن‘‘ کا سا معاملہ ہے۔ کیوں کہ سال ہا سال کی کہنہ مشق شدت پسندی کی تربیت محض ایک اعلان سے ختم ہونے والی نہیں ہے۔ اس صورتِ حال سے یہ باور کرنا زیادہ مشکل نہیں ہے کہ ابھی صرف بیان تبدیل ہوا ہے، بیانیہ نہیں۔
دراصل ہماری جماعتوں کے قول و فعل کے تضاد اور دوہرے معیار نے مسائل کے حقیقی حل کی طرف عوام کی توجہ ہی مبذول نہیں ہونے دی، جیسے ابھی ظلم و استحصال کے نظام کے محافظ ہی مزدوروں کا دن منارہے ہیں۔ ایک طرف انھوں نے نظامِ ظلم کو قائم رکھنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے تو دوسری طرف موقع آنے پر وہ مزدوروں کے حقوق کا پھریرا بھی لہرانے لگ جاتے ہیں اور ہمارے عوام ہیں کہ
مِیر کیا سادہ ہیں ، بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
اور اس کے بعد رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی رمضان المبارک کے حقیقی مقصد اپنے اندر اور باطن کی صفائی کے علیٰ الرغم اسی ظاہر وباطن کے تضاد سے ہم اس کا استقبال کریں گے اور اس پورے مقدس مہینے میں اس مہینے کی تقدیس اور ہمارے نظام کا شرّ باہم دست و گریبان رہیں گے اور قوم و جماعتوں کا کردار محض تماش بینوں کا رہے گا۔ اس مقدس مہینے میں بھی ہماری اجتماعی منافقت سچی توبہ سے سرفراز ہونے میں مزاحم رہے گی۔
ہماری سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قول و فعل کے تضاد سے پاکستان کی قیادت کے المیے کو سمجھا جاسکتا ہے۔ جب تک ان جماعتوں میں موروثیت کے مرض اور تربیت کے فقدان کے اسباب پر غور نہ کیا جائے تو مسائل کی بنیادوں تک رسائی ناممکن ہے۔ جگہ کی تنگ دامنی کے سبب موضوع کے اس حصے کو ہم اگلے اداریے پر اٹھا رکھتے ہیں۔