زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ جہاں یورپ کی کالونیاں جتنا زیادہ عرصہ رہیں وہ ممالک ابھی تک ترقیات کا پورا سفر نہیں کر سکے۔ چائینہ، کوریا، روس، جاپان آگے اس وجہ سے نکل گئے کہ وہاں سامراج کو اپنے گماشتے بنانے کا موقع کم ملا۔ ہندوستان اور جنوبی افریقہ ان ممالک میں سے ہیں جنہوں نے تھوڑی بہت ترقی کی ہے، لیکن اپنی غلامی کے دور کے امراض کو خود سے الگ نہیں کر سکے اور ابھی تک اندر سے کمزور ہیں۔ پاکستان بھی غلامی کے دور میں پیدا ہونے والی ذہنیت سے ابھی تک باہر نہیں آ سکا اور تلخ بات یہ ہے کہ لیڈرشپ کو اس کا احساس بھی نہیں ہے۔
غلامی کے دور میں انگریز نے ہندوؤں کو نوازنا شروع کیا تو مسلمان قیادت نے الگ وطن کا مطالبہ کر دیا، اس بات سے کجا کہ پاکستان کے بننے میں بین الاقوامی طاقتوں کے اپنے مفادات تھے اور مسلمانوں کی تقسیم سے مسلمانوں کا اپنا نقصان اور ہندوؤں و مغربی طاقتوں کا فائدہ ہوا۔ پاکستان کے مسلمانوں سے اب بنگالی مسلمان بھی نفرت کرنے لگ پڑے، افغانستان اور کافی حد تک ہندوستان کے نیشنلسٹ مسلمان بھی۔ لیکن ہم نے کبھی بھی پورا تجزیہ نہیں کیا کہ فائدہ کتنا ملا اور نقصان کتنا اور مزید نقصان سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔ خیر اب ہم ایک الگ قوم ہیں اور ۱۹۴۷ء کی سیاست کو زیادہ زیر بحث لانا سانپ کی لکیر پیٹنے کے مترادف ہے۔ لیکن جہاں ماضی مستقبل کو متأثر کرے وہاں سب فیکڑز کو ڈسکس کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اب ہم جنوبی ایشیاء میں دوست کیسے بنا سکتے ہیں اور دشمنیاں کیسے ختم کر سکتے ہیں؟ ہمیں اس پہ فوکس کرنا چاہے۔ غلامی کے دور میں پیدا ہونے والی ہندو مسلم نفرت صرف مسلمانوں کی بدولت نہیں بلکہ بی۔ جے۔ پی کے فلسفہ اور تاریخ کی تشریع سے لگتا ہے، وہ کسی صورت مغلوں کو ان کا جائز مقام نہیں دیں گے اور باقی مسلمان بادشاہوں کے عادلانہ کردار کو بھی غلامی ہی سمجھتے ہیں۔ عملی طور پہ ہندوستان و جنوبی ایشیاء ایک نظریاتی تقسیم کا شکار رہے گا اور اسی وجہ سے نیشنلسٹ و شدت پسند بی۔ جے۔ پی کے دھڑے پاکستان کو ختم کرنے کی پالیسیوں پہ گامزن نظر آتے ہیں۔
پہلے تو پاکستان پہ الزام لگانا بھی کسی حد تک درست تھا لیکن ہندوستان کی موجودہ حکومت کی پالیسیاں بھی جارحانہ بلکہ غاصبانہ لگتی ہیں۔ امریکہ۔ ہند گٹھ جوڑ اور چین کے خلاف ہندوستان کا حسد کوئی افسانہ نہیں رہا۔ سرمایہ داری کو جس شدت کے ساتھ ہندوستان کے نیشنلسٹ و شدت پسند دھڑے قبول کرچکے ہیں، سامراج بہت جلد کھل کر ہندوستان کا ساتھ دے گا اور اس کے بدلے ایک بڑی مارکیٹ حاصل کرے گا۔ یورپ، امریکہ کی کم ہوتی ہوئی آبادی کے رجحانات سے بھی سامراج پریشان ہے آخرفروخت تو انسانوں کو ہی کرنی ہوتی ہے۔
پاکستان کی آبادی اگلے ۲۰ برسوں میں ۴۰ کروڑ سے تجاوز کر جائے گی، اس کو روزگار، معاشی سرگرمیوں میں اضافہ اور معاشی ڈھانچہ کو جدید بنانا پڑے گا۔ چوتھے صنعتی انقلاب کے مطابق اپنے معاشی، سیاسی اور سماجی مزاج کو ڈھالنا اور علاقائی مسائل کو جلد از جلد حل کرنا اور اپنی آزادی اور علاقائی حدود کا تحفظ کرنا پڑے گا۔
پاکستان کے گاؤں اور قصبات کو جدید بنانا اور ان کے صحت، ماحول، تعلیم کے مسائل حل کرنا، کسانوں کے گرتے ہوئے معیار زندگی اور کم اوسط عمر، بیماریوں کا تدارک، تعلیمی ڈھانچہ کو جدید کرنا اور چوتھے صنعتی انقلاب کے مطابق ڈھالنا۔
یہ سارے کام کون کرے گا؟
ہماری لیڈرشپ ایسے افراد کے ہاتھ میں جا رہی ہے جن کی آواز اور لہجہ ہی غلامی کے دور اور غلامانہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ ایسے افراد اور لیڈرشپ نہ تو پاکستان کے جغرافیے کو جانتے ہیں، نہ ہی جذبہ ہمدردی رکھتے ہیں اور نہ ہی ان میں اپنی ذات سے آگے بڑھ کر سوچنے کی صلاحیت ہے۔ ان کے جذبات، سوچنے کا انداز اور بولنے کا لہجہ سبھی ہم سے مختلف ہے اور جن کا ہم جیسا ہے وہ بھی اپنے بنک اکاؤنٹ باہر رکھتے ہیں۔
ہماری سیاسی جماعتوں میں اصلاحات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ فوج کو وہ بیرک میں جانے اور آئین کا سبق پڑھاتی ہیں، لیکن خود وہ آئینی ڈھانچے اور اس کی روح کے مطابق اپنے اندر لیڈرشپ کو پنپنے کا موقع نہیں دیتی ہیں، بلکہ پارٹی کو خاندانی وراثت کی طرح آگے منتقل کرتی ہیں۔ جب تک سیاسی جماعتیں اپنی اصلاح نہیں کریں گی، ملک میں دیر پا مسائل کو سمجھنے میں بہت دشواری آئے گی اور فوج کا کردار بھی سیاست میں ختم نہیں ہو سکتا، کیونکہ فوج کوئی خاندانی سیاست نہیں کرتی اور وہ ان سے زیادہ منظم بھی ہے۔
ایسا لگتا ہے موجودہ نظام ریاست اور اس کے حواری ملک میں سیاسی نورا کشی میں الجھے رہیں گے، اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کے مسائل حل نہیں کر پائیں گے۔ ایسے حالات میں ہندوستان کے مہابھارت کا خواب دیکھنے والے گماشتے اپنی ترجیحات پاکستان کو توڑنے میں لگا دے گا تو ہماری آزادی کا پھر اللہ حافظ ہے۔