“اشرفیاں لٹیں،کوئلوں پر مہر” کے مصداق کل ماؤں کو خوب رسوا کیا گیا۔ ضرب المثل کا مفہوم تو یہ ہے کہ ضروری کاموں میں کنجوسی، فضول کاموں میں بے دریغ استعمال کرنا۔ سال میں صرف ایک دن ماں کے لیے منتخب کرنے سے ماں کا تقدس تو اسی دن پامال ہو جاتا ہے۔ ماں جیسی عظیم ترین ہستی کے لیے ہر دن بھی’’ مدر ڈے‘‘ منایا جائے تو کم ہے۔ یہ کونسی محبت ہےکہ ماں کی تصویر کی نمائش پوری دنیا میں کی جائے۔ اور وہ ماں تصویر بننے کے ڈر سے شادی بیاہ پر بھی چھپتی پھرتی ہو اس کی محبت میں اظہار کا یہ کون سا طریقہ ہے؟ اگر محبت کا تقاضا یہی ہے کہ ماں کی تصویر انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کر کے ساتھ رٹے رٹائے چار لفظ لکھ دئیے جائیں تو پھر آئیے اپنی اسی محبت کا اظہار اپنی بیویوں،بہنوں اور بیٹیوں سے بھی کریں!! اگر ان رشتوں سے محبت ہے مگر آبرو کے ڈر سے ایسا نہیں کرتے تو ماں جیسی عظیم ہستی کو بے آبرو کرنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں!!!
آپ نے تو اپنی ماں کے ساتھ مسکراہٹ بھر ی تصویر اپ لوڈ کر دی مگر اسکو دیکھ کر انکے دل پر کیا گزری ہو گی جن کی ماں کی اس دنیا سے چلی گئی ہو گی۔ آپ نے تو داد کما لی مگر ان دکھیاروں کے دکھ کو کون سمجھے گا جو آپ کی یہ تصویر دیکھ کر اپنی ماں کے چہرے بناتے رہے ہونگے کیونکہ ان کو تو ہوش بھی نہیں تھا جب انکی مائیں انکو جنم دے کر اللہ کے پاس چلیں گئیں تھیں۔ آپ کی تو دھوم پڑ گئی مگر اس دھوم کو دیکھ کر اپنی ماؤں کو یاد کرتے ہوئے پرشکوہ آنسوؤں کا مدآوہ کون کرے گا!!
احتیاط کیجیے کہ آپ کے دکھلاوے کی بھینٹ کئی دل نہ چڑھ جائیں۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے پلیز صرف اسی کو فالو کریں۔ چھوڑ دیں یہ ریا کاریاں یہ سب فضولیات بلکہ وہ کریں جو کرنے کا حق ہے۔ ورنہ یہی ہو گا کہ ’’کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی چال بھول گیا‘‘۔