مملکت ِخداد ِپا کستان میں جس چیز کو ایک عام آدمی سب سے زیادہ نفرت کی نظر سے دیکھتا ، اور برا سمجھتا ہے وہ سیا ست ہے۔ جب بھی یہ لفظ گفتگو کی زینت بنتا ہے، عام آدمی اس سے صرف جھوٹ،دغا،فریب،مکاری وغیرہ ہی مراد لیتا ہے۔ کیا لفظ “سیاست” اتنا ہی برا اور قابل نفرت ہے یا اس کے غلط استعمال نے اس کو برا بنا دیا ہے؟
اگر ہم تھوڑا سا غور کریں تو ہمیں، اس سلسلے میں ایک چیز جو سمجھنے کو ملتی ہے، وہ یہ ہے کہ دراصل لفظ “سیاست” حکومت کرنے’ اور اقتدار میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان مناظرے یا بحث و مباحث سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کا مطلب باالفاظ دیگر یوں سمجھا جاۓ کہ سیاست، دراصل عوام کے حقوق کی جدوجہد کرنے اور ان کی جملہ ضرو ریات چاہے وہ مادی ہوں یا روحانی اُن کو پورا کرنے کا نام ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں ایک حدیث سے بھی رہنمائی ملتی ہے کہ ، جس کے مفہوم کے مطابق رسول اکرمﷺ نے فرمایا کہ بنی اسرا ئیل کے تمام انبیاء سیاست کیا کرتے تھے (بخاری)۔اب اگر سیاست کو مروجہ معنوں میں تسلیم کیا جاۓ تو مرقومہ بالا حدیث کا مطلب تو یوں بن جاتا ہے،کہ گویا وہ تمام مقدس ہستیاں اپنے اپنے زمانے میں،روشنی کی کرن بننے کی بجاۓ ہر قسم کی منفی سر گرمیوں کے مرکز تھے۔ مگر اس دھوکے کی اصل وجہ یہ ہے کہ آج سیاست کے نام پر جو کھلواڑ وطنِ عزیز میں کھیلا جا رہا ہےاس کو دیکھ کر ہر شخص یہی سمجھتا ہے کہ شاید اسی لوٹ مار اور افراتفری کا نام سیاست ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں مسائل کی اصل وجہ غلط سیاسی نظام اور اس سے منسلکہ غلط معاشی نظام ہے،کہ جس کی موجودگی میں ایک عام آدمی کا عرصۂ حیات اُس پر تنگ ہو چکا ہے، اور وہ مسائل کے انبار میں اِس قدر گھر چکا ہے کہ اب اس کو اپنی سب سے قیمتی متاع، یعنی زندگی ہی بوجھ لگنا شروع ہو چکی ہے۔
آج ہمارے معاشرے کے باشعور طبقے کے سامنے، جو سوال سر اٹھاتا ہے وہ یہ کہ آخر کیا وجہ ہے،کہ خدا کی پیدا کردہ نعمتوں سے چند مخصوص افراد ہی مستفید ہوں، اور ملک کی اکثریت بنیادی سہولیات تک سے محروم ہو؟ کیا یہ خدا کی تقسیم ہے؟ کیا غربت اور امارت کا اتنا بڑا فرق خدا کا رکھا ہوا ہے؟ کیا یہ خدا ہے جس نے اپنے بندوں کے اوپرعرصۂ حیات تنگ کیا ہوا ہے؟
مگر، جب ہم عقل و شعور کے ساتھ تجزیہ کریں، تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گےکہ، وسائل کی یہ غیر منصفانہ تقسیم اور غربت و امارت میں اتنا فرق دراصل خدا کی طرف سے نہیں بلکہ غلط اور ظالمانہ سیاسی نظام اور اس ظالمانہ سیاسی نظام کے حمایتی افراد کی طرف سے مصنوعی طور پر پیدا کردہ ہے۔
قرآنِ مجید کے اندر کئی مقامات پر اللہ رب العٰلمین نے فرمایا کہ وہ تو اپنے بندوں کے اوپر آسانی چاہتا ہے، بلکہ اس بات کے اوپر حد سے زیادہ زور دیا ہے کہ انصاف کو ملحوظِ خاطر رکھنا، حقدار کو اس کا حق ادا کرنا. بلکہ سورۃ حشر کے اندر جب مالِ فے کا مسئلہ بیان فرمایا تو ساتھ ہی ساتھ اس چیز کی حکمت کو بھی کھول کے رکھ دیا کہ زکوٰۃ اور دوسرے تمام قسم کے صدقات کا حاصل یہ ہے کہ یہ دولت چند ہاتھوں میں نہ رہے بلکہ تمام افراد معاشرہ میں گردش کرے۔ اس کے بعد اگر ہم نبی مکرم ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کا مطالعہ کریں تو ہمارے سامنے یہ بات بلکل واضح ہو جاتی ہے کہ دورِ مدنی میں جب آپﷺ کی حیثیت حکمران کی ہوئی، تو آپﷺ نے مدینہ کے اندر ایک ایسا سیاسی نظام بنایا کہ اس نظام کے اندر بلاتفریقِ مذہب، ملک، قوم ہر فرد کیلئے ترقی کی راہ کھولی تھی۔
انسان نہ صرف جسمانی طور پر آزاد تھے بلکہ عقلی اور لسانی آزادی بھی اُن کو حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ معلوم تاریخِ انسانی کے اندر آپ کو اتنا روشن دور نہیں ملتا، اُس زمانے کا انسان ذہنی طور پرسب سے ترقی یافتہ انسان تھا کیونکہ اُس زمانے کا سیاسی نظام اس بات کو یقینی بناتا تھا کہ خدا کی پیدا کردہ تمام نعمتوں سے تمام انسان خواہ وہ جو کوئی بھی ہوں، پورے کے پورے مستفید ہوں، انصاف کی فراہمی یقینی اور فوری ہو، کسی ایک خاندان، نسل یا قبیلے کی اجارہ داری نہ ہو، کاروبار کرنے کا حق صرف ایک طبقے کے پاس نہ ہو۔
لہذا آج بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے ملک کی ترقی اور اس کی خوشحالی کیلئے اُسی سیاسی نظام کو سمجھنے کی جدو جہد کریں تاکہ ہر لمحہ سسکتی اور تڑپتی انسانیت ایک بار پھر چین اور خوشحالی سے مالا مال ہو اور دیگر اقوام کو بھی اسلام کے اصل تشخص سے تعارف ہو جائے اور یہی اس دور کا سب سےاہم کام ہے۔
مناظر: 109