وقتاً فوقتاً یہ خبر پھیلتی ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اور فاطمہ بھٹو کے ذریعے بھٹو خاندان میں پھیلی خلیج کم ہونے لگی ہے اور اس حوالے سے یہ خبر بھی پھیل جاتی ہے کہ دونوں شاید رشتۂ ازدواج میں بندھنے جا رہے ہیں۔ کئی لوگ تو بڑے وثوق سے یہ بات کہہ رہے ہوتے ہیں۔ جن لوگوں کو بھٹو خاندان کے تنازع کی شدت کا تصور یا یقین نہیں، وہ اس خبر یا افواہ کو فوراً مان لیتے ہیں اور خصوصاً ذوالفقار علی بھٹو کے مداحین، وہ بھٹو خاندان میں تنازع کے خواہاں بھی ہوتے ہیں اور فاطمہ بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلزپارٹی کی مقبولیت کی بحالی کا خواب بھی دیکھتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ ایک خواب ہی رہے گا کہ فاطمہ بھٹو کبھی سیاست میں آئیں گی۔ اور جو لوگ حاکم علی زرداری کےنواسے جناب بلاول اور بھٹو کی پوتی کے مابین ازدواجی زندگی قائم ہونے کی شکل میں بھٹو خاندان کو ایک ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں، اُن کو فاطمہ بھٹو کی کتاب Songs of Blood and Sword: A Daughter’s Memoir پڑھ لینی چاہیے۔
میں نے بھٹو خاندان کے اس باہمی تنازع کو کافی قریب سے دیکھا ہے۔ اس تنازع میں اب لہو شامل ہوچکا ہے۔ فاطمہ بھٹو اپنے والد کو اوّلین ترجیح دیتی ہیں اور اُن کے خیالات، خدشات اور الزامات ان افواہوں کو مسترد کردینے کے لیے کافی ہیں۔ افسوس، بھٹو خاندان کی ٹریجڈی میں جہاں ریاست ایک کردار رہی ہے، وہاں اس ٹریجڈی میں خاندان کے اندر تنازع بھی ایک اہم فیکٹر ہے۔ اس تنازع اور فاطمہ بھٹو کو قریب سے دیکھنے کا ایک طویل مشاہدہ میرے لیے اس تنازع کی شدت اور خاندان کے مستقبل کو دیکھنے میں مددگار ہے۔ فاطمہ بھٹو نے اپنا کردار سیاست کی بجائے قلم میں طے کرلیا ہے اور اس حوالے سے انہوں نے دنیا میں خاص مقام بھی حاصل کرلیا ہے۔ وہ پاکستانی سیاست اور خاندانی سیاست میں دخل دینے سے ہمیشہ گریزاں رہیں گی اور اسی طرح اُن کا بھائی جونیئر ذوالفقار علی بھٹو بھی۔ فاطمہ بھٹو اپنی تحریروں میں مشرق کے موضوعات چنتی ہیں اور مغرب کے لیے لکھتی ہیں۔ یہ راز انہوں نے اس لیے پالیا کیوںکہ وہ مغرب میں طویل عرصے تک زیرتعلیم اورمقیم ہیں۔ اُن میں سیاست سے زیادہ ادیب کی شخصیت جھلکتی ہے۔ فاطمہ بھٹو کی ذہانت کے چرچے اس وقت زبان زدِعام ہوئے جب انہوں نے چودہ سال کی عمر میںWhispers of the Desert کے نام سے کتاب شائع کروائی جو انگریزی زبان میں اُن کی شاعری پر مبنی ہے۔ یقینا وہ ایک ذہین خاتون ہیں۔ 29مئی 1982ء کو جنم لینے والی فاطمہ بھٹو نے خاندانی اورعالمی تنازعوں کو جس قدر قریب سے دیکھا، اس نے اُن کی شخصیت سازی میں خاص کردار ادا کیا۔ کابل میں جلاوطن اُن کے والد میرمرتضیٰ بھٹو، جنرل ضیا کے خلاف سرگرمِ عمل تھے اور جنرل ضیا اُس وقت جہاں پاکستان میں جمہوریت پسندوں اور خصوصاً ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف سرگرمِ عمل تھا، اسی قدر کابل حکومت اور سابق سوویت یونین کے خلاف بھی۔ افغان جنگ اس خطے میں دہشت گردی کی ماں ہے، جس میں امریکہ نے کابل حکومت اور سابق سوویت یونین کے خلاف پراکسی وار میں دہشت گردی کو ایک ہتھیار بنایا۔ جنگ وجدل، دہشت گردی اور عالمی طاقتوں کے مابین تصادم اس وقت کابل پر مسلط تھا۔ مرتضیٰ بھٹو نے ایک افغان دوشیزہ فوزیہ فصیح الدین کے عشق میں گرفتار ہوکر رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے جس کے بطن سے فاطمہ بھٹو نے جنم لیا۔ کابل جیسے تنازعوں میں جنم لینے والی فاطمہ بھٹو کی آنکھوں نے مزید تنازعات اپنے خاندان میں دیکھے، جب اُن کے جواں سال چچا اور خالو شاہنواز بھٹو، فرانس کے ساحلی شہر کانز میں پُراسرار طریقے سے قتل ہوگئے۔ اس قتل کے بعد مرتضیٰ بھٹو اپنی بیٹی کو لے کر محفوظ مقام پر قیام کے لیے دمشق منتقل ہوگئے۔ اس سے قبل میر مرتضیٰ بھٹو نے اپنی بیوی فوزیہ بھٹو کو طلاق دے دی کیوں کہ بھٹو خاندان بشمول مرتضیٰ بھٹو کو اپنے بھائی کے قتل کا شک فوزیہ کی بہن ریحانہ پر تھا جو شاہنواز بھٹو کی شریک حیات تھیں۔ شام اُس وقت اگرچہ ایک پُرامن اور مرتضیٰ بھٹو کے لیے ایک محفوظ ملک تھا، اس لیے کہ شام کے صدر حافظ الاسد، ذوالفقار علی بھٹو کے تادمِ مرگ اس لیے ممنون رہے کہ انہوں نے جنگ رمضان میں شامی فضا کو پاکستانی فضائیہ کی مدد سے اسرائیلی جارحیت سے محفوظ رکھا۔ دمشق، دنیا کا قدیم ترین اورعرب دنیا کا اہم ترین شہر ہے۔ ایک پُرامن شہر کے باوجود وہ خطے میں طویل تنازع میں مہاجرین کی آماج گاہ بھی رہا۔ فلسطینی مہاجرین اور فدائین کے ساتھ لبنان میں جاری خانہ جنگی جس نے بڑی تعداد میں لبنانیوں کو شام میں ہجرت پر مجبورکیا جن میں غنویٰ کا ایطانی خاندان بھی شامل تھا۔ غنویٰ، فاطمہ بھٹو کی اتالیق تھیں۔ لبنان میں جاری خانہ جنگی کی شکار غنویٰ، فاطمہ بھٹو کے لیے ایک اور تجربہ تھا تنازعوں کو قریب سے دیکھنے کا۔ لبنان کے ساتھ واقع ملک میں قیام نے فاطمہ بھٹو کی شخصیت پر یقینا اثرات مرتب کیے۔ مرتضیٰ بھٹو اپنی بیٹی کی اتالیق غنویٰ کے ساتھ دمشق میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے اور یوں غنویٰ بھٹو کے بطن سے ذوالفقار علی بھٹو کے پوتے نے جنم لیا جو بھٹو خاندان کی واحد اولادِ نرینہ ہیں۔ جنگوں، تصادم اور تنازعات میں جنم لینے والی فاطمہ بھٹو نے اپنے والد اور پھوپھی کے مابین ابھرتے تصادم کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ جب وہ پاکستان واپس آئے تو انہوں نے اسی تنازعے کی شدت کو سیاست کے میدان میں پھلتے پھولتے اور پھیلتے دیکھا۔ جلاوطنی سے جیل اور جیل سے رہائی تک مرتضیٰ بھٹو اس خاندانی تنازعے میں سر تک ڈوبے رہے۔ تنازعے کو شدت دینے والے ہاتھوں نے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا اور یوں فاطمہ بھٹو نے اُن گولیوں کی آوازیں اپنے کانوں سے سنیں جنہوں نے اُن کے والد کو اس دنیا سے رخصت کیا۔ تنازعات میں جنم لینے اور پلنے بڑھنے والی فاطمہ بھٹو کیا سیاست میں قدم رکھیں گی؟ میرے نزدیک یہ سوال ہی نہیں بنتا۔ وہ کبھی بھی سیاست کے میدانِ کارزار میں قدم نہیں رکھیں گی۔ وہ اپنا کردار اپنے قلم سے طے کرچکی ہیں اور اسی میں اپنی زندگی بِتانے کا فیصلہ کرچکی ہیں۔ اُن کا Pride اُن کے والد اور دادا ہیں، اور قلم اُن کا اظہار۔