بچپن سے جن دو لوگوں کو بہت چاہا، وہ ہیں منو بھائی اور ڈاکٹر انور سجاد۔ جوان ہوا تو یہ چاہت عشق میں بدل گئی۔ ان دونوں سے تعارف پاکستان ٹیلی ویژن کی نشریات سے ہوا جو ٹیلی ویژن کی وساطت سے میرے دل میں اترے، ڈاکٹر انور سجاد کے ڈرامے اور اداکاری اور منوبھائی کا مشہورِزمانہ ڈرامہ جھوک سیال، جس میں ’’پیر سائیں آندا، مٹھے چول کھاندا‘‘۔ اس وقت ٹیلی ویژن چوبیس گھنٹے کی نشریات کرنے کے اہل نہیں ہوا تھا۔ چند گھنٹے کی نشریات اور سوموار کو مکمل چھٹی۔ اور چھٹی والے دن ہم بند ٹیلی ویژن کی سکرین کو گھور گھور کر دیکھتے تھے کہ شاید کچھ برآمد ہوجائے۔ منوبھائی سے چاہت سے عشق کا سفر طویل ہے، میرے بچپن سے جوانی اور پھر اب تک۔ منو بھائی میری زندگی کی تین دہائیوں کے گواہ بھی ہیں۔ میری خوشی یعنی جن کو چاہا، عشق کیا، وہی جلد ہی کاروانِ جدوجہد کے ہمسفر بنے۔ منو بھائی سے دوستی نہیں ہوسکتی، بس عشق ہی ہوسکتا ہے، اور ہوا اور خوب ہوا۔ اس لیے کہ وہ بھی کسی سے دوستی نہیں کرتے، عشق کرتے ہیں۔ جب کرتے ہیں تو خوب کرتے ہیں۔ اُن کے قلم نے کیا کچھ نہیں لکھا، ڈرامہ، افسانہ، کالم، خبر اور اشعار۔ ہر تحریر میں ایک ہی موضوع ہے، سماج اور انسان۔ مزدور اور کسان۔ بھوکے اور بے بس لوگ۔ غریب اور محنت کش لوگ۔ وہ اپنے لفظوں سے اُن کو مضبوط کرنے میں دہائیوں سے جُتے ہوئے ہیں، نہ کبھی رکے نہ سستائے اور نہ ہی کبھی گھبرائے۔ جنرل ضیاالحق کا جابر آمرانہ دَور بھی اُن کے سفر کو متاثر نہ کرسکا۔ شاعرلوگ اپنے شعر لیے محفل محفل گھومتے ہیں اور ایک وہ ہیں کہ اُن کے شعر گلی گلی گونجتے ہیں کیوںکہ ان کے شعر جبریت، آمریت، استحصال اور سٹیٹس کو کے خلاف، سماج اور عوام کی آواز ہیں۔
’’احتساب دے چیف کمشنر صاحب بہادر،
چوراں، ڈاکواں، قاتلاں کولوں،
چوراں، ڈاکواں، قاتلاں بارے کیہہ پچھدے او۔۔۔ایہہ تہانوں کیہہ دسن گے۔۔۔
درداں کولوں لوو شہادت، زخماں کولوں تصدیق کرا لو،
ساڈے ایس مقدمے دے وچ، ساہنوں وی تے گواہ بنا لو‘‘
ایک وقت تو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے منوبھائی کو مشرقِ وسطیٰ بھیجا کہ جائو فلسطینیوں پر فلم بنائو۔ ایک دلچسپ داستان ہے اس فلم کی۔ بڑے بڑے شاعر، ناول نگار، افسانہ نگار، کالم نگار، لفظوں سے کھیلتے ہیں، اور اکثر یہ بڑے ادیب حکمرانوں کے درباروں میں بیٹھ کر کھیلتے ہیں۔ مگر منوبھائی ہیں کہ سیاسی یا فوجی حکومتیں نہ اُن کو خرید سکیں اور نہ ہی اُن کی شریک حیات ہماری آنٹی اعجاز اور اُن کے بچوں کو خرید سکیں اور نہ ہی انہوں نے کبھی اپنی ایمان داری کا ڈھنڈورا پیٹا۔ اُن کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ میں اُن سے عشق بھی کرتا ہوں اور تعریف اور تنقید بھی ۔ جی ہاں ہمارے ہاں تعریف کے ساتھ ساتھ تنقید کی ثقافت ہے۔ یہ ہی ترقی پسندوں کی خوبی ہے بلکہ خود تنقیدی (Self Criticism)کی ثقافت جو آپ کو حقائق تلاش کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اور پھر خود تنقیدی آپ کو نفی ذات (Self Negation) کی طرف لے جاتی ہے۔ ایک صوفی، اور درویشی کی طرف۔ منو بھائی اگر روحانی دنیا میں بازار سجاتے تو اس ملک کے بڑے صوفیا میں شمار ہوتے۔ کئی ادیبوں نے ایسے بازار سجائے اور صوفی درویش ہونے کی شہرت حاصل کرلی۔ حالاںکہ ایسے ادیبوں کی زندگیاں حکمرانوں کے درباروں میں گزر گئیں جبکہ صوفی کی نشانی ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ حکمرانوں کے درباروں کی بجائے عوامی درباروں میں پائے جاتے ہیں۔ بھلا ایک درویش کا حکمران کے دربار سے کیا تعلق۔ منو بھائی کا دربار انسان اور انسانیت ہیں۔ میرا گواہ، میری جدوجہد کا گواہ، منوبھائی۔
شکر ہے مرد کا سرعام بوسہ لینے پر ہمارے ہاں قانونی گرفت نہیں ہوتی، وگرنہ میں کئی بار گرفتار ہوچکا ہوتا اس جرم میں۔ حالاں کہ مشرقِ وسطیٰ کے مسلمان ممالک میں مرد ایک دوسرے سے ملنے پر گالوں پر تین بار بوسہ لیتے ہیں۔ مجھے منو بھائی ملیں اور میں اس شفاف چہرے والے محبوب کا بوسہ نہ لوں تو یہ ممکن ہی نہیں۔ یہ بوسہ اُن کے نظریات ، فکر اور عمل کا بوسہ ہوتا ہے۔ مسکراتی آنکھوں والے منو بھائی کی آنکھوں کو کبھی آپ نے غور سے دیکھا؟ دیکھیں، ان کے اندر ایک تاریخ تو جذب ہے، اُن کی آنکھوں میں انسان کا عشق بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ اور جب اُن کے چہرے پرآنکھیں ، لب و رخسار اکٹھے مسکراتے ہیں تو جو خوشی مجھے ملتی ہے، اس کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں۔ انسانوں، محنت کشوں، مزدوروں، بے سہارا اور غریبوں کا منو بھائی۔ چند سال مجھے جو بڑی خوشیاں ملیں، اس پر میں خدا کا بے شمار شکرگزار ہوں۔ میں نے دو پیاروں کو موت کی وادی سے واپس آتے دیکھا۔ میرے والد صاحب یعقوب گوئندی، ڈاکٹروں نے بیٹا ہونے کے ناتے میرے دستخط لیے۔مگر صبح ہونے تک انہوں نے دوسرا جنم لیا۔ دوسری خوشی منو بھائی۔ میں اور ریما گوئندی جب منوبھائی کو ہسپتال میں ملنے اُن کے کمرے میں گئے۔ شیشے کے باہر سے انہیں دیکھ کر میں پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔ اوہ میرا ایک محبوب جا رہا ہے اس دنیا سے۔ میں ہسپتالوں میں اسی لیے نہیں جاتاکہ مجھ میں وہ حوصلہ ہی نہیں جو انسانوں کو سسکتے اور مرتے دیکھ سکے۔ ایسا رویا کہ میرا رونا رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ میں نے بچوں کی طرح بڑبڑاتے ہوئے کہا، ریما! منو بھائی بھی۔۔۔ آہ اور پھر چند روز بعد وہ موت کو شکست دے کر واپس آگئے۔ قلم، علم، فکر اور جدوجہد کا وہیں سے آغاز کیا جہاں رکی تھی۔ میرے خدا نے اس طرح میرے دو پیارے مجھے لوٹا دئیے۔ منوبھائی جب بھی ملتے ہیں، اگر ریما ساتھ نہ ہو تو پوچھتے ہیں، ’’ووہٹی دا کیہہ حال اے۔‘‘ میرے گواہ ہیں، جہد مسلسل کے گواہ۔ سیاست کروں، لکھوں یا اشاعت کروں جس طرح اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، وہ میرا سرمایہ اور طاقت ہے۔ انہوں نے انسانوں سے عشق کرنا ہی نہیں سیکھا بلکہ انسانوں اور انسانیت کا عملی طور پر ساتھ دیتے ہیں۔ ایک مرتبہ میں اور ریما اُن کو اپنے ادارے جُمہوری پبلیکیشنز کی شائع کردہ کتابیں دینے گئے۔ یکدم اٹھے، اپنی میز کی طرف گئے، اپنے بریف کیس میں ہاتھ ڈالا اور پوچھا، گوئندی، مالی امداد قبول کرتے ہو؟ میں نے کہا، ہمارا کوئی ڈونر نہیں۔ ہماری کتابوں کے ڈونرز اس کے خریدار ہیں جو ایک ایک کتاب خریدتے ہیں۔ بولے، نہیں تمہیں ڈونیشن لینا ہوگی۔ اور بیگ کھول کر پانچ ہزار عنایت کردئیے۔ واپس دفتر آکر میں نے آمدن کے روزنامچے میں درج کردئیے۔ بالکل اسی طرح انقرہ میں موجود ڈاکٹر اے بی اشرف نے بھی ڈونیشن دی۔ یہ حکمرانوں، عالمی اداروں سے کہیں زیادہ اثر رکھتی ہے اور یہ مقدس ڈونیشنز ہیں۔ خون پسینہ ایک کرکے رزق کمانے والے کے رزق کا جو لطف ہے وہ کسی حرام کمائی کے کھانوں میں کہاں۔ میرا شمار ملک کے مخیر حضرات میں نہیں ہوتا، اس لیے میں مخیر حضرات کی طرح کی تاریخ نہیں رکھتا۔ میرے کارواں میں تو بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید اور ملک معراج خالد جیسے لوگ ہوئے ہیں۔ بے وسیلہ لوگ، لیکن جو وہ کرگئے، وہ مخیر حضرات کرنے سے بھی قاصر ہیں، اسی کاروانِ جدوجہد کے ایک راہی منوبھائی بھی ہیں۔ قلم، علم اور فکر سے جو کیا سو کیا، اب جو کررہے ہیں، وہ اُن کے انسانیت سے عشق کی انتہا ہے۔
میرے جیسے کم وسیلہ شخص کو جب چند سال پہلے سندس فائونڈیشن دیکھنے کا تجربہ ہوا تو میں حیران ہوا اور متاثر بھی۔ ایک منفرد ادارہ جو خلقِ خدا کی خدمت، خلق خدا کے رزق سے کرتا ہے، عالمی اداروں کے فنڈز سے نہیں۔ مجھے علم نہیں تھا کہ یہاں بھی منو بھائی ہی سہولت کار ہیں۔ بس پھر جو ہوا، وہ سندس فائونڈیشن کے لیے۔ ایک دن میں اور ریما اپنے دفتر جا رہے تھے، یکایک ریما خوشی سے اونچی آواز میں بولی، Look Munno Bhai’s Posters on electric poles. کہنے لگی، منوبھائی بہت مشہور ہوگئے ہیں۔ بجلی کی کھمبوں پر ان کی تصویروں والے بینرز آویزاں ہیں، کیا ہوا ہے۔ بچوں کے ساتھ منوبھائی کی تصویر ہے۔ بہت خوش تھی اپنے دوست منوبھائی کے بینرز دیکھ کر۔ بینرز اردو میں تھے، اس لیے ریما پڑھنے سے قاصر تھی۔ میں نے کہا، ریما! منوبھائی ، سندس فائونڈیشن کے پلیٹ فارم سے تھیلی سیمیا، ہیمو فیلیا اور بلڈ کینسر کے شکار غریب بچوں کے لیے علاج کے لیے بھی متحرک ہوچکے ہیں۔ ریما کا خوش چہرہ یکدم آنسوئوں سے بھیگ گیا، پرس کھولا اور ایک بڑی رقم مجھے تھماتے ہوئے کہا، کیا دفتر جانے سے پہلے میں اپنا حصہ ڈال سکتی ہوں۔ میں نے کہا، کیوں نہیں۔
ترقی پسند دانشور منوبھائی آج 6000 سے زائد بلڈ کینسر کے شکار غریب بچوں کے لیے بھیک مانگ رہا ہے۔ اس فقیر کو 30کروڑ درکار ہیں۔ زندگی کی امیدیں لگائے فرشتوں کے لیے۔ ہم اپنی محنت کی کمائی خدا کے عطاکردہ رزق سے کتنی زندگیاں بچا سکتے ہیں، اس کا نحصار ہمارے فیصلوں پر ہے۔ زکوٰۃ یا خیرات کسی بھی مد میں۔ مسلمان اور غیرمسلم سب۔ کیا ہے 30کروڑ روپیہ، اگر صرف مجھ جیسے چند کالم پڑھنے والے ہی اپنا حصہ ڈال دیں تو یہ رقم پوری ہو جائے گی۔ خلق خدا کے حقوق، حقوق اللہ سے کہیں زیادہ ہیں۔ حقوق اللہ کا تعلق، بندے اور انسان سے براہ راست ہے۔ حقوق العباد جسے میں جدید زبان میں People’s Rights کہتا ہوں، اس کی روزِقیامت معافی نہیں۔ اگر ہم چاہیں تو ایک دن کی بات ہے تیس کروڑ کا ٹارگٹ پورا کیا جاسکتا ہے۔ دیکھیں اپنی جیبوں کو، ڈالیں حصہ اور بچا لیں انسانیت میں سسکتے معصوم بچوں کو ، ہماری جیبوں سے اُن کی زندگیاں بچ سکتی ہیں۔ سندس فائونڈیشن کے اکائونٹس کی تفصیل:
فیصل بینک (ڈونیشن اکائونٹ): 0465005180111005
الائیڈ بینک (زکوٰۃ اکائونٹ): 0010012282530021
ٹیلی فون:042-37422131-32/ 37422140-41
جیوے منو بھائی، جیوے بچے، جیوے جیوے پاکستان۔