حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے صاحبزادے کو کچھ نصیحتیں فرمائیں تھیں جن کا ذکر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن مجید کی سورۃ لقمان میں فرمایا ہے:
قرآن مجید میں لقمان کے عنوان سے ایک سورت ہے، اس سورۃ کا نام اس لئے لقمان ہے کیونکہ اس میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے حضرت لقمان کی اُن نصیحتوں کا ذکر کیا ہے جو انہوں نے اپنے صاحبزادے کو کی تھیں۔ یہ نصیحتیں ایک رکوع پر مشتمل ہیں، نصیحتوں کے ساتھ تضمناً اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے شکر کی اہمیت، والدین اور خاص طور پر والدہ کے مقام کو بیان کیا ہے۔ شکر کا بیان مختلف پیرائے میں اس رکوع میں موجود ہے۔
حضرت لقمان کے متعلق فرمایا:
وَلَقَدْ آتَیْْنَا لُقْمَانَ الْحِکْمَۃَ أَنِ اشْکُرْ لِلَّہِ وَمَن یَشْکُرْ فَإِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہِ وَمَن کَفَرَ فَإِنَّ اللَّہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ (لقمان :12)
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے حضرت لقمان کو حکمت عطا فرمائی تھی، حکمت اسی معنی میں ہے جسے ہم اردو میں دانائی کہتے ہیں حضرت لقمان علیہ السلام ایک مملکت کے فرمانروا تھے اور آپ نے اپنے بیٹے کو یہ نصیحتیں اسی خاص تناظر میں کی ہیں جو ایک فرمانروا کے لئے اِن صفات کا اپنی ذات میں پیدا کرنا ضروری ہے تاکہ وہ مملکت کو بہتر انداز سے چلا سکے اور رعایا کے لئے ایک قابل تقلید مثال بن سکے۔ دانائی و دانش کا پہلا حق تو یہ ہے کہ انسان اپنے رب تعالیٰ کا شکر گزار ہو کیونکہ یہ شکر انسان کے اپنے لئے سود مند ہے۔ انسان کسی نیکی کو اختیار کرتا ہے تو وہ خود اس سے مستفیض ہوتا ہے اور اگر بری راہ اختیار کرتا ہے تو اس کا وبال بھی اُسی پر ہوتا ہے۔ اس اہم بات کو یہاں بیان کر دیا گیا، باقی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات بے نیاز ہے وہ ہر حال لائق ستائش ہے۔ اس کی تعریف میں نہ بھی کروں تو اس کی شان میں کوئی کمی نہیں آتی۔ سب سے پہلی نصیحت، شرک کی ممانعت ہے۔ حضرت لقمان نے فرمایا:
یَا بُنَیَّ لَا تُشْرِکْ بِاللَّہِ إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ (لقمان: 13)
’’اے میرے پیارے بیٹے! اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھہرا‘‘۔ کیونکہ شرک ظلم عظیم ہے۔یہ شرک کی ممانعت کی دلیل ہے کیونکہ محسن کے احسانات کی فراموشی ظلم ہے، وہ خدا کہ ہمارا وجود جس کا محتاج ہے اُس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرا دینا ظلم عظیم ہی ہو گا۔
ایک اصول بھی بیان کر دیا کہ:
وَإِن جَاہَدَاکَ عَلی أَن تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا وَصَاحِبْہُمَا فِیْ الدُّنْیَا مَعْرُوفاً (لقمان: 15)
والدین کے ساتھ نیکی اور حسنِ سلوک کا ذکر تاکیدی طور پر فرمایا دیا لیکن یہ بھی بتا دیا کہ اُن کی اطاعت و احسان کی حدّ یہ ہے کہ اگر وہ شرک پر مجبور کریں تو اُن کی اطاعت نہیں کرنی لیکن دنیاوی معاملات میں اُن کے ساتھ رہنا ہے۔ اس بات کے دو پہلو ہیں ایک یہ کہ شرک وہ ظلم عظیم ہے جس پہ کوئی سمجھوتہ نہیں ہے اور والدین کا مقام یہ ہے کہ وہ مشرک بھی ہوں تو پھر بھی اُن کے ساتھ حسن سلوک اور معاملاتِ دنیا میں ساتھ چلنے کی تلقین فرما دی۔ اب دوبارہ حضرت لقمان کی نصیحت کا ذکر ہے اور یہ نصیحت انسان کے اعمال، خیال اور ارادے پر پہرہ بٹھانے سے متعلق ہے، یہ پہرہ تب بیٹھتا ہے جب یہ یقین و ایمان اپنے دل و دماغ میں جاگزیں کر لے کہ میرا چھوٹے سے چھوٹا عمل خدائے وحدہ لا شریک سے پوشیدہ نہیں ہو سکتا، قیامت کے روز وہ اُسے لے آئے گا۔ بہت ہی خوبصورت پیرائے میں قرآن اس نصیحت کو بیان کرتا ہے:
یَا بُنَیَّ إِنَّہَا إِن تَکُ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَکُن فِیْ صَخْرَۃٍ أَوْ فِیْ السَّمَاوَاتِ أَوْ فِیْ الْأَرْضِ یَأْتِ بِہَا اللَّہُ إِنَّ اللَّہَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ (لقمان: 16)
اس کے بعد حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو اقامت الصلوۃ، امربالمعروف و نہی عن المنکر اور صبر کی تلقین فرمائی۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ نماز پڑھنے کے بجائے نماز کے قائم کرنے کا فرمایا۔ یہ دو الفاظ اپنے معنی و مفہوم میں خود واضح ہیں۔ نماز کے اپنے تقاضے ہیں جن کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے اگر انہیں بجالایا جائے اور اپنی زندگی میں شامل کر لیا جائے تب صلوۃ قائم ہوتی ہے۔ حضرت لقمان ایک حکمران تھے اور صاحبزادے نے بھی ایک روز زمام اقتدار سنبھالنی تھی اس لئے خاص طور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا ذکر کر دیا یہ ذمہ داری اُسی کی ہے جس کے پاس کسی نہ کسی صورت میں اختیار ہے۔ چونکہ ان فرائض کی ادائیگی باد مخالف بھی چلتی ہے ، دوست، دشمن اور اپنے پرائے ہو جاتے ہیں کچھ لوگ تو جان کو آجاتے ہیں تو ایسے حالات میں صبر کی تلقین فرما دی۔ شکر اور صبر دونوں صفات کا ذکر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرما دیا۔ ایک مومن کی شخصیت انہی دونوں صفات کا مجموعہ ہوتی ہے اگر عزت ملتی ہے تو شکر بجا لاتا ہے اور اگر مشکلات آتی ہیں تو صبر کرتا ہے۔ اور صبر ویسے بھی بہت مشکل معاملہ ہے اس لئے فرما دیا:
إِنَّ ذَلِکَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ (لقمان: 17)
حضرت لقمان نے اپنے پیارے صاحبزادے کو ذاتی اخلاق کے حوالے سے نصیحت فرمائی:
وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِیْ الْأَرْضِ مَرَحاً إِنَّ اللَّہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ (لقمان: 18)
جب مرتبہ و منصب انسان کو عطا ہوتا ہے تو انسان سے دو رویے متوقع ہوتے ہیں، ایک رویہ کہ لوگوں سے بے رخی (تکبر کی وجہ سے) اختیار نہیں کرتا اور زمین پر اکڑ کر نہیں چلتا دوسرا رویہ ہے کہ وہ بے رخی اختیار کرتا اور زمین پر اکڑ کر چلتا ہے۔ چونکہ مومن مرتبہ و منصب کو ذمہ داری اور فریضہ خیال کرتا ہے تو وہ لوگوں کا خادم بن کر اُن کے کام آتا ہے اور اللہ کے خوف و خشیت کے باعث عجز و انکسار کا پیکر بن جاتا ہے۔ اُسے معلوم ہوتا ہے کہ میرا خدا متکبر اور اِترانے والے کو پسند نہیں کرتا۔
مندرجہ بالا آیت میں دو کاموں سے منع فرمایا اور اب حضرت لقمان دو باتوں کا حکم دے رہے ہیں:
وَاقْصِدْ فِیْ مَشْیِکَ وَاغْضُضْ مِن صَوْتِکَ إِنَّ أَنکَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ (لقمان: 19)
اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرو اور آواز کو آہستہ رکھو، متکبر، خودپسند شخص کی چال میں کبھی میانہ روی نہیں ہو سکتی۔ وہ کیسے اعتدال، میانہ روی سے چلے گا اور آواز کو آہستہ رکھے گا جب کہ یہی دو طریقے ہیں جس سے وہ وسروں پہ رعب ڈالتا اور اپنی فرعونیت کا اظہار کر سکتا ہے۔ آواز کا زیروبم انسان کے اختیار میں ہے وہ چاہے تو آواز کو آہستہ کرے اور چاہے تو آواز کو اونچا کر لے۔ آواز کا آہستہ ہونا خوش نما اور سماعتوں کو بھلا لگتا ہے… آواز کا اونچا ہونا بدنما اور سماعتوں کو بُرا لگتا ہے۔ اِس فرق کو سمجھنا ہے تو گدھے کی آواز سے سمجھا جا سکتا ہے۔
حضرت لقمان کی یہ نصیحتیں اولاد کے تشکیل کردار میں بہت معاون ہیں والدین ان نصیحتوں کو جہاں خود پڑھیں وہاں اپنی اولاد کو فقط سنائیں نہیں بلکہ انہیں یاد کروا دیں تاکہ وہ حافظے سے اپنے عمل میں منتقل کریں۔ فقط قرآن مجید کا اعجاز ہے کہ نصیحتوں کو آسان ، قابل فہم اور انسانی نفسیات کے مطابق بیان کر دیا گیا ہے۔