جنگ عظیم دوم کے بعد کوریا دو حصوں میں بانٹ دیا گیا۔ امریکی فوجیں کوریا اور جاپان میں براجمان رہیں۔ 1948میں کوریا کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ کوریا کو نظریاتی طور پہ تقسیم کرنے کی وجہ جنوبی دھڑے میں امریکی ماڈل آف جمہوریت و معیشت و طرز زندگی تھا جبکہ شمالی دھڑا کمیونسٹ معاشی نظریہ اور پارٹی کی حکومت کا داعی بن گیا۔ اس تقسیم کے بعد دونوں دھڑوں میں جنگ کا ہونا ناگزیر ہو گیا تھا۔ ان حالات کا فائدہ امریکہ کو ہوا، اور اسے ایک لمبے عرصے کے لے اپنی فوجیں اس خطے میں رکھنے کا موقعہ مل گیا۔ 1953 میں جنگ کے اختتام کے بعد جنوبی کوریا ایک کمزور ملک تھا اور امریکہ سے فوجی معاہدہ کرنا اس کی مجبوری بن گیا اور امریکہ کو قانونی طور پہ 2015 تک اپنی فوجیں رکھنے کا موقعہ مل گیا۔
ان حالات میں جنوبی کوریا کی قیادت نے امریکہ سے سیاسی معاہدات کے ذریعےملک کی معیشت کو مظبوط کرنا شروع کیا۔ کوریا سارا کا سارا پہاڑوں پہ مشتمل ہے۔ پاکستان جیسے میدان بھی نھیں رکھتا کہ اپنی وافر غذا پیدا کر سکے۔ لیکن پہاڑوں کی چھوٹی چھوٹی کیاریاں بنا کر اپنی ضرورت کے چاول خود اگاتا ہے اور چاول کی خوراک کو ہی انہوں نے اپنی تہذیب کا حصہ بنا لیا ہے۔
کوریا جنگ کے پانچ سال بعد ہی کوریا نے امریکہ سےانرجی کے معاہدے کیے اور ملک میں نیوکلیئر توانائی کا سارا انفراسٹرکچر لانا شروع کردیا۔ جس میں میٹلرجی (دھاتیں صاف کرنا) سے لے کر پلانٹ بنانے کی ساری انجیئنرنگ و ٹیکنالوجی شامل ہے۔ کیمیکل بنانے والی فیکٹریوں کا سارا انفراسٹرکچر ہے۔
افرادی قوت کی فنی و ادارہ جاتی تربیت (مجھے یہ دیکھ کے خوشی ہوئی کہ ہمارا ادارہ جاتی نظم جدید ہے ) کے لیے امریکہ سے معاہدے کیے۔امریکہ کی بڑی انجیئنرنگ کمپنیاں جن میں جنرل الیکڑک وغیرہ شامل ہیں ،کی مدد سے ملک میں پلانٹ لگائے ۔ دوسرے مرحلے میں وہ پلانٹ کی کاپیاں اپنے ملک میں خود تیار کیں اور آج کل تیسرے مرحلے میں پلانٹ کے نئے ماڈل مارکیٹ میں لا کر بیچ رہا ہے۔جو کہ کورین ٹیکنالوجی بن گئ ہے۔ اس سب ترقی کی بنیاد سٹیل کی صنعت کو بھی متوازی پروان چڑھایا اگرچہ خام مال باہر سے لینا پڑتا ہے۔ اس وقت کوریا بجلی بنانے کی تمام صنعتیں، جس میں سٹیل، پلانٹ کے ڈایزائن بنانا ، پلانٹ بنانا، پلانٹ چلانا اور فضلہ کو قابل عمل بنانے کی صنعت شامل ہے، میں خود کفیل ہو چکا ہے۔اس دور میں جس ملک نے یہ ساری چین پہ قابو کر لیا اس کو ترقی سے کوئی نہیں روک سکتا۔
جنوبی کوریا کی قیادت کی سیاسی سوچ (1950) اس وقت کے کمزور ملکوں کی قیادت سے برتر لگتی ہے۔اگرچہ جنوبی کوریا امریکہ کی عالمی فوج کشی میں ساتھ رہا ہے۔ جن میں ویت نام جنگ و عراق جنگ ہے۔ لیکن قیادت فیصلے ملکی فائدے کے لیےہی کرتی رہی۔ قیادت نے ملک کا ڈھانچہ نیشنل ازم کی بنیادوں پہ استوار کیا ہے جس کی وجہ سے یہاں مذہب دوسرے درجہ پہ ہے اور سماجی رسوم و مزاج قومی ہے۔ اور باوجود عیسائیت پھیلانے پہ کروڑں ڈالر لگ چکے ہیں لیکن وہ سماجی زندگی میں اثر پیدا نہیں کر سکی(البتہ مذہبی جنونیت مستقبل میں خرابیاں پیدا کر سکتی ہے)۔ قیادت بدلتے ہوئے حالات کے مطابق ملکی مفادات کے لے پالیساں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
کوریا کے پرائیویٹ شعبہ میں کار کی صنعت قابل ستائش ہے۔ جس میں مشہور کمپنیاں’’ہنڈائی‘‘اور’’کییا‘‘ موٹرز ہیں۔ اس کے علاوہ الیکڑانک کے شعبہ میں’’سام سنگ‘‘ اور’’ایل جی‘‘ کے نام ہیں۔ یہ دونوں کمپنیاں الیکڑانک کے علاوہ باقی ضرورت زندگی کی چیزیں جن میں کچن میں استعمال ہونے کئ چیزیں ہیں،جو وہ بناتے ہیں۔ اس کے علاوہ ’’ایس کے‘‘ اور ’’ کے ٹی‘‘سیلولر کمپنیاں ہیں۔ ان کی سروسسز پہ ریگولیڑری کنٹرول ہے، جس کی وجہ سے جرائم کم ہیں۔
’’پوسکو‘‘اور ’’ڈائجن ہیوی سٹیل‘‘قابل ذکر ہیں، جو میٹل (دھات) بناتے ہیں۔بڑے ڈیپارٹمنٹ سٹور کے شعبہ میں ’’لوٹے‘‘ اور’’ہوم پلس‘‘ مشہور ہیں۔
ٹیکسز
ٹیکسز بلواسطہ اور بلاواسطہ دونوں طرح لئے جاتے ہیں۔ اوپر ذکر کی گئ کمپیناں بلاواسطہ ٹکیس کی مد میں اربوں ڈالر جمع کر کے حکومت کو دیتی ہیں، جس کی وجہ سے حکومتی حلقوں اور خارجہ و داخلہ پالیسی پہ اثر انداز ہوتی ہیں۔ جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔
بالواسطہ ٹیکسز کی حد تقریبا دو لاکھ روپے ماہانہ بنتی ہے جبکہ یہاں چیزیں چارگنا مہنگی ہیں لیکن ’’آمدن سے اخراجات‘‘ کی نسبت پاکستان سے زیادہ ہے تو لوگ ہم سے مطمئن ہیں۔ لیکن بے چین ضرور ہیں۔
صحت کا شعبہ
صحت کا شعبہ زیادہ تر پرایئوٹ ہے۔ انشورنس کے بغیر علاج ناممکن ہے۔عام انشورنس کی ماہانہ پریمئم 4600 روپے ہے، لیکن یہ محدود بیماریوں کو تحفظ دیتی ہے۔
سڑکیں اور شاہراہیں
اس شعبے میں کوریا نے کافی ترقی کی ہے۔ چونکہ یہ ایک پوٹھوہاری خطہ ہے۔ تو ان کو سڑکیں بنانے کے لیے پہاڑکاٹنے پڑے اور ان کو جگہ جگہ سرنگین بنانا پڑیں اور اسی وجہ سے یہ لوگ اس شعبہ میں کافی ماہر ہو گئے ہیں۔
تعلیم کاشعبہ
یہاں سرکاری اور پرایئوٹ دونوں سکول ہیں۔ بارہیوں جماعت تک تعلیم مفت ہے۔ جبکہ یونیورسٹی کی تعلیم مفت نہیں ہے۔مالی حالت ایسی نہیں کہ سارے لوگ یونیورسٹی کی تعلیم لے سکیں۔ سو بہت نوجوان عام ملازمت یا فنی تعلیم کی طرف چلے جاتے ہیں۔ یہاں کا یونیورسٹی سے پہلے کا تعلیمی نظام لوکل باڈیز میں منتخب عوامی نمائندے چلاتے ہیں۔
طرز حکومت
یہاں کا صدر براہ راست عوامی ووٹوں سے منتخب ہوتا ہے۔ ایوان کے باقی نمائندے بھی عوامی ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں۔ پھر صدر کابینہ اور وزیراعظم کا ایوان سے انتخاب کرتا ہے۔ وزیراعظم انتظامیہ کا سربراہ ہوتا ہے جبکہ صدر ریاست کا۔
امریکی تہذیب اور نیشنل ازم
کوریا نے خاندانی نظام سے لے کر حکومتی ایوانوں تک ہر جگہ امریکہ ہی کی نقل کرنے کی کوشش کی ہے۔ جہاں کوریا کی قیادت امریکہ سے ٹیکنالوجی لے رہی تھی، وہیں امریکی ثقافت اور ریاست عوامی حلقوں میں ماڈل بن گئی اور نوجوان نسل انتہائی حد تک مرعوب نظر آتی ہے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر مشنری ادارے کوریا کومکمل عیسائی بنانا کی منصوبہ بندی میں ہیں۔ حکومتی حلقوں نے تمام مذاہب کو تبلیغ کی آزادی دی ہے۔ لیکن عملا ًعیسائیت کا پلڑا بھاری ہے۔
یہاں کا دانشور طبقہ مغرب اور کنفیوژن کی سماجی تعلیمات کے درمیان پریشان پھر رہا ہے۔ اور بڑھتی ہوئی انفرادیت پسندی، مادہ پرستی اور مقابلہ معشیت سے پریشان تو ضرور ہے، لیکن وہ امریکی تہذیب سے تعلق کی وجہ سے ملنے والی معاشی خوشحالی کوترک نہیں کرنا چاہتا۔ البتہ وہ مغرب کے کچھ اصولوں کی تعریف بھی کرتا ہے جن میں برابری، آزادی نسواں، عقلی دلائل، اور جمہوری طرز حکومت ہے۔ (لیکن مغرب کے ساتھ ساتھ کنفیوژن کی تعلیما ت (رحم دلی، انصاف، سخاوت و میانہ روی، منطق) کو میکس کر کے نیا سماج تشکیل دینے کی سوچ بھی رکھتا ہے۔ البتہ مغرب کے دوہرے معیار کو موضوع بحث نہیں بنایا جاتاہے اور مغرب نے مذہب اور ریاست کی علیحدگی کا جو نظریہ مظبوطی سے پروان چڑھایا ہے، یہ لوگ ابھی تک عیسائیت کو اس انداز سے سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
امریکی ہتھکنڈے
امریکہ خطے پہ اپنے پاؤں مضبوط کرنے کے لیے شمال و جنوب کے درمیان کوئی نہ کوئی ایشو کھڑا کیے رکھتا ہے جو اس کی موجودگی کو کچھ عرصے کے لیے اور مضبوط کر دیتا ہے اور یہ سلسلہ پچھلی چھ دہایئوں سے چل رہا ہے۔
کوریا کا ایشائی رجحان
اگرچہ کوریا کے اندر مغربی لابی ابھی تک بہت مظبوط ہے لیکن کوریا کی قیادت چین سے تعلقات کو بھی اہمیت کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔
کوریا جنگ کے بعد چین نظریاتی طور پہ شمالی کوریا کے قریب ہونے کی وجہ سے شمال کا ساتھ دیتا رہا۔ لیکن 1992ء میں جنوبی کوریا اور چین کے درمیان ملکی تعلقات کی بحالی ہوئی۔ اور اس کے بعد جنوبی کوریا خطہ میں چین کی اہمیت کو تسلیم کر رہا ہے۔ اور اس وقت چین اور کوریا بڑے تجارتی شراکت دار ہیں۔ کوریا-چین تجارتی حجم، کوریا کا جاپان اور امریکہ کے مشترکہ حجم سے بھی زیادہ ہے۔ چونکہ کوریا کی بڑی تجارتی کمپنیاں حکومتی ایوانوں میں اثرو نفوز رکھتی ہیں، اور ان کمپنیوں کے چین کے اندر کاروبار وسعت اختیار کر گئے ہیں، تو لامحالہ کوریا اب چین کی طرف جھک رہا ہے۔ 2013ء میں صرف سام سنگ نے 78 بلین امریکی ڈالر کا چین میں کاروبا کیا۔ اسی کمپنی کے سوا لاکھ ملازم چین میں ہیں۔
کورین یونین کا خواب
امریکہ جس کی آج تک پالیسی یہ ہی رہی ہے کہ جنوبی کوریا کو ڈرا کر خطہ میں اپنی موجودگی کا جواز پیدا کی جائے، اور مختلف سازشیں کر کے لڑایا جاتا ہے اور نرسری کلاس سے ہی شمالی کوریا کی قیادت کو دشمن کے روپ میں دیکھایا جاتا ہے۔ اور جنوبی کوریا کی عوام کو امریکی تہذیب سے حد درجے تک مرعوب کرایا جاتا ہے اور عوامی خواب امریکہ کا شہری بننا ہے۔ اور یہ نفرت اور امریکی محبت دونوں کوریا کے ملنے کے درمیان رکاوٹ ہے۔ چین دونوں کوریا کے ملنے کی خواہاں ہے۔ لیکن دونوں ملکوں کے سیاست دانوں کے مفادات اور نظریات میں فرق ہے۔ اور ایک دوسرے پہ قبضہ کر کے یونین بنانا چاہتے ہیں۔
کام اورسماج
آج تک کورین مزاج میں ایشائی پن ہے۔ یہ اپنی سے زیادہ عمر کے افراد کی عزت کرتے ہیں اور آج بھی پرانے لونر کیلنڈر کے ایام میں اپنے پرانے ثقافتی تہواروں کو مناتی ہے۔ اور ان مواقع پہ کھانے بنا کے گھروں میں بانٹے جاتے ہیں اور چاول کی فصل کٹنے کی خوشی میں چوزک کا تہوار منایا جاتا ہے۔
لیکن دنیا کے نئے دین جو کہ سرمایہ داری ہے وہ اپنے اپنے اثرات سے کوریا کو مکمل طور پہ متأثر کر رہا ہے۔ یہاں پہ مقابلہ معیشت کے سماج نے خود غرضی اور انفرادیت کو اس درجہ تک پرموٹ کیا کہ کام سب سے اوپر اور انسانی رشتے سب سے نیچے، نتیجہ کام اور معیشت ترقی اور خاندان، آبادی کمزور ہو رہا ہے۔ لیکن کام میں انفرادی رویے نہیں۔ کام ادارہ جاتی انداز میں کیا جاتا ہے اور لوگوں میں ادارہ جاتی رویے پیدا ہو رہے ہیں اور یہی ان کی معیشت میں ترقی کا راز ہے۔
یہاں کے لوگ اپنے پیسے بنیادی ضروریات پوری کرنے کے بعد سیروسیاحت اور نئی ٹیکنالوجی اور آلات خریدنے پر صرف کرتے ہیں اور اس طرح ان کی معیشت میں دولت کی گردش ہوتی رہتی ہے اور پیسہ مختلف جیبوں میں آتا جاتا ہے۔ اور کمپنیز بھی ترقی کرتی ہیں۔
عام طور پہ دونوں میاں بیوی جاب کرتے ہیں، اس وجہ سے باہر سے کھانے کا رواج زیادہ ہے اور خواتین ورکرز ہی ریسٹورنٹس کےشعبہ میں آگے آگے ہیں۔انفرادی چوری اور دھوکہ دہی نہیں ہے اور لوگ مدد کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
مستقبل
کورین نظام اپنے شہریوں میں تجسس اور کولمبس کی طرح نئی دنیا ڈھونڈنے کی سوچ بھی رکھتا ہے جو کہ مستقبل میں ادارہ جاتی لوٹ مار کی شکل لے سکتا ہے، جیسا کہ کورین بھی امریکی آقا کے نقشے قدم پہ چلتے ہوئے افریقہ میں حصہ لینے کی کوشش میں ہیں اور بھیک کی مدد سے ان کے دل بہلانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
ہر قوم کو اپنے آزادی اور خوش حالی کا حصول وتحفظ خود کرنا ہو گا اور دوسری قوم اگر کچھ دیتی ہے تو اپنے مفادات کے لیے۔